Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

تازہ ترین

حماس کی مسلح تحریک کا ایک باب تمام ہوا!

Published

on

A chapter of the armed movement of Hamas is over! Column Imran Yaqub Khan

فلسطین کے سابق وزیر اعظم اور حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کو ایران میں قاتلانہ حملے میں شہید کر دیا گیا۔ وہ ایران کے نئے صدر مسعود پزشکیان کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کے لیے ایران میں موجود تھے۔ حماس نے ان کی شہادت کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں یہودی ایجنٹوں نے نشانہ بنایا‘ جس کا بدلہ لیا جائے گا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق حماس کے سربراہ کو تہران میں ان کی رہائش گاہ پر رات 2 بجے گائیڈڈ میزائل کے ذریعے نشانہ بنایا گیا۔ ایرانی حکام نے کہا ہے کہ اسماعیل ہنیہ پر قاتلانہ حملے کی تحقیقات جلد سامنے لائی جائیں گی۔

یاد رہے کہ رواں سال عیدالفطر کے موقع پر اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں اسماعیل ہنیہ کے تین بیٹے بھی شہید ہو گئے تھے۔ ان کے تینوں بیٹے حازم، محمد اور عامر اپنی گاڑی میں جا رہے تھے کہ ان کی گاڑی پر اسرائیل نے بمباری کر دی تھی۔ اس حملے میں اسماعیل ہنیہ کے 3 بیٹوں کے علاوہ1 پوتی اور 3 پوتے بھی شہید ہوئے تھے۔ بعد ازاں اسرائیل کے غزہ پر فضائی حملے میں اسماعیل ہنیہ کی بہن زاہر ہنیہ سمیت خاندان کے 10 افراد شہید ہو گئے تھے، لیکن عزم و ہمت کے پیکر اسماعیل ہنیہ نے ان شہادتوں کو فلسطین میں دوسرے مسلمانوں کی شہادتوں‘ جو اب 40 ہزار کے ہندسے کو چھونے والی ہیں‘ اور جو 1948ءکے نکبہ (نکبہ 1948ءکے فلسطینی خروج یا فلسطینی ہجرت کو کہا جاتا ہے جب اسرائیل نے سات لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کر دیا گیا تھا) کے بعد شہادتوں سب سے بڑی تعداد ہے‘ جیسی شہادتیں قرار دیا اور کہا کہ فلسطینی قوم کی قربانیں رائیگاں نہیں جائیں گی۔

ہر غیر ملکی حملے اور غیر ملکی قبضے پر ردِ عمل کی طرح فلسطین کی اسرائیل کے خلاف تحریکِ مزاحمت بھی دو حصوں میں بٹی نظر آتی ہے۔ حماس‘ جس کی بنیاد 1987ءمیں شیخ احمد یاسین نے رکھی تھی‘ اسرائیل کو طاقت کے ذریعے ختم کرنے کی داعی ہے۔ حماس کے بھی آگے دو حصے ہیں۔ ایک حصہ معاشرتی امور کے لیے کام کرتا ہے جبکہ دوسرا فلسطین کی حفاظت پر مامور ہے اور بیرونی جارحیت (اسرائیل) کے خلاف طاقت کے استعمال پر یقین رکھتا ہے۔ حماس کی ایک شاخ اردن میں قائم تھی۔ شاہ حسین کے دور میں یہ سلسلہ چلتا رہا لیکن ان کے بعد شاہ عبداللہ نے حماس کو برداشت نہ کیا اور ان کے رہنماﺅں کو قطر جلا وطن کر دیا گیا۔ اسماعیل ہنیہ بھی قطر ہی میں رہائش پذیر تھے اور وہیں سے حماس کے معاملات چلا رہے تھے۔

حماس کے برعکس الفتح تنظیم‘ جس کی بنیاد یاسر عرفات نے رکھی تھی‘ ایک انقلابی فلسطینی قومی تحریک ہے جو مسئلہ فلسطین کو پُرامن طریقے سے حل کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ اس کے موجودہ سربراہ محمود عباس ہیں۔ موقف اور نکتہ ہائے نظر میں اختلافات کی وجہ سے حماس اور الفتح اسرائیل کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کے خلاف بھی برسرِ پیکار رہی ہیں۔ دونوں تنظیموں میں کئی مسلح جھڑپیں بھی ہو چکی ہیں۔ ان دونوں تنظیموں کے ایک دوسرے کے خلاف اقدامات کا سب سے زیادہ فائدہ اسرائیل نے اٹھایا جو ہر ایسے اقدام کے بعد خود کو زیادہ محفوظ اور مضبوط محسوس کرتا رہا۔ اکتوبر 2023ءکے اسرائیلی حملے کا سامنا بھی حماس ہی کر رہی ہے‘ الفتح زیادہ تر لا تعلق نظر آئی ہے۔ گزشتہ تین دہائیوں کے دوران حماس اور الفتح کے اختلافات دور کرنے کی کئی کوششیں کی گئیں‘ لیکن سارے اختلافات دور نہیں کیے جا سکے ہیں۔ اگر یہ اختلافات دور ہو جاتے اور دونوں تنظیمیں مل کر مسئلہ فلسطین حل کرنے کے لےے کام کرتیں تو ممکن ہے آج فلسطین کی صورت حال مختلف ہوتی اور اسرائیل اور اس کے حامی اس قدر دندنا نہ رہے ہوتے۔

اسماعیل ہنیہ کی شہادت سے حماس کے ایک پُر عزم‘ پُر آشوب دور کا خاتمہ ہو گیا۔ اسرائیل نے یہ حملہ کر کے فلسطین‘ خصوصی طور پر حماس پر کاری ضرب لگائی ہے۔ حماس اس کاری ضرب کو سہہ پائے گی؟ اس سوال کے جواب میں ہی اسرائیل فلسطین جنگ کے مستقبل کے سوال کا جواب مضمر ہے۔ حماس کے سینئر ترجمان سامی ابو زہری نے غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسماعیل ہنیہ کے قتل سے اسرائیل اپنے مقاصد حاصل نہیں کر سکے گا، اور اب مقبوضہ بیت المقدس کو آزاد کرانے کے لیے ’کھلی جنگ‘ چھڑے گی، اور حماس اس کی ہر قیمت چکانے کے لیے تیار ہے۔ یہ قیمت کیا ہو سکتی ہے‘ اس بارے میں فوری طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ کھلی جنگ چھڑے گی یا جنگ بندی کا کوئی راستہ تلاش کیا جائے گا‘ یہ بھی ابھی غیر واضح ہے۔ البتہ ایک بات واضح طور پر کہی جا سکتی ہے کہ اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد بھی خطے کی عرب ریاستوں کی پالیسی میں کوئی واضح تبدیلی نظر نہیں آئے گی۔ انہیں شاید یہ بھی یاد نہ ہو کہ 7 اکتوبر 2023ءکو حماس کے جنگجووؤں کی جانب سے اسرائیل پر حملے کے بعد قطر سے الجزیرہ ٹی وی پر اپنے اعلان میں اسماعیل ہنیہ نے کہا تھا کہ عرب ریاستوں کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ معاہدے اس تنازع کو ختم نہیں کر سکیں گے۔

1948ءمیں فلسطین کی سرزمین پر اسرائیل کے قیام کے اعلان کے نتیجے میں پیدا ہونے والے فلسطین اسرائیل تنازع کے بارے میں خطے کے عرب ریاستیں پہلے پہل تو خاصی سرگرم نظر آئیں‘ حتیٰ کہ انہوں نے اسرائیل کے خلاف جنگیں بھی کیں‘ لیکن پھر اچانک ان سب نے اس بھاری پتھر کو چوم کر ایک طرف رکھ دیا اور اپنے اپنے معاملات میں مگن ہو گئیں‘ حالانکہ اس حقیقت کو کسی بھی طور اور کسی بھی حوالے سے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ اسرائیل فلسطین تنازع کا جب بھی اور جو بھی حل نکلا‘ مشرق وسطیٰ کی عرب دنیا اس کے (منفی یا مثبت) اثرات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکیں گی۔

مذہبی اور تاریخی حوالوں سے مسلمانوں کے یہود و نصاریٰ کے ساتھ تعلقات کے بارے میں بہت کچھ کہا اور لکھا گیا‘ لیکن اگر ہم ماضی بعید کی تاریخ کو نہ بھی کھنگالیں اور ماضی قریب کے معاملات‘ خصوصاً گزشتہ سوا صدی کے ایشوز‘ حالات و واقعات اور عالمی معاملات پر ہی ایک نظر ڈال لیں تو واضح ہو جائے گا کہ کون کہاں کھڑا ہے اور کیا کر رہا ہے۔

جب سے حماس اسرائیل تنازع شروع ہوا ہے‘ امریکہ اور مغربی ممالک کی جانب سے مسلسل اسرائیل کی حمایت اور ہر طرح سے مدد کی جا رہی ہے۔ وہ جو حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہیں‘ انہیں اسرائیل کے توسیع پسندانہ‘ جارحانہ اور یکطرفہ اقدامات کیوں نظر نہیں آتے؟ انہیں اقوام متحدہ کی جانب سے اسرائیل کی جارحیت کے خلاف منظور کی گئی قراردادیں بھی نظر نہیں آتیں‘ اور انہیں شاید یہ بھی معلوم نہیں کہ 1948ءمیں اسرائیل کے قیام کے پیرامیٹرز کیا تھے اور اب اسرائیل کہاں تک پھیل اور فلسطین کس حد تک سکڑ چکا ہے۔

حالات و واقعات کو وقت کی گردش کے الٹ چلانے کی کوششیں کرنے والے سب کو نظر بھی آ رہے ہیں اور ان کے مستقبل کے عزائم اور ارادے کیا ہو سکتے ہیں‘ یہ بھی اب نوشتہ دیوار ہیں۔ اس کے باوجود کوئی ریت میں سر دے کر خود کو محفوظ سمجھنا چاہتا ہے تو اس کا فیصلہ بھی تغیر پذیر حالات ہی کریں گے۔

اسماعیل ہنیہ یہی سوچ لے کر زندہ رہے اور یہی عزم لے کر شہادت کے رتبے پر فائز ہو گئے کہ وقت کے پہیے کو الٹا نہیں چلنے دینا۔ تاریخ انہیں کیا حیثیت اور وقعت دیتی ہے‘ یہ ہم تاریخ پر چھوڑ دیتے ہیں۔ اسماعیل ہنیہ کی شہادت میں اگر کسی کا کوئی کردار ہے تو اس کردار کا فیصلہ بھی تاریخ پر چھوڑ دینا چاہےے۔ اگر قتل (شہادت) میں کسی نے اسرائیل کے ایجنٹ کا کردار ادا کیا ہے تو اس سے بھی تاریخ خود نمٹ لے گی۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین