Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

پاکستان

عارف علوی ایک اسمبلی دو بار توڑنے والے ملکی تاریخ کے دوسرے صدر

Published

on

غلام اسحاق خان کے بعد عارف علوی ملکی تاریخ کے دوسرے صدر ہیں جنہوں نے ایک ہی قومی اسمبلی دوبار توڑی ہے۔ جبکہ صدر ڈاکٹر عارف علوی کو وزیراعظم شہباز شریف نے قبل ازوقت اسمبلی کی تحلیل کی سمری بھیجی تو وہ ملکی تاریخ کے پہلے صدر بن گئے جنہیں خود وزیراعظم کی طرف سے ایک ہی اسمبلی توڑنے کی دوسری سمری موصول ہوئی ہے۔

2018 کے انتخابات میں منتخب ہونیوالی قومی کو توڑنے کے لئے پہلی سمری 2 اپریل 2021 کو اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے صدر عارف علوی کو بھیجی۔ عمران خان نے اپنی حکومت کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کو ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے ذریعے مسترد کروا دیا اور فوری بعد صدر کو اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری ارسال کردی جسے صدر علوی نے فورا قبول کرتے ہوئے منظور کرلیا اور اسمبلی تحلیل کردی۔ لیکن عمران خان اور صدر عارف علوی کے اس اقدام کو اس وقت کی اپوزیشن نے سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا۔

سپریم کورٹ نے تفصیلی سماعت کے بعد ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی رولنگ اور صدر کے احکامات کو غیرآئینی قرار دیتے ہوئے قومی اسمبلی کو بحال کرکے تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کا حکمنامہ جاری کیا۔ جس کے نتیجے میں عمران خان کے خلاف ملکی تاریخ کی پہلی تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی۔ عمران خان وزارت عظمی سے ہٹادئیے گئے اور شہباز شریف ملک کے نئے وزیراعظم بن گئے۔

اب اسی قومی اسمبلی کو پھر قبل از وقت تحلیل کرنے کے لئے وزیراعظم شہباز شریف نے سمری دوبارہ صدرعلوی کو بھیجی جسے انہوں نے فوری منظور کرلیا جس کے بعد قومی اسمبلی اور اس کے ساتھ ہی کابینہ بھی تحلیل ہوگئی۔

عارف علوی سے پہلے غلام اسحاق خان ایسے صدر گزرے ہیں جنہوں نے اپنی مدت صدارت میں ایک ہی اسمبلی کو دوبار تحلیل کیا اور اپنے عہد صدارت میں بینظیر بھٹو اور نوازشریف کی دو اسمبلیوں کس توڑ کر حکومتوں کا خاتمہ کیا۔

تاہم ان واقعات میں فرق یہ ہے کہ غلام اسحاق خان نے آئین کے آرٹیکل 58 ٹو بی کے تحت صدر کو حاصل خصوصی اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے دوبار اسمبلیاں تحلیل کیں جبکہ اٹھارویں ترمیم میں اس صدارتی اختیار کے خاتمے کے بعد اب موجودہ اسمبلی میں دونوں وزرائے اعظم نے اسمبلی توڑنے کی سمری خود صدر مملکت کو بھیجی۔

ایک ہی اسمبلی کو دوبار توڑنے کا واقعہ 1993 میں بھی پیش آیا جب اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے وزیراعظم نوازشریف کے ساتھ اختلافات بڑھنے پر ان کی حکومت پر کرپشن کے الزامات عائد کرتے ہوئے 18 اپریل 1993 کو نواز حکومت برطرف کرتے ہوئے قومی اسمبلی توڑ دی۔

اس اقدام کو اس وقت کے اسپیکر گوہر ایوب خان نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔ چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کی سربراہی میں قائم بنچ نے 26 مئی 1993 کو صدارتی اقدام کو کالعدم قرار دیتے ہوئے قومی اسمبلی اور نوازشریف حکومت کو بحال کردیا۔ لیکن بینظیر کی قیادت میں اپوزیشن کے لانگ مارچ سے سیاسی بحران سنگین ہوتا گیا۔ اس صورتحال میں آرمی چیف جنرل عبدالوحید کاکڑ اپنے مشہور زمانہ "کاکڑ فارمولا”  کے ساتھ میدان میں اترے۔

کاکڑ فارمولا کے تحت نوازشریف نے صدر غلام اسحاق خان کو اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس بھیجی۔ جسے منظور کرتے ہوئے صدر نے اسمبلی تحلیل کی اور ساتھ ہی خود بھی اپنے عہدے سے استعفا دیدیا۔ چئیرمین سینیٹ وسیم سجاد قائمقام صدر بن گئے۔ امریکہ سے ہنگامی طور پر بلائے گئے ایک پاکستانی نژاد امریکی شہری معین قریشی کو نگران وزیراعظم کا منصب سونپ خر ملخ میں عام انتخابات کا اعلان کردیا گیا۔ اس طرح ایک ہی اسمبلی، ایک ہی صدر کے ہاتھوں دوسری بار تحلیل ہوگئی۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین