Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

تازہ ترین

فالٹ لائنز پر کھڑی اتحادی حکومت اور زلزلے کے امکانات

Published

on

پاکستان کے سیاسی نظام میں سول ملٹری تعلقات میں موجود فالٹ لائنز ہر حکومت کی تشکیل کے کچھ عرصہ بعد اپنا کام دکھانے لگتی ہیں جس سے سیاسی نظام بتدریج کمزور ہونے لگتا ہے لیکن ملک میں اس وقت جو مخلوط سیاسی حکومت قائم ہے اس میں دونوں بڑی اتحادی جماعتوں کے مابین بھی کچھ پالیسی فالٹ لائنز ہیں جن کے بارے میں پہلے دن سے خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے۔

اگرچہ حکومت کی تشکیل کے وقت پیپلزپارٹی کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ وہ کابینہ میں شامل نہیں ہوں گے اور مسلم لیگ ن کو فری ہینڈ دیں گے تاکہ مسلم لیگ ن اپنے منشور پر مکمل طور پر عمل کرکے دکھائے تاہم اس کے ساتھ خبردار بھی کیا گیا کہ وہ جس بات کو غلط سمجھیں گے اس کی نشاندہی بھی کی جائے گی۔

ایک تاثر تھا کہ یہ حکومت ملک کی سیاسی تاریخ کی چند مضبوط ترین حکومتوں میں سے ایک ثابت ہوسکتی ہے جسے اسٹبلشمنٹ کی بھی بھرپور حمایت حاصل ہے اور اکانومی سمیت دیگر اہم سلگتے ہوئے معاملات پر اچھی مضبوط فیصلہ سازی دیکھنے کو ملے گی۔ لیکن گذشتہ دو ہفتے کے دوران چئیرمین ارسا اور آئی جی سندھ کی تقرریوں کے معاملات پر پیدا ہونے والی صورتحال نے کچھ اچھا تاثر نہیں چھوڑا جبکہ این ایف سی اور نجکاری کے ایشوز پر دونوں بڑے حکومتی اتحادیوں کے درمیان پالیسی اختلافات اب مزید نمایاں ہو کر سامنے آرہے ہیں۔

وفاقی دارالحکومت کے باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ چئیرمین ارسا اور آئی جی سندھ کی تقرریوں پر جس انداز سے وزیراعظم کو بیک فٹ پر جانا پڑا اس سے خود وزیراعظم شہبازشریف کی پوزیشن کو ایک دھچکا لگا ہے۔ حاکم وقت کے لئے ایسی کمزور پوزیشن اس کی گورننس اور حکومتی معاملات پر گرفت کو کمزور کرتی ہے۔ خود مسلم لیگ ن کے اندر وزیراعظم شہبازشریف کی طرف سے دونوں ایشوز پر پیچھے ہٹنے کے عمل پر تنقید ہورہی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ چئیرمین ارسا کی تقرری کے حوالے سے وزیراعظم کو خود بھی چاہیے تھا کہ وہ اپنی پارٹنر جماعت پیپلزپارٹی سے مشاورت کرلیتے کیونکہ ارسا کا معاملہ ملک میں پانی کی تقسیم کے ساتھ جڑا ہے اور سندھ میں اس حوالے سے جس قدر حساسیت پائی جاتی ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اس لئے پیپلزپارٹی اور سندھ حکومت کی بھی اس پر لب کشائی ان کی مجبوری تھی کیونکہ انہوں نے سندھ میں اپنے عوامی حلقے کو مطمئن کرنا ہوتا ہے۔

ارسا کے معاملہ پر ایک اور بھی کام ہوا کہ پیپلزپارٹی نے سابق نگران حکومت اور بالخصوص نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کو خوب آڑے ہاتھوں لیا جنہوں نے حکومت کے آخری دنوں میں ایک ایسے وقت صدارتی آرڈیننس کے ذریعے چئیرمین ارسا کی تقرری کا طریق کار تبدیل کرنے کی کوشش کی تھی جب قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا جاچکا تھا۔ اس وقت کے صدر عارف علوی نے بھی اس آرڈیننس کی منظوری دینے سے انکار کردیا تھا۔  پیپلزپارٹی کا کہنا ہے کہ اول تو اتنا بڑا فیصلہ نگران حکومت کے دائرہ کار میں نہیں آتا اور پھر جب قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرلیا گیا ہو تو آرڈیننس کا اجرا ایک غیرقانونی اور غیر آئینی کام ہوتا ہے۔ اس پر انوارالحق کاکڑ پیپلزپارٹی کے غیض و غضب کا نشانہ بنے اور اسی جھٹکے میں انوارکاکڑ کی چئیرمین سینیٹ بننے کی خواہش کا بھی کریا کرم کردیا گیا۔ یعنی پیپلزپارٹی ایک تیر سے دوشکار کرگئی۔ کچھ اسی قسم کا ٹریلر آئی جی سندھ کی تقرری پر چلا۔ وہاں بھی پیپلزپارٹی نے نون لیگ سے اپنی فرمائش منوائی ہے۔

اب آنے والے دنوں میں بھی دو نئے ایشوز سر اٹھا رہے ہیں۔ ایک تو نیشنل فنانس کمیشن کی تشکیل نو یعنی وفاق اور صوبوں میں قومی وسائل کی تقسیم کے فارمولے کو ازسرنو ترتیب دینے کی بات کی جارہی ہے۔ جس میں وفاق کا حصہ دوبارہ بڑھانے کی کوشش کی جائے گی جس کے نتیجے میں لامحالہ صوبوں کا شئیر کم ہوگا۔  موجودہ این ایف سی ایوارڈ 2010 میں پیپلزپارٹی کی حکومت نے چاروں صوبوں کے اتفاق رائے سے تیار کیا تھا، جس میں صوبوں کے کئی دہائیوں سے چلے آرہے مطالبات کو مانا گیا۔ وفاقی محاصل میں صوبوں کا شئیر پہلے سے بڑھایا گیا نتیجے میں وفاق کا حصہ کم ہوگیا۔ وسائل کی اس نئی تقسیم پر ہماری اسٹبلشمنٹ پہلے روز سے ہی خوش نہیں۔ کیونکہ وفاقی محاصل کم ہونے سے دفاعی بجٹ بھی متاثر ہوتا ہے، اس لئے’ پنڈی پارٹی‘ اسے سابقہ شکل میں بحال دیکھنا چاہتی ہے۔ دوسری طرف آئی ایم ایف نے بھی اس کا مطالبہ کردیا۔ اس معاملہ پر ایک بار پھر پیپلزپارٹی وزیراعظم شہباز شریف کے سامنے دیوار بن کر کھڑی ہوگئی  ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دوسرے دونوں چھوٹے صوبوں کو بھی وہ اپنے ساتھ کھڑا کررہے ہیں۔ بلکہ اب تو یہاں تک کہا جارہا ہے کہ شاید پنجاب کی مسلم لیگ ن حکومت خود بھی اپنے وسائل کم کرنے کے لئے وفاقی حکومت کا ساتھ نہ دے۔ یہی حال کے پی اور بلوچستان کا بھی ہوگا۔

اب بات کریں نجکاری کی تو ایس آئی ایف سی اس وقت مکمل طور پر فعال ہوچکی ہے۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیر خود اس کی میٹنگز میں شریک ہورہے ہیں۔ حکومت کو اس وقت مختلف کارپوریشنز اور اداروں میں بیڈ گورننس اور کرپشن کی وجہ سے ایک ہزار ارب روپے سے زائد کے خسارے کا سامنا ہے۔ جس میں پی آئی اے، اسٹیل ملز، یوٹیلیٹی سٹورز، مختلف بینکس اور بجلی کی پیداواری اور ترسیلی کمپنیاں شامل ہیں۔ حکومت ان کی نجکاری کے ذریعے اس بڑے خسارے سے جان چھڑانا چاہتی ہے۔ اسٹبلشمنٹ کی اپنی بھی منشا یہی ہے لیکن اس معاملہ میں ایک بار پھر پیپلزپارٹی رکاوٹ بن رہی ہے۔ پیپلزپارٹی ان قومی اداروں کو مکمل طور پر پرائیویٹ سیکٹر کے حوالے کرنے کی بجائے مطالبہ کررہی ہے کہ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تجرے کو دہرانا چاہتی ہے۔

یہ بات بھی اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ دونوں بڑی جماعتیں ایک دوسرے میں ضم نہیں ہوئیں بلکہ انہوں نے اپنی اپنی انفرادی شناخت کو برقرار رکھتے ہوئے معروضی حالات کے پیش نظر مل کر حکومت تشکیل دی ہے تاکہ ملک میں کوئی سیاسی ڈیڈ لاک پیدا نہ ہو۔

نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ اور نجکاری کے ایشوز پر اختلاف رائے اگرچہ ایک تنازعہ کی صورت اختیار کرتا نظر آرہا ہے تاہم دیکھنا ہوگا کہ دونوں جماعتوں کی قیادت اسے اختلاف رائے میں سے اصلاح کا کیا پہلو نکالتی ہیں۔ کیونکہ ملک اس وقت کسی مزید سیاسی کھینچاتانی کا متحمل نہیں۔

لاہور سے سینئر صحافی ہیں۔ جنگ،پاکستان، کیپیٹل ٹی وی، جی این این اور سما ٹی وی سمیت ملک کے نامور اخبارات اور ٹی وی چینلز کے لئے سیاسی رپورٹنگ کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ مختلف اخبارات میں ان کے آرٹیکلز باقاعدگی سے شائع ہوتے ہیں جبکہ ٹی وی چینلز پر کرنٹ افئیر کے پروگرامز میں بھی بطور تجزیہ کار ان کی رائے کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔

Continue Reading
1 Comment

1 Comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین