Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

پاکستان

بلوچستان بدل رہا ہے

Published

on

      کسی بھی خطہ کا جغرافیہ اسکے سیاسی نظام کی تدوین اورسماجی و اقتصادی ارتقاو جمود میں اہم کردار ادا کرتا ہے،خاص کر ان قبائلی معاشروں میں جہاں اجتماعی اور انفرادی زندگی کا انحصاراور تمدنی ساخت طاقتور سرداروں کے مفادات کے تابع ہو وہاں معاشی وسائل کسی ایک جگہ مرتکز اور وہ سماجی تضادات مٹ جاتے ہیں،جو مقابلہ کی فضا پیدا کرکے اجتماعی زندگی کے ارتقاءکا زینہ بنتے ہیں۔

بلوچستان اسی جدلیات کی کلاسیکی مثال ہے،جہاں ریاستی مقتدرہ نے عالمی سیاست کے تزویراتی تقاضوں کے پیش نظر 70 سال تک تہذیبی،اقتصادی اور سیاسی ارتقا کو منجمد رکھا اورانہی فرسودہ قبائلیت کو قوت فراہم کرکے لوگوں کو فکر و خیال کی وسعتوں سے بہرور ہونے سے روکنے کے علاوہ انہیں نسلی و لسانی تعصابات کے تنگ دائروں میں مقید رکھا گیا،چنانچہ وہاں کے لوگ وسیع انسانی دھارے کے برعکس قبائلی تعصبات کی تاریکیوں میں جینے کے خُوگر بن کر صحت مند تبدیلیوں کے خلاف مزاحمت پہ کمر بستہ رہے،جس کے نتیجہ میں وہاں سماجی مساوات،جمہوری روایات اور سیاسی اقدار کی افزائش نہ ہو سکی۔

اب سماجی رابطہ کی ابلاغی ٹیکنالوجی کی فراوانی اور سی پیک جیسے گیم چینجر منصوبوں کی بدولت جب بلوچستان کے مارجنلآئز معاشرے مجموعی انسانی دھارے سے مربوط ہوئے تو وہاں کے سماج میں ترقی کی خواہش انگڑائیاں لینے لگی۔بلوچستان اس وقت تاریخی طور پہ اپنی سماجی ساخت،سیاسی، اقتصادی، ثقافتی اور موروثی عوامل میں فطری توازن لانے کی طرف گام فراسائی کرتا دیکھائی دیتا ہے اور وہاں کے لوگ اب علاقائی تعصبات کی تنگنائیوں سے نکل کر مرکزی دھارے کی سیاسی کشمکش کا حصہ بننے کو بیقرارنظر آتے ہیں۔چنانچہ پیپلزپارٹی اور جے یو آئی کے علاوہ نواز لیگ کے لئے بھی یہاں سیاسی جگہ بنانے کے وسیع مواقع پیدا ہو گئے ہیں۔

ماضی قریب میں بلوچستان کی سیاست پہ جے یو آئی کے علاوہ پختونخوا میپ اور بلوچ قوم پرست جماعتوں کا غلبہ رہا لیکن مرور ایام کے ساتھ لوگ قوم پرستی کی تنگ دامنی سے اُکتا کر مرکزی دھارے کی طرف دیکھنے لگے۔اس وقت وہاں بلوچ اور پشتون قوم پرست جماعتیں تعصبات کی فرسودگی کے باعث داخلی تضادات میں الجھ کر مفقود ہوتی نظر آتی ہیں۔

سنیٹرعثمان کاکڑ کی ناگہانی موت پختونخوا ملی عوامی پارٹی میں گہری تفریق کا محرک بن گئی،بلاشبہ عثمان کاکڑ کی فطری ذکاوت،شعلہ بیانی اور بلوچستان کے لوگوں کے لئے اُنکی فلاحی خدمات اُس کے جواں سال بیٹے خوشحال کاکڑ کے لئے غیرمعمولی پذیرائی کا وسیلہ بن گئیں اور اسی مقبولیت کی بل بوتے خوشحال کاکڑ نے پارٹی قیادت پہ مسلط اچکزئی خاندان کو ہدف تنقید بنا کر پارٹی کے ناراض عناصر کو اپنے اردگرد اکٹھا کر لیا۔

عثمان کاکڑ معاشی طور آسودہ اور فراخ دل انسان تھے، وہ زندگی بھر بلوچستانیوں کی بلا تفریق مدد کرتے رہے خاص طورط پر اُن بلوچ و پشتون طلبہ کے تعلیمی اور ہاسٹلز کے اخراجات سمیت تمام ضروریات پوری کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہے جن کے پاس اعلی تعلیم کے لئے وسائل نہیں ہوتے تھے،اس لئے جب ان کے جسد خاکی کو کراچی سے کوئٹہ لایا جا رہا تھا تو بلوچ علاقوں سے لوگ دیوانہ وار میت کے استقبال کو نکل آئے۔

کوئٹہ میں ان کا جنازہ بھی بلوچستان کی تاریخ کا سب سے بڑا انسانی اجتماع ثابت ہوا۔عثمان کاکڑ کی فلاحی خدمات کی وجہ سے خوشحال کو پشتونوں کے علاوہ بلوچوں میں بھی پذیرائی ملی،چنانچہ متوقع عام انتخابات میں انہیں کوئٹہ کے علاوہ مستونگ،خضدار اور قلات میں رہنے والے بلوچوں کی سیاسی حمایت بھی مل سکتی ہے، لیکن خوشحال کاکڑ نے فی الحال اُن چودہ پشتون ضلعوں کو توجہ کا مرکز بنا لیا،جن میں سے گیارہ اضلاع میں کاکڑ قوم کی اکثریت ہے،وہ پختونخوا میپ پر اچکزئی خاندان کے دائمی تسلط کو چلنج اور انکی سیاسی پالیسیوں کو پارٹی کے زوال کی وجہ قرار دیکر انہیں پیچھے ہٹنے پہ مجبور کرنا چاہتے ہیں،جس سے پختون خوا میپ کی تقسیم کا امکان بڑھ گیا

بلوچستان میں جے یو ۤئی بھی مؤثرسیاسی قوت ہے،بلوچوں کے اٹھارہ میں سے صرف دو،خضدار اور قلات، ڈسٹرک میں مولانا غفور حیدری کے اثرات کے سوا جمعیت کا وجود ہمیشہ ناپید رہا مگر پشتون علاقوں میں بھی اب مقامی قیادت کی سہل انگاری بجائے خود جماعت کے اثرات کو محدود کرنے کا سبب بن رہی ہے،بلوچستان کے صوبائی امیر مولانا عبدالواسع،جو وفاقی وزیر بھی ہیں،کا اسلام آباد میں مستقل قیام اورکارکنوں سے لاتعلقی،جماعت کے اندر پائے جانے والے اختلافات کو زیادہ گہرا کر رہا ہے۔

مولانا فضل الرحمن نے اگر بلوچستان میں اپنی پارٹی کے داخلی تنازعات پہ بروقت قابو نہ پایا تو عام انتخابات میں انہیں اچھے نتائج نہیں ملیں گے ۔بلوچ ایریا میں اختر مینگل کی جماعت کے علاوہ بی این پی بزنجو گروپ کا اثر و رسوخ قائم ہے۔ خاص طور پر عبدالمالک بلوچ کے ڈھائی سالہ دور حکمرانی میں گورننس میں بہتری اورکرپشن پہ قابو پانے کی مساعی انہیں عام لوگوں کا پسندیدہ سیاستدان بنا گئی ۔ تاہم مجموعی طور پر بلوچستان کے عوام، پشتون ایریا کے لوگ قوم پرستی کی فرسودگی سے نجات پانے کی خاطر مرکزی دھارے کی جماعتوں کی طرف دیکھ رہے ہیں، اس لئے ملک گیر سیاسی جماعتوں کے لئے یہاں قدم جمانے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔

بلوچ علاقوں میں پیپلزپارٹی اورپشتون ایریا میں نواز لیگ ایڈوانٹیج لے سکتی ہیں۔کئی ناقابل بیان عوامل کے علاوہ بلوچستان سے قومی جماعتوں کے اغماض کی بڑی وجہ وہاں قومی اسمبلی کی کم نشستیں بھی تھیں۔ 342 کے ایوان میں قومی اسمبلی کی صرف اٹھارہ نشستوں کے لئے کوئی جماعت یہاں سر کھپانے کی زحمت گوارا نہیں کرتی تھی،پچھلے الیکشن میں نواز لیگ اور پیپلزپارٹی کو تو بلوچستان میں داخل ہونے کی اجازت نہ ملی لیکن عمران خان نے بھی فقط آدھے دن میں بلوچستان کی انتخابی مہم نمٹا دی، وہ ڈیرہ غازی خان میں جلسہ کے بعد ہیلی کاپٹر کے ذریعے لورالائی گئے،جہاں عوامی اجتماع سے خطاب اور ریفیولنگ کے بعد وہ نصیرآباد اور پھر کوئٹہ میں ریفیولنگ اور علامتی جلسوں میں تقریروں کے بعد اسی دن اسلام آباد واپس لوٹ آئے۔

سماجی،معاشی و سیاسی اصلاحات کے ذریعے بلوچستان کو قومی دھارے میں لانے کے لئے سینٹ کی لاءاینڈ جسٹس کمیٹی نے وہاں قومی اسمبلی کی 38 اور صوبائی اسمبلی کی نشستیں 88 تک بڑھانے کی جو سفارشات مرتب کی تھیں وہ آج بھی قابل عمل ہیں۔

بدقسمتی سے اس وقت لاءاینڈ جسٹس کمیٹی کے چیئرمین مصطفے نواز کھوکھر نے آصف علی زرادی کے ایما پر بلوچستان میں قومی اسمبلی کی نشستیں بڑھانے کی مخالفت کرکے معاملہ کھٹائی میں ڈال دیا تھا۔تاہم اب تازہ مردم شماری میں بلوچستان کی آبادی میں کچھ اضافہ کے باعث قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستوں میں اضافہ کی امید پیدا ہو گئی ہے۔

وفاقی وزیر احسن اقبال کی یہ بات توجہ طلب ہے کہ آبادی کے لحاظ سے وسائل کی تقسیم کا اصول بلوچستان جیسے پس ماندہ علاقوں کو قومی دھارے میں لانے کی راہ میں حائل رہے گا، اگر وسائل کی تقسیم کسی بھی علاقہ کی حقیقی ضروریات کے مطابق کی جائے تو بلوچستان سب سے زیادہ وسائل کا مستحق ہے۔لیکن بلوچستان میں کسی بھی قسم کی اصلاحات سے قبل وہاں کے سیاسی نظام میں اسٹبلشمنٹ کی مداخلت روکنا از حد ضروری ہے تاکہ بلوچستان کا ووٹر اپنی آزادانہ رائے سے قیادت کا انتخاب کرنے کے علاوہ وہاں کے مجموعی سیاسی عوامل کو فطری خطوط پہ استوار ہونے کا موقعہ ملے۔

بلوچستان میں باپ پارٹی کی تخلیق کا تجربہ مہلک ثابت ہوا جس نے اہلیت کی بجائے دولت کو حصولِ اقتدارکا آلہ بنا کر جمہوریت کو گہرا صدمہ پہنچایا،سسٹم کی انہی خرابیوں کا نتیجہ تھا کہ ایک بڑی تعمیراتی کمپنی کے مالک مٹھا خان ٹھہکیدار جیسا ناخواندہ دولت مند ڈاکٹر نواز خان جیسے عبقری کو شکست دیکر ایم پی اے بن گیا،دولت کی کرشمہ سازی کے باعث جے یو آئی کے مولوی سرور ندیم جیسے انتھک اور مخلص سیاسی کارکن کو ٹیکنیکل بنیادوں پہ نااہل کرکے ایسے حریص دولتمندوں کو آگے لایا گیا جن کا سیاست سے دور کا واسطہ بھی نہ تھا۔

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بلوچستان میں فوج کی موجودگی وہاں اعلی تعلیمی اداروں اوراچھے ہسپتالوں کے علاوہ غریب لوگوں کو مفت تعلیم کے مواقع مہیا کرنے کا وسیلہ بنی لیکن ترقیاتی کاموں اور سیاسی عمل میں مقتدرہ کے ملوث ہونے سے کئی لاینحل مسائل بھی پیدا ہوئے۔اب نئے آرمی چیف کے ووژن کے مطابق سیاسی عمل میں مداخلت روکنے کی وجہ سے سماجی اور سیاسی عوامل میں صحت مند تغیرات کی امید پیدا ہو چلی ہے۔

 اس میں کوئی شبہ نہیں بلوچستان میں انفراسٹرکچراور بڑے شہروں کے مابین رابطہ سڑکوں کی عدم موجودگی شہری تمدن کی افزائش میں بڑی رکاوٹ ہے،ذرائع نقل و حمل کے فقدان کی وجہ سے وقت کے تقاضوں کے مطابق لوگوں کی آمدنی میں اضافہ ہوا نہ مادی فوائد کے دائرے پھیل سکے۔

پچھتر برسوں میں صرف کوئٹہ درجہ اول کا وہ واحد شہر ہے جہاں شہریوں کو بنیادی سہولیات مل سکیں ، دوسرے شہروں میں سہولیات کی فراہمی کا نظام ناقص بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے ۔بنیادی سہولیات سے لیس رہائشی بستیوں کی کمی اور ناقص بلدیاتی خدمات جیسا کہ صفائی،نکاسی، پینے کے صاف پانی کی عدم فراہمی کی وجہ سے نقل مکانی کا رجحان بڑھتا گیا،با صلاحیت لوگ اچھے مستقبل کی تلاش میں کراچی،لاہور اور اسلام آباد کا رخ کرنے لگے۔

اگر گورنمنٹ مقامی معیشت، خاص طور پر زراعت کی ترقی پہ توجہ دیتی تو اس سے بھی صوبے کی آمدنی میں اضافہ اور مقامی معیشتیں پھلتی پھولتیں۔بنجر زمینیں بھی انفراسٹرکچر میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی کرتی رہیں۔صوبے میں صنعت کاری کا بھی فقدان رہا حالانکہ یہ ممکن تھا کیونکہ بلوچستان میں بڑے پیمانے پر معدنیات کی وجہ سے صنعتی ترقی کے مواقع موجود ہیں۔

ملک محمد اسلم اعوان سینئر صحافی اور کالم نگار ہیں، افغانستان میں امریکا کی طویل جنگ کی گراؤنڈ رپورٹنگ کی، قومی سیاسی امور، معیشت اور بین الاقوامی تعلقات پر لکھتے ہیں، افغانستان میں امریکی کی جنگ کے حوالے سے کتاب جنگ دہشتگردی، تہذیب و ثقافت اور سیاست، کے مصنف ہیں۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ ترین13 گھنٹے ago

اولمپکس کی افتتاحی تقریب سے پہلے فرانس میں ٹرین نیٹ ورک پر حملے

تازہ ترین13 گھنٹے ago

جماعت اسلامی نے راولپنڈی اور اسلام آباد میں مختلف مقامات پر دھرنا دے دیا، مذاکرات کے لیے تیار ہیں، وفاقی وزیر اطلاعات

تازہ ترین14 گھنٹے ago

صدر مملکت نے سپریم کورٹ میں دو ایڈہاک ججز کی تعیناتی کی منظوری دے دی

پاکستان15 گھنٹے ago

عمران خان کی رہائی کے لیے پی ٹی آئی جیل بھرو تحریک شروع کرے، دو گھنٹے کی بھوک ہڑتال مذاق ہے، نثار کھوڑو

تازہ ترین16 گھنٹے ago

ہمارے نام پر ڈالر لے کر وسائل کھائے گئے، بطور وزیراعلیٰ اعلان کرتا ہوں صوبے میں کہیں بھی آپریشن نہیں کرنے دوں گا، علی امین گنڈا پور

پاکستان16 گھنٹے ago

رومانیہ میں پاکستان نیوی کے آف شور پٹرول ویسل پی این ایس حنین کی کمیشننگ تقریب

تازہ ترین18 گھنٹے ago

کراچی میں رات کے اوقات میں لوڈ شیڈنگ نہیں ہوگی، نیپرا نے کے الیکٹرک کو ہدایت جاری کردی

پاکستان18 گھنٹے ago

پنجاب میں متوفی سرکاری ملازمین کے اہل خانہ کو ملازمت دینے کا قانون ختم

مقبول ترین