Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

تازہ ترین

افغانستان، افغان مہاجرین اور پاکستان

Published

on

افغانستان کے لیے پاکستان کے نمائندہ خصوصی آصف درانی کا یہ کہنا کیا غلط ہے کہ پاکستان کو بھارت کے ساتھ ہونے والی تین جنگوں میں جانی و مالی نقصان کے مقابلے میں افغانستان کے اندرونی حالات کی وجہ سے زیادہ نقصان پہنچا ہے اور یہ کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں گزشتہ دو دہائیوں کے دوران 80 ہزار سے زائد پاکستانی شہید ہوئے اور ملک کو آج بھی جانی اور مالی نقصان ہو رہا ہے؟ اور یہ کہ نیٹو افواج کے انخلا کے بعد امید تھی کہ افغانستان میں امن سے خطے میں امن آئے گا لیکن یہ توقعات پوری نہ ہو سکیں۔ اور یہ کہ جب سے سوویت یونین نے پڑوسی ملک پر حملہ کیا ہے، پاکستان کو جغرافیائی طور پر کافی نقصان اٹھانا پڑا ہے، 9/11 کے بعد بننے والے عالمی نظام نے پاکستان پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں؟ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ افغانستان میں سٹریٹیجک ڈیپتھ تلاش کرتے کرتے ہم خود حالات و واقعات کی ڈیپتھ میں کہیں کھوتے جا رہے ہیں؟

پاکستان سوویت افغان جنگ میں کیوں کودا؟ اور نائن الیون کے بعد ایک بار پھر پاکستان نے امریکی اور نیٹو افواج کے لیے فرنٹ لائن سٹیٹ بننا کیوں قبول کیا؟ پاکستان اگر سوویت افغان جنگ کا حصہ نہ بنتا یا نیٹو اتحاد کے حملہ آور ہونے پر فرنٹ لائن سٹیٹ کے طور پر کردار ادا کرنے کے لیے تیار نہ ہوتا تو کیا واقعی اس کی بقا اور استحکام کو خطرات لاحق ہو جاتے یا یہ پالیسی اختیار کرنے کے اغراض و مقاصد کچھ اور تھے؟ یہ اور اسی نوعیت کے دوسرے متعدد سوالات طویل بحث کے متقاضی ہیں جس کے لیے خاصا وقت اور توانائی درکار ہیں۔ ان دیرینہ سوالات پر پھر کبھی بات کر لیں گے’ فی الوقت سوال یہ ہے کہ مذکورہ بالا جنگوں کی وجہ سے افغان مہاجرین کا جو سیلاب پاکستان میں داخل ہوا’ اس کے ہماری معاشرت اور معیشت پر کیا اثرات مرتب ہوئے؟ گزشتہ برس اکتوبر میں سامنے آنے والی اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان اور ایران 90 فیصد افغان مہاجرین کی میزبانی کرتے ہیں جبکہ افغانستان میں انسانی بحران کے کم ہونے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے جس کی وجہ سے اس سال (2023ء) کے وسط تک اس کے 9.7 ملین شہری بے گھر ہو چکے ہیں۔

اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ہماری معیشت حکومتوں کی ناقص پالیسیوں، غلط منصوبہ بندی اور تسلسل کے ساتھ جاری سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے عرصے سے ایک ایسی دلدل میں دھنستی چلی جا رہی ہے جہاں سے اربوں ڈالرز کے بیرونی قرضے اور خیر خواہ ممالک کی جانب سے ملنے والی اربوں ڈالرز کی امدادی رقوم بھی باہر نہیں نکال سکی ہیں۔ ان غلط اور ناقص پالیسیوں میں ایک افغان مہاجرین کو بلا رکاوٹ پاکستان در آنے کی اجازت دینا بھی ہے’ اور اس سے بڑی غلطی ان کو عبوری دورانیے کے لیے کسی ایک جگہ یا علاقے تک محدود رکھنے کے بجائے پورے ملک میں پھیل جانے کی اجازت دینا ہے۔ یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ سوویت افغانستان جنگ اور پھر امریکہ افغانستان جنگ کے دوران 50 لاکھ کے لگ بھگ افغان شہریوں نے پاکستان میں پناہ لی تھی۔ پاکستان گزشتہ چار سے زیادہ دہائیوں سے افغانستان کے مہاجرین کی میزبانی کر رہا ہے لیکن خود مسائل کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔

جیسا کہ پہلے عرض کیا، ہماری حکومتوں کی کوئی مناسب منصوبہ بندی نہ ہونے کی وجہ سے افغان مہاجرین پہلے پاکستان میں داخل ہوئے پھر پورے ملک میں پھیل گئے۔ وقت گزرنے کے ساتھ انہوں نے خود کو یہاں کے ماحول کے مطابق ڈھال لیا، یہاں کاروبار شروع کر دیے اور جائیدادیں خرید لیں۔ ان مہاجرین کی وجہ سے پاکستان کی معیشت پر منفی اثرات تو مرتب ہو ہی رہے تھے، کلاشنکوف کلچر ہمارے ملک میں در آیا، منشیات کے استعمال میں بے تحاشا اضافہ ہوا، اور دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہو گیا۔ ان سب عوامل کے اپنے الگ منفی اثرات تھے جن سے پورا معاشرہ متاثر ہوا۔ سمگلنگ کے دھندے کو جو عروج ملا وہ اس پر مستزاد۔ غیر قانونی طور پر مقیم مہاجرین نے پاکستان کے بدعنوان سسٹم سے فائدہ اٹھا کر نہ صرف یہاں کے قومی شناختی کارڈ بلکہ پاسپورٹ بھی بنوا لیے، یوں وہ فیک طور پر پاکستان کے شہری بن گئے معیشت کے ساتھ معاشرت کو بھی متاثر کرنے لگے۔ سوویت افغان جنگ کے نتیجے میں افغان مہاجرین ایران اور دوسرے ہمسایہ ممالک میں بھی گئے لیکن ان ممالک کی حکومتوں نے سمجھ داری کا ثبوت دیتے ہوئے انہیں ایک علاقے تک محدود رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری نسبت وہ ممالک آج سکون میں ہیں۔

اس سارے عمل کا ایک تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ عالمی برادری کی جانب سے جنگ کے آغاز میں تو ان افغان مہاجرین کی خوب آؤ بھگت کی گئی اور ان کی دیکھ بھال کے لیے فنڈز فراہم کیے گئے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ یہ جذبہ اور عزم ماند پڑتا چلا گیا’ اور آخر کار ان مہاجرین کو میزبان ملک اور حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔ عالمی برادری کی جانب سے اپنے اس بین الاقوامی فرض کی ادائی سے قاصر ہونے کا نتیجہ ہے کہ افغان مہاجرین نے میزبان ممالک میں معاشی سرگرمیاں شروع کر دیں جس کے منفی اثرات پاکستان کی معیشت پر اب بھی بڑی شدت سے محسوس کیے جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان اثرات سے پاکستان آج تک باہر نہیں نکل سکا ہے۔

ماضی قریب کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں 40 لاکھ افغان مہاجرین رہائش پذیر تھے۔ ان میں سے 22 لاکھ افغان باشندوں کے پاس افغانستان کا پاسپورٹ یا حکومت پاکستان کی طرف سے دیا جانے والا مہاجرین کارڈ موجود ہے جبکہ کم و بیش 17 لاکھ افغان مہاجرین ایسے ہیں جن کے پاس کوئی کاغذی دستاویز موجود نہیں۔ گزشتہ برس نگران حکومت کے دور میں دستاویزی ثبوتوں کے بغیر یہاں رہنے والے تمام لوگوں کو 31 اکتوبر 2023 تک پاکستان سے نکل جانے کا حکم دیا گیا تھا۔ ان میں افغان مہاجرین بھی شامل تھے۔ افغان مہاجرین 1979ء سے اب تک پاکستان آتے اور جاتے رہے ہیں۔ مہاجرین کی ایک بڑی تعداد طالبان کے افغانستان پر دوبارہ قابض ہونے کے بعد بھی یہاں آئی۔ یہ کوئی چھ لاکھ کے لگ بھگ مہاجرین تھے۔ یہاں افغان مہاجرین کی تیسری نسل پروان چڑھ رہی ہے۔ ان کے لیے پاکستان چھوڑنا آسان نہیں ہے لیکن پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ ان لوگوں کی وجہ سے مسائل بڑھ رہے ہیں، جن کی طرف آصف درانی صاحب نے اشارہ کیا ہے اور جن پر اگر اب توجہ نہ دی گئی تو یہ گھمبیر شکل اختیار کر جائیں گے۔ ان میں سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی کا ہے۔ حکومت کا خیال ہے کہ پاکستان میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات میں افغان باشندے ملوث ہیں۔ اسی لیے حکومت نے ان تمام افغانوں کو جن کے پاس کوئی مناسب دستاویزات نہیں، ملک سے نکل جانے کا کہا ہے۔ اس فیصلے کے بعد عالمی برادری کی جانب سے پاکستان پر یہ پریشر آیا کہ وہ افغانوں کو اپنی سرزمین سے نہ نکالے کیونکہ جب یہ مہاجرین افغانستان میں پہنچیں گے تو ان کو مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ میرے خیال میں تو یہ مشورہ دینے والوں کو خصوصاً عالمی برادری کو افغانستان واپسی پر ممکنہ طور پر درپیش ہونے والے مسائل حل کرنے میں افغان باشندوں اور افغان انتظامیہ کی مدد کرنی چاہیے۔

حالات کا تقاضا ہے کہ عالمی برادری کی توجہ افغان مہاجرین کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل کی طرف دلائی جائے تاکہ ان مہاجرین کی ان کے وطن واپسی کے لیے راہ ہموار ہو سکے۔ یہ بات خاصے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ اس ٹاسک کے پورا ہونے سے نہ صرف امن و امان کی صورت حال بہتر ہو گی بلکہ ملکی معیشت کے استحکام کی کوئی سبیل بھی کی جا سکے گی۔

عمران یعقوب خان پاکستان کے سینئر صحافی، تجزیہ کاراور براڈکاسٹر ہیں، تین دہائیوں سے زائد عرصے پر محیط پیشہ ورانہ زندگی میں مختلف اخبارات اور ٹی وی چینلز میں کلیدی عہدوں پر کام کرچکے ہیں، جیو نیوز کی بانی ٹیم کے رکن تھے ،اس سے پہلے وہ روزنامہ جنگ میں بطوررپورٹراور فیچر رائٹر بھی کام کرتے رہے، وہ 92 نیوز ،دنیا نیوز اور نیوز ویک پاکستان کے ڈائریکٹر نیوز کی حیثیت سے بھی کام کرچکے ہیں، ان دنوں جی این این ٹی وی سے منسلک ہیں۔

Continue Reading
1 Comment

1 Comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین