Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

تازہ ترین

کیا سیاسی اصلاحات ناممکن ہیں ؟

Published

on

مملکت خداداد میں سول ملٹری تنازعات اور معاشی بحران کوئی اجنبی مظہر نہیں بلکہ یہ اس ملک کی تقدیر کے ساتھ جڑے وہ دائمی مسائل ہیں، پون صدی سے صحرا کے بھٹکے ہوئے مسافروں کی طرح جنہیں ہم خود تخلیق کرکے خود ہی سلجھانے میں سرگرداں رہتے ہیں لیکن ایک پھلتے پھولتے سیاسی تمدن کو اجاڑنے کی خاطر عمران خان نے 14 اگست2013 کے لانگ مارچ اور طویل دھرنوں سے جس بحران کو مہمیز دی تھی اُسی نے اب عدلیہ اور دفاعی اداروں کے علاوہ تمام سیاسی جماعتوں کے مستقبل کو بھی لپیٹ لیا،یعنی قوم کی تقدیر سے کھیلنے والے سیاسی کھلاڑیوں کے عزائم کے برعکس انہی تراشیدہ سیاسی بحرانوں کا تسلسل قوم کو ایک الگ نقطہ نظر عطا کر گیا۔

حالات کی ستم ظریفی دیکھئے کہ مقتدرہ کی پشت پناہی سے بدعنوانی کے خاتمہ کو سیاسی نصب العین بنا کر جمہوری عمل کو ڈی ریل کرنے والے عمران خان خود اِس وقت کرپشن کے جرم میں طویل قید کاٹ رہے ہیں ،صرف یہی نہیں بلکہ وقت کی بوقلمونی کے نتیجہ میں نواز لیگ اور پیپلزپارٹی جیسی اسٹبلشمنٹ مخالف جماعتیں فوج کی دائیں طرف اور عمران خان کی مقتدرہ نواز پی ٹی آئی بائیں جانب آن کھڑی ہوئی ہے۔

پاور پالیٹیکس کی اسی الٹ پھیر نے صرف اسٹبلشمنٹ اور سیاسی جماعتوں کی پوزیشن کو ہی دگرگوں نہیں کیا بلکہ اِسی کشمکش ضدین نے عوام کے مجموعی نقطہ نظر کو تبدیل کرکے پوری قوم کو مقتدرہ کے خلاف صف آراءبنا دیا ۔ قبل ازیں ہماری ریاستی مقتدرہ وقتاً فوقتاً مختلف سیاسی قوتوں کو آگے پیچھے کرکے اقتدار پہ اپنی گرفت مضبوط رکھا کرتی تھی لیکن اب ہمارے سیاسی ماحول میں کوئی سیاسی یا مذہبی جماعت اسقدر مؤثر نہیں رہی جس کے ذریعے 25 کروڑ عوام کی سوچ کو مینیج کیا جا سکے۔

امر واقعہ بھی یہی ہے کہ آج مقتدرہ جس جماعت پہ ہاتھ رکھتی ہے، قوم اسے مسترد کر دیتی ہے،چنانچہ قوم اور مقتدرہ کے درمیان حائل وہ کشن باقی نہیں رہا جو سیاسی جماعتیں فراہم کیاکرتی تھیں گویا عوام اور ریاست میں براہ راست تصادم کے خطرات منڈلانے لگے ہیں، اب اگر عمران خان جیسے مقبول سیاسی رہنما نے بھی مقتدرہ سے ڈیل کے ذریعے اقتدار لینے کی جسارت کی تو نواز شریف کی مانند عوامی حمایت کھو بیٹھیں گے۔

بلاشبہ اجتماعی زندگی میں تبدیلیاں ارادی نہیں بلکہ اچانک رونما ہوتی ہیں ۔ہر چند کہ ملک کی دونوں بڑی جماعتوں، مسلم لیگ نواز اور پی پی پی، نے سیاسی تنازعات سے قطع نظر کرکے 2024 کے انتخابات کا فوکس ملک کو درپیش مالیاتی بحران پہ مرتکز رکھا لیکن وہ اس بات کو نظرانداز کر بیٹھے کہ بہر صورت ملک کا اقتصادی نظام سیاسی استحکام کے ساتھ مشروط رہے گا، اس لئے مملکت کو معاشی بحران سے نکالنے کے لئے درکار پائیدارسیاسی استحکام کا حصول ایسی پُرامن اصلاحات کا مرہون ہے جو واضح ہونے کے علاوہ قابل عمل بھی ہوں۔

اب پہلا سوال تو یہ ہے کہ کیا سیاسی و ادارہ جاتی اصلاحات کا وقت گزر چکا ہے؟اور شام اور لیبیا کی مانندکبھی نہ تھمنے والی شورش ہمارا استقبال کرے گی، دوسرے یہ کہ ہماری قومی قیادت اصلاحات کے تصور کو عملی جامہ پہنانے کی صلاحیت رکھتی ہے ؟

بظاہر یہی لگتا ہے کہ ہماری موجودہ سیاسی اور عسکری لیڈر شپ بنیادی سیاسی اصلاحات کو عملی جامہ پہنانے کی صلاحیت اور ساکھ کھو چکی ہے۔چونکہ سیاسی بحران اور اصلاحات کا تصور بجائے خود ایک متنازعہ مظہر ہے،اس لئے اس مظہرکی متفقہ توضیح ممکن ہے نہ عملی نفاذ کا کوئی طریقہ کار مرتب ہو سکا ہے،پھر اس ماورائے صداقت عہد میں سیاسی و نظریاتی انقلابات کا امکان بھی معدوم ہے۔

ہم نے جن رہنماؤں کے گرد مقبولیت کا ہالہ کھینچا انکی ممتاز ترین صفت بزدلی وکم ہمتی ہے،اس لئے سویلین حکومتیں حزم و احتیاط کی پابند بن کر بے بس نظر آتی ہیں۔ چنانچہ فی الحال اگر ہم موجودہ ملکی آئین کے تحت تقسیم اختیارات کے فارمولہ کو عملی شکل دینے میں کامیاب ہو جائیں تو غنیمت ہو گا ۔

علی ہذالقیاس، ان دنوں ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی ممکن بنانے کی خاطر سوشل میڈیا پہ صدر آصف علی زرداری سے منسوب ایسی مہمل تجاویز گردش کر رہی ہیں، جس میں فقط سویلین بالادستی کی طرف پیش قدمی کی آرزوئیں جلواگر دیکھائی دیتی ہیں، اگرچہ پیپلزپارٹی کے سیکریٹری اطلاعات فیصل کریم کنڈی نے ایسے کسی فارمولہ کے اجراءسے لاتعلقی ظاہر کی ہے لیکن ہر سیاسی گروہ اَن مہمل تجاویز پہ بحث کرنے کو بیتاب ہے ۔

اکیس شقوں پہ مشتمل سطحی نوعیت کی تجاویز کے اس پیکج میں آرمی چیف کی تعیناتی کو عقلی (Rational )کی بجائے میکانکی بنانے کی تجویز کے علاوہ تما م سرکاری عہدوں بشمول ججز اور جرنیلوں کو ملازمت میں توسیع اور ریٹائرڈ یا حاضر سروس فوجی افسر کی سول اداروں میں تعیناتی پہ پابندی کی خواہش شامل ہے ۔

وزیراعظم ہاؤس میں ملٹری سیکرٹری کا دفتر فی الفور بند،عسکری اہلکاروں کو سیاسی معاملات سے دور رکھنے اور وزیراعظم ہاؤس کی سکیورٹی کے لئے پاک بحریہ یا فضائیہ کے دستوں یا الگ فورس بنانے کی تجویز بھی دی گئی۔اس فارمولہ میں تمام سویلین اور فوجی افسران کی مراعات یکساں یعنی ہسپتال، سکول،کالج،یونیورسٹی،گائف کورس کلب، زمین و پلاٹ کی الاٹمنٹ ،گھر، تنخواہ، پنشن،سب مرعات برابر گویا ملک میں چپڑاسی اور جرنیل کے بیٹے کو صحت و تعلیم کی یکساں سہولیات دینے جیسی ناقابل فہم خواہشات شامل ہیں۔

