Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

دنیا

پارٹی میں امیدواروں کا ہجوم صدارتی نامزدگی کے لیے ٹرمپ کا راستہ ہموار کرسکتا ہے، سابق صدر کے مخالفین کے خدشات

Published

on

ری پبلکن پارٹی کے ارکان اور الیکشن سٹرٹیجسٹس کا کہنا ہے کہ پارٹی میں صدارتی امیدواروں کی بڑھتی ہوئی تعداد سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نامزدگی کے راستے ہموار کر سکتی ہے اور ٹرمپ کے مرکزی حریف فلوریڈا کے گورنر رون ڈی سینٹس کی راہ میں روڑے اٹکا سکتی ہے۔

ری پبلکن پارٹی کے وہ ارکان جو یہ خدشہ محسوس کرتے ہیں کہ ٹرمپ کی تقسیم کی سیاست ڈیموکریٹ امیدوار جو بائیڈن کوفائدہ پہنچا سکتی ہے، پریشان ہیں کہ اگر صدارتی دوڑ میں پارٹی کے امیدواروں کی تعداد بڑھتی ہے تو یہ زیادہ تعداد اینٹی ٹرمپ ووٹ کو تقسیم کر دے گی اور اس سے ٹرمپ کی نامزدگی کا راستہ صاف ہو جائے گا اور یہ بالکل ویسے ہی ہوگا جیسے دو ہزار سولہ کے پارٹی الیکشن دوڑ میں ہوا تھا۔

سابق نائب صدر مائیک پنس، نیوجرسی کے سابق گورنر کرس کرسٹی، شمالی ڈکوٹا کے گورنر ڈف برگم اس ہفتے صدارتی نامزدگی کے لیے دوڑ میں شامل ہونے کا پروگرام بنا رہے ہیں،ان امیدواروں کے سامنے آنے سے پارٹی کے اندر ٹرمپ کے حریفوں کی تعداد دوہندسوں میں ہو جائے گی۔

سابق صدر ٹرمپ کے پارٹی کے اندر حامیوں کی تعداد ایک تہائی بتائی جاتی ہے، جو ہر صورت ٹرمپ کی نامزدگی کے حق میں ووٹ دیں گے،ڈی سینٹس ان حامیوں کو لبھانے کی جارحانہ کوششیں کر رہے ہیں، اس کے باوجود چند ایک ہی ڈی سینٹس کے حق میں جا سکتے ہیں،اگر ڈی سینٹس نے نامزدگی جیتنا ہے تو انہیں ان ستر فیصد ووٹروں پر توجہ دینا پڑے گی جنہوں نے ابھی اپنا ذہن نہیں بنایا۔

ان ستر فیصد پارٹی ووٹروں کاس اعتماد جیتنے کے لیے ڈی سینٹس کو پارٹی میں دیگر حریفوں کے ساتھ سخت مقابلے کا سامنا ہے،ری پبلکن پارٹی کے کئی امیدوار توایسے ہیں جو ابھی تک جائزہ سرویز میں بھی جگہ نہیں بنا سکے، اس کے باوجود وہ پارٹی نامزدگی جیتنے میں ڈی سینٹس کے ووٹ خراب کر سکتے ہیں۔

ٹرمپ کے سب سے بڑے ناقد اور پارٹی کے رکن، سابق گورنر میری  لینڈ، لیری ہوگن کا کہنا ہے کہ مجھے اس بات پر شدید تحفظات ہیں کہ ہم دو ہزار سولہ کی غلطیاں دہرا رہے ہیں۔ لیری ہوگن بھی صدارتی نامزدگی کی دوڑ میں شامل ہونا چاہتے تھے لیکن پھر زیادہ امنیدوار ہونے کی صورت میں ٹرمپ کا راستہ صاف ہونےکے ڈر سے پیچھے ہٹ گئے۔ دو ہزار سولہ میں بھی ری پبلکن پارٹی کے اندر صدارتی دوڑ کے سترہ امیدوار تھے۔

ہوگن نے ایک انٹرویو میں کہا کہ دس یا اس سے زیادہ امیدواروں کی نسبت کم یا صرف دو امیدوار لیکن مضبوط امیدوار ہونا ہمارے لیے بہتر ہوگا، زیادہ امیدوار ہونے سے جس کو فائدہ ہے وہ صرف ٹرمپ ہیں۔

ہوگن ایک اعتدال پسند ری پبلکن ہیں جو چاہتے ہیں کہ پارٹی اب ٹرمپ دور سے آگے نکلے،ہوگن کا کہنا ہے یہ حماقت ہوگی کہ بار بار ایک ہی کام کیاجائے اور مختلف نتیجے کی امید رکھی جائے۔

پارٹی نامزدگی کے ابتدائی مرحلے میں ٹرمپ کو اب بھی برتری حاصل ہے۔ مئی میں ہونے والے ایک انتخابی جائزے کے مطابق ٹرمپ کو انچاس فیصد پارٹی ووٹر کی حمایت حاصل ہے جبکہ ڈی سینٹس کو صرف انیس فیصد کی حمایت حاصل ہے۔ مائیک پنس کو صرف پانچ فیصد، سابق گورنر جنوبی کیرولینا نکی ہیلی کو صرف چار فیصد کی حمایت حاصل ہے۔

باقی امیدوار تو ابھی تک دوڑ میں کہیں بھی نہیں،کرس کرسٹی کو صرف ایک فیصد، جنوبی کیرولینا کے سینیٹر ٹم سکاٹ کو بھی ایک فیصد اور سابق گورنر آرکنساس ہچنسن کو صفر حمایت حاصل ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کچھ امیدوار نامزدگی جیتنے کی امید کے ساتھ میدان میں اترے ہیں جبکہ کچھ کو علم ہے کہ وہ نامزدگی نہیں جیت سکتے لیکن وہ کابینہ میں جگہ بنانے کے لیے دوڑ کا حصہ بنے ہیں،یا پھر وہ نائب صدارت کی نامزدگی کی امید رکھتے ہیں اور کچھ صرف شہرت چاہتے ہیں۔

ماضی میں کم حمایت رکھنے والے بھی صدارتی نامزدگی کے لیے مہم میں کامیاب ہوئے جیسے ٹرمپ جب میدان میں آئے تھے تو صرف چار فیصد حمایت کئے ساتھ سامنے آئے تھے اور انیس سو چھہتر میں جمی کارٹر۔

کچھ امیدوار فرنٹ رنرز کی کمزوریوں کے دیکھتے ہوئے میدان میں آئے ہیں، جیسے ٹرمپ کو مقدمات کا سامنا ہے اور ڈی سینٹس ابھی تک قدم جمانے کی کوشش میں ہیں۔ یہ امدوار سمجھتے ہیں کہ کسی مرحلے پر ڈی سینٹس لڑکھڑا سکتے ہیں۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین