Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

پاکستان

کسٹم کے ’ رقم کلکٹرز‘ !

Published

on

دودھ کی حفاظت، سپولوں کے ذمے

کسٹم میں رشوت نہیں چلتی!

میں نے یہ بات کئی جگہ کہی، کوئی نہیں مانا۔

میں نے بات بدلی…. کسٹم میں شاذ و نادر ہی پیسے چلتے ہیں۔

میں، ایک بار پھر دوستوں کی ہنسی کا مرکز بنا…..

بالآخر مان گیا کہ جہاں ملک میں اچھے، بلکہ اچھے ترین، افسروں کی کمی نہیں ہے وہیں بدترین افسر بھی مل جاتے ہیں۔ یہ وہ ناسور ہیں، جن کی وجہ سے ملک، آئی ایم ایف کے سامنے جھکا ہوا ہے۔ مگر، یہ نمونہ ہیں، ایک مصرعے کا، شرم تم کو نہیں آتی، کا مجسم پیکر ہیں۔ رشوت کے رسیا افسروں کے باعث وزیر اعظم نے آئی ایم ایف کی وہ شرائط بھی مان لی ہیں جن پر عمل ہونے سے آدھے ملک میں عوام خود اندھیرا کریں گے۔ روشنی مہنگی ہو گئی ہے، کسی کے وارے میں نہیں رہی۔ سیاست دانوں کا کیا ہے، انہیں تو ”قومی خدمت” کا صلہ مل رہا ہے۔ خدمت کے صلے میں کیا کچھ مفت نہیں ملتا….. بجلی، پانی، گیس، دوائی، بیرون ملک علاج، ہوائی جہاز کے ٹکٹس، رہاہش ……. یہ ”مفتے” کیا جانیں، ملک کے مسائل، عوام کا درد، لوگوں کی آہیں اور سسکیاں۔

23 کروڑ افراد کی ایٹمی طاقت کے وزیر اعظم، آئی ایم ایف سے پاکستانی کشکول کی منظوری پر اپنے ہی حق میں رطب اللسان ہیں۔ ڈینگوں کی کمی نہیں ہے، ہر جگہ آئی ایم ایف سے منظوری کا ڈھول پیٹا جا رہاہے۔ یہی ان کا انتخابی ایجنڈا ہے۔ اس شور میں، مہنگائی و بے روزگاری کے منوں بوجھ تلے دبے عوام کی دہائی کہاں سنائی دیتی ہے، کسے سنائی دیتی ہے۔ جہاں حکمران مست ہیں وہیں بعض راشی افسران کی مستیاں بھی کہاں رکنے والی ہیں جنہیں دودھ کی حفاظت پر بٹھایا انہی سانپوں اور سپولوں نے دودھ ہڑپ لیا۔

جی ہاں!

اب ہم آپ کو وہ باتیں بتانے والے ہیں جنہیں پڑھ کر شاید کوئی درد میں اپنی انگلیاں ہی چبا ڈالے۔

کسٹم میں ”کلکٹرز” (جمع کرنے والوں) کی سطح کے تین اعلیٰ افسران، جنہیں قومی وسائل، قومی اثاثوں کی حفاظت کی ذمہ داری سونپی گئی تھی، انہی ناسوروں نے سمگلنگ کا نیٹ ورک بنا لیا۔ سال ہا سال سے چلنے والا یہ نیٹ ورک، اب کہیں جا کر بے نقاب ہوا ہے۔ جب، ایف ائی اے نے کسٹم کے تین سمگلر کلکٹرز کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی۔

آئیے، انسداد سمگلنگ کے ادارے ،کسٹم میں سمگلنگ کے سہولت کاروں کی داستانِ غم زدہ پڑھتے ہیں، دل میں انہیں برا سمجھتے ہیں۔

نجی ائیر لائن کی پرواز نمبر PA-208

وفاقی تحقیقاتی ایجنسی نے جولائی 2023 ء کی صبح 9 بجے فارم نمبر FlA-26 کے ذریعے تاریخی ایف آئی آر درج کرائی۔ ایک مخبر کی اطلاع پر شروع ہونے والی انکوائری نمبر 49 (2023) کی فائل کھولی گئی۔ دورانِ تحقیقات، کسٹم کے مگر مچھ ملزم ثابت ہوئے۔ سب انسپکٹر غلام مرتضیٰ کاکا کے ذریعے ریاست پاکستان نے پی سی اے 1947ء کی دفعہ 5(2) اور 156(8) و (89) اور کسٹمز ایکٹ 1969ء کی دفعہ109 کے تحت مقدمہ درج کرا دیا۔ جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ کراچی پر چھاپے کے لیے انسپکٹر محمد عالم ڈہری، انسکیٹر مشال، سب انسپکٹر محمد طاہر، محمد علی اور دیگر پر مشتمل ایک ٹیم تشکیل دی گئی۔ ٹیم، 13جولائی 2023ء کو کراچی ایئر پورٹ پہنچی۔ انہوں نے طارق محمود اور یاور عباس کو اسلام آباد جانے والی ایک نجی ائیر لائن کی پرواز نمبر PA-208، سیٹ نمبر 25 اور 26 کا بورڈنگ پاس حاصل کرتے ہوئے حراست میں لےلیا۔ انہوں نے چھاپہ مارنے کی وجہ پوچھی۔ ملزمان نے اپنی شناخت بیان کی۔  انہوں نے اپنا تعارف کرایا۔ طارق محمود اور یاور عباس، انسداد سمگلنگ میں تعینات تھے۔ چھاپہ مار ٹیم نے ملزمان کے قبضے سے محکمانہ شناختی کارڈز برآمد کئے۔ ملزمان نےبتایا کہ وہ دو روزہ ذاتی دورے پر اسلام آباد جا رہے تھے۔

ڈالرز اور نوٹوں سے بھرا سرکاری ڈالا

 دورانِ تفتیش پتہ چلا کہ ملزمان سرکاری ویگو ڈالا، نمبر GPA-297، میں ہوائی اڈے پہنچے ہیں۔ چھاپہ مار پارٹی پارکنگ میں کھڑے ڈالے کی طرف بڑھی۔ ڈالا، ہوائی اڈے کی ”U ”پارکنگ لاٹ میں نظر آیا۔ تلاشی لینے پر ڈالے سے 54 لاکھ پاکستانی روپے، 2406 امریکی ڈالر اور 6100 اماراتی درہم برآمد ہوئے۔ دونوں ملزمان اتنی بڑی رقم کی وضاحت کرنے، معقول جواب میں ناکام رہے۔ بلکہ رضاکارانہ طور پر مان گئے کہ رقم ”سپیڈ منی” یعنی ”پہیہ” ہے۔ موچکو (کیماڑی)، مچ گوٹھ (سہراب گوٹھ) اور گھاس پھاٹک کی چیک پوسٹوں سے ماہانہ 4 سے 5 کروڑ روپے تقسیم ہوتے ہیں۔ برآمد شدہ ملکی اور غیر ملکی کرنسی چیک پوسٹوں کے ذریعے جمع کی گئی ”سپیڈ منی” (پہیے) تھی۔

”کلکٹرز” کتنے کروڑ میں بکے؟ ”سپیڈ منی” (پہیے) میں کون کون شامل؟

یہ رقم، مختلف کلکٹر، ایڈیشنل کلکٹر، ڈپٹی کلکٹر، سپرنٹنڈنٹ، ایس پی ایس، ایس پی او اور پی اوز میں تقسیم کی جاتی ہے۔ سپاری، چھالیہ کی سمگلنگ سے ملنے والے ماہانہ 6 کروڑ روپے ان کے علاوہ ہیں۔ مذکورہ بالا برآمد شدہ مجرمانہ اشیاء کو بحق سرکار ضبط کر لیا گیا۔ 13 جولائی کو ملزمان کی موجودگی میں ایف آئی اے کی ٹیم نے میمو تیار کیا۔ ملزمان نے قانونی دستاویزات میں رقم کی  برآمدگی کی تصدیق کی۔ ملزمان، طارق محمود اور یاور عباس نے سمگلروں کے سہولت کاروں اور سمگلنگ کا نیٹ ورک منظم کرنے والوں کے نام بتائے۔ سمگلنگ کے محفوظ راستوں اور مصنوعات کی نقل و حمل میں سہولت فراہم کرنے کا اعتراف کیا۔ ان سے ہمیں یہ بھی پتہ چلا کہ بلوچستان کے سرحدی علاقوں سے کراچی تک سمگلنگ کا منظم جال کیسے بچھایا گیا تھا۔

کسٹم کے کس افسر نے ملک کو کتنا مقروض بنایا؟

راشی افسران کے ناموں کے انکشاف پر سبھی چوکنے ہوگئے۔ رشوت کی دلدل میں دھنسے افسران کے نام سن کر دل دھک سے رہ گیا۔ ایک بڑے سہولت کار، عثمان باجوہ (سابق ڈائریکٹر، اے ایس او) نے مارچ 2023 سے اپریل 2023 کے دوران تقریباً 16 کروڑ روپے رشوت کی دلدل میں دھنسے تھے، نقدی بھی لی سونا بھی۔ سونے کے تو شیدائی نکلے۔ سمگلنگ کے مگر مچھ سہولت کاروں اور راشیوں کے ذرا نام پڑھیے؛

1- ثقیف سعید: آپ 2020ء میں ڈائریکٹر، اینٹی سمگلنگ آرگنائزیشن (ASO) تعینات تھے، اسی حیثیت سے جناب نے سمگلنگ کا گروہ منظم کیا، جلد ہی اپنے قابلِ اعتماد ساتھیوں کو انسدادِ سمگلنگ شعبے میں تعینات کرا دیا۔ اب راستے کھلے تھے۔ یہ افسران مختلف سمگلروں سے ”سپیڈ منی” اکٹھی کر رہے تھے۔

2- عثمان باجوہ: ثقیف سعید کے بعد، عثمان باجوہ نے بطور اے ایس او، اپنے پیش رو کے نیٹ ورک کو قائم رکھا۔ انہیں بغیر محنت کئے، سب کچھ مل گیا، ساری محنت، ہمت اور تقررو تبادلے ثقیف نے کئے تھے۔ عثمان باجوہ گھر بیٹھے نوٹ گنتے رہے۔

 3-عمر تھہیم بھی نیٹ ورک کاحصہ بنے۔ رشوت کی گندگی، انہوں نے بھی اپنی قسمت میں خوب لکھی، 10 کروڑ روپے مہینہ وصول کرتے رہے۔ وہ فروری 2023 میںڈائریکٹر انسدادِ سمگلنگ بنے مگر سمگلروں کو چھتری فراہم کرنےمیں کوئی کسر نہ چھوڑی۔

4- چھالیہ کی سمگلنگ کا نیٹ ورک: اس کے کرتا دھرتا ملزم طارق محمود نورانی تھے۔ بلوچستان سے کراچی تک چھالیہ کی فراہمی و سمگلنگ کا نیٹ ورک انہی کے دم سے قائم و دائم تھا۔ رقم کے تقسیم کار بھی وہی تھے۔ اس سیاہ دھندے نے انہیں ایک عدد چھالیہ فیکٹری کا مالک بنا دیا تھا۔

مقدمہ متعدد افراد کے خلاف درج کیاگیا جن میں طارق محمود، یاور عباس، ثقیف سعید، کلکٹر کسٹمز (اس وقت ڈائریکٹر افغان ٹرانزٹ ٹریڈ تعینات تھے)، عثمان باجوہ، کلکٹر کسٹمز، اس وقت کلکٹر، آر ایکسپورٹ کلکٹریٹ تعینات تھے)، عامر تھہیم، کلکٹر انفورسمنٹ اور طارق محمود نورانی (چھالیہ ڈیلر/ سپلائر) کےخلاف درج کیا گیا ہے۔

صہیب مرغوب قومی صحافت کا اہم نام ہیں، 36 برس روزنامہ جنگ کے انچارج میگزین اور ایڈیٹر میگزین رہے۔ساڑھے چار برس روزنامہ دنیا کے میگزین ایڈیٹر رہے۔ ہفتہ وار میگزین میں متنوع موضوعات پر ہزاروں مضامین لکھے ۔بین الاقوامی امور اور بھارت کی سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین