Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

Uncategorized

مفاہمت اور مزاحمت کے درمیان پھنسی مسلم لیگ نون

Published

on

ملکی سیاست میں ٹھہراؤ آنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ ابھی نواز شریف نے 21 اکتوبر کو واپس آنے کا اعلان کیا تھا اور شہباز شریف اس اعلان کے بعد وطن واپس پہنچے تھے لیکن وہ الٹے پاؤں دوبارہ لندن روانہ ہو گئے۔

شہباز شریف کی فوری لندن واپسی نے قیاس آرائیوں کا بازار گرم کر دیا۔ جتنے منہ اتنی باتیں شروع ہو گئیں۔ دراصل یہ تمام ہلچل جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ، لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید اور سابق چیف جسٹس صاحبان کیخلاف نواز شریف کے بیان کے بعد شروع ہوئی

بظاہر مسلم لیگ نون خود دو بڑے دھڑوں میں تقسیم ہوگئی ہے۔ ایک طرف نواز شریف ہیں تو دوسری جانب ان کے چھوٹے بھائی شہباز شریف نظر آ رہے ہیں۔ مسلم لیگ نون سے تعلق رکھنے والے ایک رہنما نے جماعت میں تقسیم کی تصدیق کی اور کہا کہ پہلے لڑائی تو ختم ہو پھر معلوم ہوگا کہ نواز شریف واپس آ رہے ہیں یا نہیں۔

اگرچہ مسلم لیگ نون کے صدر شہباز شریف نے اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ نواز شریف وطن واپس آ رہے ہیں لیکن ابھی 21 اکتوبر آنے تین ہفتے باقی ہیں، حالات کیا کروٹ لیئے ہیں اور سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے؟ اسکا تعین تو آنے والا وقت ہی کرے گا

نواز شریف کا واپس آنا یا نہ آنا تو ایک طرف  ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ نواز شریف کی واپسی پر مسلم لیگ نون کو کتنا فائدہ ہوتا ہے؟ نواز شریف کے عام انتخابات میں وزیر اعظم بننے کے بعد کیا حالات تبدیل ہونگے۔ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ نواز شریف قسمت کے دھنی ثابت ہونگے؟ یہ کوئی پیچیدہ سوال نہیں ہے۔ اس سوال کا  سادہ سا جواب مسلم لیگ نون کے منشور پر منحصر ہے  لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ 16 ماہ کی شہباز شریف کی حکومت  معاشی حالت بہتر بنانے میں مکمل طور پر نا کام رہی۔ یہ بات سوچنے کی ہے کہ کیا نواز شریف کے پاس جادو کی کوئی ایسی چھڑی ہے کہ جس کے ہلتے ہی صورت یکسر تبدیل ہو جائے گی۔

تین مرتبہ  وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف یہ فیصلہ کیوں کر رہے ہیں کہ وہ وطن جائیں؟ ایک رائے یہ بھی ہے  یوں لگ رہا ہے کہ نواز شریف اپنی بیٹی مریم نواز کی سیاست کیلئے سب کچھ کر رہے ہیں۔ اس مرتبہ وزارت عظمیٰ کیلئے شریف خاندان میں ایک نہیں بلکہ دو امید وار ہیں۔ ایک نواز شریف اور دوسرے ان کے بھائی شہباز شریف، وزیر اعظم کا امید وار کوئی بھی ہو اسے  وزیر اعظم بننے کیلئے ووٹوں اور جماعت کی قومی اسمبلی میں اکثریت درکار ہوگی۔

ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ نواز شریف نے اپنی برطرف کے بعد شروع کیا تھا.۔تازہ ترین اطلاعات ہیں کہ نواز شریف کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ وہ سخت گیر بیانہ اختیار نہ کریں۔ ایسا کرنے سے مسلم لیگ نون اور خود نواز شریف کو فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہوسکتا ہے

ابھی اس بارے میں کوئی معتبر اطلاعات تو نہیں ملیں کہ نواز شریف نے اس تمام صورت میں حال میں کیا فیصلہ کیا ہے؟ اور کیا وہ ووٹ کو عزت کے بیانیے کی طرح سخت گیر موقف کو ترک کرنے کیلئے رضا مند ہیں یا نہیں۔ نواز شریف اس وقت ایک طرح سے دوہری مشکل میں پھنسے ہوئے ہیں، اگر وہ اپنے سخت موقف کو خیر باد کہہ دیتے ہیں تو ان کے پاس سیاسی طور کوئی ایسی بات نہیں ہوگی جس کی بنیاد پر وہ سیاسی محاذ پر لڑ سکیں۔ دوسری طرف ایک "نرم”  بیانیہ ہے جیسے ہم اقتصادی بحران کو ختم کریں گے. ملک کو ترقی کی پٹڑی ڈالیں گے، پہلے بھی ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا ہے۔

شائد یہ بیانیہ اب موثر نہ رہے کیونکہ نواز شریف کی حکومت کے 16 ماہ کی اُن کے اپنے چھوٹے بھائی شہباز شریف کی حکومت بھی آئی اور اس حکومت میں نواز شریف کے سمدھی اسحاق ڈار وزیر خزانہ تھے۔ اُس وقت یہ ہی بتایا گیا کہ اقتصادی صورت حال کیلئے اسحاق ڈار کے پاس امرت دھارا ہے لیکن کچھ ہاتھ نہیں آیا بلکہ مٹھی کھلنے سے بھرم بھی چلا گیا۔ اس وقت  مسلم لیگ نون کو ایک مقبول اور مضبوط بیانیہ کی ضرورت ہے جو تحریک انصاف کے بیانیہ کا توڑ ہو۔ محض بڑے بڑے دعوے کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔

نواز شریف  کو اب دو راستوں میں ایک کا چناو کرنا ہے اور یہ فیصلہ اتنا آسان نہیں ہے۔ ایک فیصلے سے ان کی جماعت کو طاقت ملے گی جبکہ دوسرا راستہ عین ممکن ہے کہ ایوان اقتدار کی طرف جا رہا ہو۔ مسلم لیگ نون نے اپریل 2022 سے محتلف امور پر خاموشی اختیار کی اور اب مزید چپ مسلم لیگ نون کیلئے کوئی فائدہ مند ثابت نہیں ہوگی۔ مسلم لیگ نون پر پہلے یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ یہ دو کشتیوں کی سوار ہے، ایک بھائی اینٹی اسٹیبلشمنٹ  کے ساتھ تو دوسرے اس کے بالکل مختلف ہیں۔ یہ حکمت عملی زیادہ دیر نہیں چلے گی، کسی ایک طرف ہونا پڑے گا۔

کہا جاتا ہے کہ سیاسی جماعت اپوزیشن میں رہنے سے ختم نہیں ہوتی۔ اسی طرح جس سیاسی جماعت کی عوامی سطح پر پذیرائی ہے اس کے ووٹ بینک کو ختم کرنا آسان کام نہیں ہے۔ اس کی بہترین مثال خود مسلم لیگ نون ہے جب اس کی قیادت دو ہزار سات میں جلاوطنی کے بعد ملک واپس آئی۔ پیپلز پارٹی بھی گیارہ برس کے مشکل دور کے بعد بھی 1988 میں اقتدار میں تھی لیکن اس سب کیلئے ایک بات کی ضرورت ہے، سیاسی جماعت کا بیانیہ عوامی ہو، جسے  پذیرائی مل سکے ورنہ اختیار میں رہنے والی جماعتوں کو تانگہ پارٹی بننے میں دیر نہیں لگتی۔ نواز شریف کو اب یہ فیصلہ کرنا ہے کہ انہیں دو "میم” یعنی مزاحمت یا پھر مفاہمت میں سے  کس کو چننا ہے۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین