ٹاپ سٹوریز
مفاد عامہ کی آڑ میں ذاتی ایجنڈے کو پروان چڑھانے والے اختیارات نہیں چاہتا، چیف جسٹس
چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چارج سنبھالنے کے بعد پہلے عدالتی دن سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر فل کورٹ بنانے کی درخواست منظور کرتے ہوئے اسے براہ راست ٹی وی پر نشر کرنے کی بھی اجازت دی۔ ابھی تک کیس کی سماعت جاری ہے، عدالتی کارروائی میں لنچ کا وقفہ کیا گیا ہے۔
سپریم کورٹ کے فل کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر سماعت کا آغاز کیا تو چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ ہم نے پائلٹ پراجیکٹ کے طور پر کیس کی کاروائی براہ راست نشر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
چیف جسٹس نے پاکستان بار کونسل کی جانب سے اس کیس میں فل کورٹ بنانے کی درخواست منظور کرتے ہوئے ریمارکس دے کہ ہم میں سے کچھ لوگوں نے یہ کیس پہلے نہیں سنا۔
چیف جسٹس نے درخواست گزار خواجہ طارق رحیم کو دلائل دینے کی دعوت دی جنھوں نے خود بھی فل کورٹ بنانے کے فیصلے کی حمایت کی۔
چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ دلائل کو محدود رکھیں، چیف جسٹس نے خواجہ حارث کو بھی دلائل مختصر رکھنے کی ہدایت کی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سوال یہ تھا کہ کیا جنہوں نے پہلے کیس سنا وہ بنچ کا حصہ ہوں گے یا نہیں ،پھر سوال تھا کیا سینئر ججز ہی بنچ کاحصہ ہوں گے؟
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ فل کورٹ اگر یہ کیس سنے گی تو اسی ایکٹ کے سیکشن 5کا کیا ہو گا؟کیا سیکشن میں جو اپیل کا حق دیا گیا ہے اس پر عمل نہیں کیا جائے گا؟
چیف جسٹس نے کہا کہ خواجہ صاحب آپ جیسے دلائل دینے چاہتے ہیں ویسے دیں ،اپنی مرضی سے دلائل دیں پھر بنچ ممبر نے جو سوال کیا اس کا بھی جواب دیں،اپنی درخواست پر فوکس کریں ہزاروں کیس نمٹانے ہیں،
وکیل درخواست گزار خواجہ طارق رحیم نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے فل کورٹ کے ذریعے اپنے رولز بنارکھے تھے، پارلیمنٹ نے سپریم کورٹ کے رولز میں مداخلت کی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا کہ جو کچھ ماضی میں ہوتارہا آپ اسےسپورٹ کرتےہیں؟۔
چیف جسٹس نے خواجہ طارق رحیم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اپنے کسی معاون کو کہیں کہ سوالات نوٹ کریں،آپ کو فوری طور پر جواب دینے کی ضرورت نہیں ،اپنے دلائل کے آخر میں سب سوالات کے جواب دیدیں،آپ بتائیں پورا قانون ہی غلط تھا یا چند شقیں؟
خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ پارلیمنٹ کے پاس قانون سازی کا اختیار آئین سے مشروط ہے،رولز بنانے اور پریکٹس اینڈ پروسیجر کا اختیار سپریم کورٹ کو دیا گیا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آئین کے ساتھ قانون کا بھی کہا گیا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ خواجہ صاحب آپ سوال نوٹ کرتے جائیں، آپ کیا کہہ رہے ہیں کہ یہ قانون بناناپارلیمان کادائرہ کارنہیں تھایااختیارنہیں تھا؟
جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا کہ کیا قانون سازی کے ذریعے چیف جسٹس کے اختیارات کو غیر موثر کیا جا سکتا ہے؟ انھوں نے سوال کیا کہ کیا اس قانون سے چیف جسٹس کو بےاخیتار نہیں کر دیا گیا؟
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا قانون سازی سے چیف جسٹس کی پاورز کو ختم کیا گیا یا پھر سپریم کورٹ کی؟
جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا کہ کیا آپ اس پر مطمئن ہیں کہ بنچ کی تشکیل کا اکیلا اختیار چیف جسٹس کا ہو؟
جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ خواجہ صاحب کیا اس طرح کے اختیارات پر سادہ قانون کے بجائے ائینی ترامیم نہیں ہونی چاہیے؟
جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ سپریم کورٹ یہ قوانین خود بنا لے تو ٹھیک ہے، پارلیمنٹ کرے تو غلط ہے؟
جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ کیا پارلیمنٹ اپنا قانون سازی کا اختیار استعمال کرتے ہوئے عدلیہ میں مداخلت کر سکتی ہے
چیف جسٹس نے کہا کہ خواجہ صاحب میں آپ کی زندگی آسان بنانا چاہتا ہوں آپ نہیں چاہتے؟ کہا ہے آپ صرف سوال نوٹ کریں۔
جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا کہ کیا اس قانون سے چیف جسٹس کو بے اختیار سا نہیں کردیا گیا ؟ خواجہ طارق رحیم نے جواب دینے کی کوشش کی تو چیف جسٹس نے پھر ٹوک دیا اور کہا کہ آپ پھر جواب دینے لگ گئے ہیں ،میں نے کہا کہ ابھی صرف نوٹ کریں۔
چیف جسٹس نے خواجہ طارق رحیم سے سوال کیا کہ ’آپ بتائیں کہ پورا قانون ہی غلط تھا یا چند شقیں۔‘
جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا کہ سیکشن 5 کا کیا ہو گا؟ کیا ایک پارٹی کی وجہ سے ایکسر سائز نہیں ہو گی؟
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے خواجہ طارق رحیم سے کہا کہ ہم شروع کرتے ہیں، ایکٹ پڑھا جائے۔
وکیل خواجہ طارق رحیم نے ماضی کے حوالے سے دلائل جاری رکھے۔
جس پر چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے ان سے کہا کہ خواجہ صاحب! یہ عوامی وقت ہے، ایسے نہ کریں اور ایکٹ پڑھیں، سیکشن 2 میں مت جائیں اور پورا ایکٹ پڑھیں، وہ الفاظ مت بولیں جو ایکٹ میں موجود نہیں۔
جسٹس سردارطارق نے کہا کہ خواجہ صاحب! مہربانی کر کے قانون پڑھ لیں۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے درخواست گزار کے وکیل کو ہدایت کی کہ آپ قانونی نکات کی طرف آئیں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ خواجہ صاحب! اپنے دلائل مرتب کریں، ہر سوال کا جواب فوری مت دیں، اپنے معاون کو کہیں عدالت کے سوالات نوٹ کر لے، جب سوالات سمجھ لیں تو ایک ہی بار جواب دیجیے گا۔
وکیل خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ پارلیمنٹ نے 3 ججز کی کمیٹی بنا کر عوامی مقدمات کے فیصلے کی قانون سازی کی۔
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ آئین کا آرٹیکل 191 کیا کہتا ہے؟
وکیل خواجہ طارق رحیم نے جواب دیا کہ آرٹیکل 70 سے شروع کر کے تمام متعلقہ آئینی شقیں سامنے رکھوں گا، آئین پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار دیتا ہے۔
سماعت کے دوران نئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ وہ ایسے اختیارات نہیں چاہتے جن سے عدلیہ کی آزادی کمپرومائز ہو یا مفاد عامہ کی آڑ میں ذاتی ایجنڈے کو پروان چڑھایا جائے۔
انھوں نے درخواست گزار کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا اگر فل کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے تحت حکم امتناعی برقرار رکھتی ہے تو بطور چیف جسٹس انھیں ہی فائدہ ہوگا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ بلوچستان میں ریکوڈیک کے معاملے پر سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لیا اور اس فیصلے کے نتیجے میں پاکستان کو چھ ارب ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔
اس سے قبل درخواست گزار کے وکیل امتیاز صدیقی دلائل دینے آئے تو جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا آپ پارلیمنٹ کا دائرہ اختیار محدود کرنا چاہتے ہیں کہ وہ کیا کیا نہیں کر سکتی؟
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے سوال کیا کہ رولز کو چھوڑیں، آئین کی بات کریں، کیا آپ چیف جسٹس کو کسی کے سامنے جوابدہ نہیں بنانا چاہتے؟
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم اس قانون سے بھی پہلے اوپر والے کو جواب دہ ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کا آئین سپریم کورٹ سے نہیں، اللہ کے نام سے شروع ہوتا ہے۔
سماعت شروع ہونے سے پہلے جواب داخل کراتے ہوئے وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ سے درخواست کی ہے کہ اس قانون کیخلاف دائر درخواستوں کو ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا جائے۔
وفاقی حکومت کی جانب سے جمع کرائے جانے والے جواب میں کہا گیا ہے کہ پارلیمنٹ آئین کے آرٹیکل 191 کے تحت قانون سازی کر سکتی ہے اور آئین کا آرٹیکل 191 پارلیمنٹ کو قانون بنانے سے نہیں روکتا۔
وفاقی حکومت کے جواب میں کہا گیا ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے عدلیہ کی آزادی متاثر نہیں ہوتی اور سپریم کورٹ سے کوئی بھی اختیار واپس نہیں لیا گیا۔
جواب میں کہا گیا ہے کہ میرٹ پر بھی پارلیمنٹ قانون کیخلاف درخواستیں نا قابل سماعت ہیں۔
-
کھیل1 سال ago
ورلڈ کپ میں ٹیم کی بدترین کارکردگی، سری لنکا نے اپنا کرکٹ بورڈ برطرف کردیا
-
کھیل1 سال ago
کم عمر لڑکی کی سیکس ویڈیو بنانے اور شیئر کرنے پر ریئل میڈرڈ کے 3 کھلاڑی گرفتار
-
تازہ ترین9 مہینے ago
چیئرمین پی سی بی دو طرفہ سیریز پر بات کرنے آئرلینڈ پہنچ گئے
-
دنیا2 سال ago
آسٹریلیا:95 سالہ خاتون پر ٹیزر گن کا استعمال، کھوپڑی کی ہڈی ٹوٹ گئی، عوام میں اشتعال
-
پاکستان9 مہینے ago
مریم نواز سے گورنر پنجاب کی ملاقات،صوبے کی ترقی کے لیے اہم امور پر تبادلہ خیال
-
ٹاپ سٹوریز2 سال ago
آئی ایم ایف بورڈ سے معاہدہ منظور،1.2 ارب ڈالر کا فوری اجرا ممکن، باقی رقم دو سہ ماہی جائزوں سے مشروط
-
تازہ ترین10 مہینے ago
پی سی بی نے انٹرنیشنل ٹیموں کے قیام کے لیے عمارت خرید لی
-
کالم2 سال ago
اسلام میں عبادت کا تصور