ان تجاویز میں تمام فوجی و سول افسران کے بعد از ریٹائرمنٹ10 سالوں تک بیرون ملک ملازمت،کاروبار،سرمایہ کاری، شہریت یا رہائش لینے پہ پابندی عائد کرنا بھی شامل ہے۔دفاعی اداروں کے کاروباری نظام پہ پابندی کے علاوہ انٹر سروس انٹیلجنس کی ری سٹرکچرنگ کرکے بھارت،ترکی یا یوروپ کی طرز پہ جاسوسی کا ایسا جدید نظام استوار کرنے کی تجویز دی گئی جس میں سویلین بالادستی کا عکس دکھائی دے۔ دفاعی پالیسی پہ نظرثانی کرکے فوجی بجٹ میں پچاس فیصد کمی لانے کے علاوہ ججز کے احتساب کے لئے عدلیہ میںwhistle blower نظام متعارف کرانے کی تجویز پیش کی گئی۔

مطالعہ پاکستان کے نصاب میں1971 کی شکست کے اسباب اور جمہوریت کی اہمیت بتانے، ریٹارڈ ججز اور بیورکریٹس کی پبلک سکٹر میں نوکریوں پہ پابندی کی خواہش بھی ظاہر کی گئی۔تمام سرکاری افسران کی دوران ملازمت اور بعد از ریٹائرمنٹ ٹیکس ریٹرن کو پبلک کرنے،جس میں بیوی، بچوں کے ٹیکس ریٹرن بھی شامل ہوں۔الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کرکے ای وی ایم اور ڈیجیٹل ووٹنگ کا نظام لایا جائے۔

ہمسایوں، بھارت ، چین ،ایران اور ریجنل ترکیہ،روس اور وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ ترجیحی بنیادوں پہ تعلقات بہتر بنائے جائیں۔کشمیر پہ یو این او کی قراردادوں سے مماثل موقف رکھنے کے ساتھ فلسطین کے لئے اسپیشل ٹاسک فورس بنا کر انکی مالی،اخلاقی اور عسکری مدد کی جائے اگر یورپ ، یوکرین کے لئے یہ سب کر سکتا ہے تو ہم مظلوم فلسطنیوں کے لئے ایسا کیوں نہیں کر سکتے۔

اگرچہ متذکرہ تجاویز مبہم ،ادھوری اورناقابل فہم ہیں بلکہ انہیں ڈرافٹ کرنے والے جدید رموز حکمرانی کے علاوہ عالمی تعلقات کی نزاکتوں سے ناواقف لگتے ہیں مگر ان میں آٹھ دہائیوں پہ محیط بگاڑ کے فعال دھارے کو صرف ایک ہی نشست میں تبدیل کرنے کی آرزوئیں دیدنی ہیں، تاہم نیک خواہشات سے مزّین ایسی تجاویز کا سامنے آنا بھی پُرامن اصلاحات کی طرف پیشقدمی کی غماضی کرتا ہے۔

شاید اب ہم مکمل آزادی اور خواب تکمیل کی تعبیر نہیں پا سکیں گے،آزادی کوئی سیاسی چیز نہیں لیکن ہمارے نوجوان طبقہ کے اذہان میں غیرمشروط آزادی کی جو شمعیں جگمگا رہی ہیں وہ فریب نفس کے سوا کچھ نہیں کیونکہ اس پُرزور اور پیچیدہ عہد میں آزادی اور مساوات کے نعروں کو سیاسی محرکات پہ پردہ ڈالنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔

ملک محمد اسلم اعوان سینئر صحافی اور کالم نگار ہیں، افغانستان میں امریکا کی طویل جنگ کی گراؤنڈ رپورٹنگ کی، قومی سیاسی امور، معیشت اور بین الاقوامی تعلقات پر لکھتے ہیں، افغانستان میں امریکی کی جنگ کے حوالے سے کتاب جنگ دہشتگردی، تہذیب و ثقافت اور سیاست، کے مصنف ہیں۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین