Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

پاکستان

سپریم کورٹ نے صحافیوں پر حملے کی تفتیش ایک ماہ میں مکمل کرنے کا حکم دے دیا

Published

on

سپریم کورٹ آف پاکستان نے صحافیوں پر حملے کی تفتیش ایک ماہ میں مکمل کرنے کا حکم دیتے ہوئے اسلام آباد پولیس کو 30 دن کی مہلت دے دی جبکہ عدالت نے اسد طور حملے کے ملزمان کے خاکے اخبارات میں شائع کرانے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ ملزمان کی گرفتاری کے لیے انعامی رقم مقرر کر کے اشتہار دیا جائے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ غلطیاں تو جیسے صرف سپریم کورٹ کے جج ہی کرتے ہیں، ہم کچھ کرتے نہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ بس پتھر پھینکتے جاؤ۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے صحافیوں کو ہراساں کرنے کے خلاف کیس کی سماعت کی۔

دوران سماعت چکوال سے تعلق رکھنے والے راجا شیر بلال، ابرار احمد اور ایم آصف ذاتی حیثیت میں عدالت میں پیش ہوئے، چکوال سے تعلق رکھنے والے درخواست گزار کمرہ عدالت میں درخواست دائر کرنے سے ہی مکر گئے۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ میں کوڈ آف کنڈکٹ تشکیل دینے کی درخواست 2022 میں دائر کی گئی تھی۔

اس موقع پر درخواست گزاروں نے مؤقف اپنا کہ ہم نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر ہی نہیں کی، جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ کسی نے آپ کے نام اور رہائشی پتے کیسے استعمال کیے؟ کیا آپ بغیر اجازت درخواست دائر کرنے والوں کے خلاف ایف آئی آر کٹوائیں گے؟

ایم آصف نے عدالت میں بیان دیا کہ اگر آپ کی سرپرستی ہوگی تو ہم ایف آئی آر کٹوا دیں گے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم کیوں سرپرستی کریں؟ جس پر ایڈووکیٹ آن ریکارڈ رفاقت حسین شاہ کا کہنا تھا کہ جس ایڈووکیٹ آن ریکارڈ کے ذریعے درخواست دائر ہوئی ان کا انتقال ہو چکا ہے۔

دوران سماعت چکوال سے تعلق رکھنے والے درخواست گزاروں کے وکیل حیدر وحید سے چیف جسٹس نے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو صرف چکوال والے کلائنٹ ہی کیوں ملتے ہیں؟ ٹی وی پر بیٹھ کر ہمیں درس دیا جاتا ہے عدالتوں کو کیسے چلنا چاہیئے، پہلے ہم پر بمباری کی جاتی ہے پھر عدالت میں پیش ہوکر کہتے ہیں کیس ہی نہیں چلانا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید ریمارکس دیے کہ ملک کو تباہ کرنے کے لیے ہر کوئی اپنا حصہ ڈال رہا ہے، سچ بولنے سے کیوں ڈرتے ہیں؟ وکیل کو اپنا ایڈووکیٹ آن ریکارڈ خود کرنے کا اختیار ہوتا ہے، کونسا مشہور آدمی چکوال میں بیٹھا ہوا ہے؟ گالیاں دینی ہوں تو ہر کوئی شروع ہو جاتا ہے لیکن کوئی سچ نہیں بولتا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم جانچ کے لیے معاملہ پنجاب فرانزک لیبارٹری کو بجھوا دیتے ہیں، اس پر ایڈووکیٹ حیدر وحید نے کہا کہ مجھے ایڈووکیٹ آن ریکارڈ نے ہدایات دی تھیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ غلط خبر پر کوئی معافی تک نہیں مانگتا، کوئی غلط خبر پر یہ نہیں کہتا ہم سے غلطی ہو گئی ہے، غلطیاں تو جیسے صرف سپریم کورٹ کے جج ہی کرتے ہیں، بس فون اٹھایا اور صحافی بن گئے کہ ہمارے ذرائع ہیں، کسی کے کوئی ذرائع نہیں ہیں، ہم کچھ کرتے نہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ بس پتھر پھینکے جاؤ، باہر کے ملک میں ایسا ہوتا تو ہتک عزت کے کیس میں جیبیں خالی ہو جاتیں۔

بعد ازاں مطیع اللہ جان کیس میں پیشرفت نہ ہونے پر چیف جسٹس نے شدید برہمی کا اظہار کیا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) انویسٹی گیشن کو روسٹرم پر بلایا اور ریمارکس دیے کہ سامنے آؤ، واقعے کی ریکارڈنگ موجود ہے، اغواکاروں کا سراغ کیوں نہ ملا؟ ایس ایس پی انویسٹی گیشن نے بتایا کہ ہمارے پاس سی سی ٹی وی موجود نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جھوٹ بولنے پولیس میں آئے ہو؟ یہ کیا بات کر رہے ہو؟ پولیس یونیفارم کی توہین کر رہے ہو، ریکارڈنگ موجود ہے اور کہہ رہے ہو ریکارڈنگ نہیں، کچھ پڑے لکھے بھی ہو یا نہیں؟ ایس ایس پی نے جواب دیا جی سر۔

چیف جسٹس نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے دریافت کیا کہ کتنے سال ہو گئے ہیں پولیس میں؟ ایس ایس پی نے بتایا کہ مجھے پولیس میں 13 سال ہو گئے ہیں۔

چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ ایسے افسر کو ہٹایا کیوں نہیں جا رہا؟ فوری فارغ کریں، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ میں ان کی طرف سے معافی مانگتا ہوں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ معافی کیوں، ان کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کرتے، کارروائی کریں، میں بالکل مطمئن نہیں ہوں ان سے، یہ مذاق بنا رہے ہیں۔

بعد ازاں صحافی مطیع اللہ جان اغوا کیس میں انسپکٹر جنرل (آئی جی) اسلام آباد علی ناصر رضوی عدالت میں پیش ہوئے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے آئی جی اسلام آباد سے مکالمہ کیا کہ آئی جی صاحب کیا کر رہی ہے آپ کی پولیس؟ علی ناصر رضوی نے جواب دیا کہ سر ہمیں کچھ وقت دے دیں میں خود اس کیس کو دیکھوں گا، کوئی شخص قانون سے بالاتر نہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اچھا آپ ہمیں سکھا رہے ہیں کہ کوئی شخص قانون سے بالاتر نہیں، کل میڈیا میں ہیڈلائن ہوگی کہ آئی جی اسلام آباد نے کہہ دیا کوئی قانون سے بالاتر نہیں، اسلام آباد پولیس کو کوئٹہ انکوائری کمیشن کی رپورٹ پڑھائیں، کینیڈا کو دیکھیں کیسے انہوں نے دوسرے ملک کے باشندوں کے خلاف تحقیقات کیں، ہم لوگ اور ہمارے صحافی بہت خوش ہوئے کہ کسی اور ملک کے خلاف کینیڈا نے تحقیقات کیں مگر یہاں اسلام آباد پولیس کو خود سیکیورٹی چاہیے۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسی نے کہا کہ ایک ایس ایس پی کے ساتھ گارڈز ہوتے ہیں جیسے ان کو کسی سے خطرہ ہے، جو پولیس کبھی ہماری حفاظت کرتی تھی اب ان کی حفاظت کی جاتی ہے، ایک پولیس افسر کے گرد پوری نفری گھوم رہی ہوتی ہے۔

صحافی مطیع اللہ نے عدالت کو بتایا کہ اغوا کے وقت میں نے موبائل پھینکا تھا جو پولیس لے گئی تھی، پولیس نے میرا موبائل واپس نہیں کیا۔

اس پر صحافی اسد طور نے بتایا کہ میرے موبائل بھی لے لیے گئے تھے جو آج تک واپس نہیں ہوئے، مجھ پر حملہ ہوا تو وہ لوگ موبائل پر بات کر رہے تھے مگر جیو فینسنگ نہیں کی گئی۔

اس موقع پر تفتیشی افسر نے کہا کہ مطیع اللہ جان کا موبائل حملہ آور ساتھ لے گئے تھے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ یہ تو آسان تھا اگر موبائلز کا ڈیٹا نکال لیا جاتا تو ملزمان پکڑے جاتے، پولیس کو شاید ڈر تھا کہ موبائل کسی ایسی جگہ نہ ہو جن کے خلاف کارروائی نہیں ہوتی، لگتا ہے اب پولیس والوں کی تحقیقات کیلئے ایف آئی اے کو کہنا پڑے گا جیسے پولیس جے آئی ٹی بنا لیتی ہے ہم پولیس کے خلاف جے آئی ٹی بنا لیتے ہیں۔

انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ پولیس والے عدالت آکر سر سر کہہ کر مکھن لگاتے ہیں اور چلے جاتے ہیں،آئی جی اسلام آباد نے کہا کہ مجھے اسلام آباد کا چارج سنبھالے تھوڑا سا وقت ہوا ہے میں خود یہ ان کیسز کی نگرانی کروں گا۔

چیف جسٹس نے آئی جی اسلام آباد سے مکالمہ کیا کہ کارروائی ہوگی یا اوپر سے آرڈر آجائے گا، مطیع اللہ جان اغوا کی تحقیقات کرنی والی پولیس ٹیم تبدیل ہوگی یا نہیں؟

بعد ازاں آئی جی اسلام آباد نے مطیع اللہ جان اغوا کیس میں تفتیشی افسران تبدیل کرنے کی یقین دہانی کروادی۔

آئی جی اسلام آباد نے کہا کہ تفتیشی افسران تبدیل کر کے خود صحافیوں پر حملوں کے مقدمات دیکھوں گا۔

بعد ازاں سپریم کورٹ نے صحافی ابصار عالم، مطیع اللہ جان اور اسد طور پر حملے کی تفتیش ایک ماہ میں مکمل کرنے کا حکم دے دیتے ہوئے اسلام آباد پولیس کو 30 دن کی مہلت دے دی۔

اس کے علاوہ عدالت عظمیٰ نے اسد طور حملہ کے ملزمان کے خاکے اخبارات میں شائع کرانے کا حکم دیتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ملزمان کی گرفتاری کے لیے انعامی رقم مقرر کر کے اشتہار دیا جائے اور مطیع اللہ جان اغوا کی مکمل سی سی ٹی وی فوٹیج پنجاب فارنزک لیب کو بھییج جائے۔

سپریم کورٹ نے کیس کی مزید سماعت جون تک ملتوی کر دی۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین