Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

کالم

دام اور صیاد

Published

on

Daam aur Sayyad column Imran yaqoob khan

مخصوص نشستوں کا معاملہ الجھتا جا رہا ہے اور اس الجھن کو صرف سپریم کورٹ ہی ختم کر سکتی ہے۔ حکومت کی کوشش ہے کہ مخالف پارٹی کو مخصوص نشستوں سے محروم رکھا جائے تاکہ اس کے اقتدار کے لیے کوئی خطرہ درپیش نہ رہے‘ لیکن زمینی حقائق کچھ اور معاملات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔

مخصوص نشستوں کے معاملے میں تازہ پیش رفت یہ ہے کہ پاکستان بار کونسل کے چھ ممبران کی جانب سے سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی گئی ہے، جس میں الیکشن کمیشن، وزارت قانون اور وفاق پاکستان سمیت دیگر کو فریق بناتے ہوئے عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ الیکشن ایکٹ میں حالیہ ترمیم کو کالعدم قرار دیا جائے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ وفاقی حکومت اور الیکشن کمیشن کو حالیہ ترمیم پر عمل درآمد روکنے کا حکم دے کیونکہ حالیہ ترمیم آئینِ پاکستان کی مختلف شقوں سے متصادم ہے، اور الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے ذریعے سپریم کورٹ کے 12 جولائی کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کی کوشش کی گئی ہے۔

یاد رہے کہ حکومت نے ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی اور ایوانِ بالا یعنی سینیٹ سے الیکشن ایکٹ ترمیمی بل 6 اگست کو منظور کرایا تھا۔ قبل ازیں یہ بل جب قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا تو ایوان زیریں کی قائمہ کمیٹی کے حوالے کر دیا گیا تھا جس نے ضروری غور و خوض کے بعد بل کی منظوری دی تھی۔ یہ بل الیکشن ایکٹ 2017ءمیں دو ترامیم پر مبنی ہے۔ پہلی ترمیم سیکشن 66 اور دوسری ترمیم سیکشن 104 میں کی گئی ہے۔ پہلی ترمیم کے مطابق کسی سیاسی جماعت کی جانب سے وابستگی کا اقرار نامہ تبدیل نہیں کیا جا سکے گا جبکہ دوسری ترمیم میں کہا گیا ہے کہ جس پارٹی نے مخصوص نشستوں کی فہرست نہ دی ہو، اسے مخصوص نشستیں نہیں دی جا سکتیں۔

اس بل کا بظاہر مقصد پاکستان تحریکِ انصاف کو ان مخصوص نشستوں سے محروم کرنا ہے جو سپریم کورٹ نے اپنے ایک فیصلے کے ذریعے پی ٹی آئی کو تفویض کی ہیں۔ سپریم کورٹ نے 12 جولائی کو مخصوص نشستوں سے متعلق سنی اتحاد کونسل کی اپیل کا فیصلہ سناتے ہوئے ان نشستوں کا حق دار پی ٹی آئی کو قرار دیا تھا اور اس ضمن میں الیکشن کمیشن اور پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیا تھا۔ الیکشن کمیشن نے خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں سنی اتحاد کونسل کے بجائے دیگر جماعتوں میں تقسیم کر دی تھیں۔ بعد ازاں پشاور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کو برقرار رکھا تھا۔ الیکشن کمیشن نے موقف اختیار کیا تھا کہ سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں سے متعلق فہرستیں فراہم نہیں کی تھیں۔

حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) نے مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلے پر نظرِ ثانی کی اپیل عدالت میں دائر کر رکھی ہے۔ اپنی نظرثانی اپیل کے باوجود حکومت نے الیکشن ایکٹ میں ترامیم کو ضروری سمجھا اور یہ ترامیم کرا لیں۔ ایک اپیل پی ٹی آئی نے بھی مذکورہ ترمیمی بل کے خلاف دائر کر رکھی ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد کا اعلان تو کیا ہے اور عمل درآمد ہو بھی رہا ہے‘ لیکن اس ادارے نے ساتھ ہی رجسٹرار سپریم کورٹ کو درخواست جمع کرائی ہے جس میں مخصوص نشستوں کے حوالے سے عدالت عظمیٰ کی فل کورٹ کے اکثریتی فیصلہ کے بارے میں وضاحت کرنے کی استدعا کی گئی۔ اس کے بعد 10 اگست کو سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سپریم کورٹ نے فیصلہ کر لیا تو اس پر عمل درآمد ہونا چاہیے، یہ نہیں ہو سکتا کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل درآمد نہ ہو، اگر اس طرف چل پڑے تو آئینی توازن بگڑ جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل درآمد روایت نہیں بلکہ لازمی تقاضا ہے اور سپریم کورٹ کو یہ اتھارٹی کہیں اور سے نہیں بلکہ آئین سے حاصل ہوتی ہے، آئین کہتا ہے کہ یہ فیصلہ ہے اور اس پر عمل درآمد ہونا ہے، اور یہی طریقہ ہے۔

عدالت سے حکومت کی نظر ثانی اپیل کا فیصلہ کیا آتا ہے اور الیکشن ایکٹ ترمیمی بل منظور کرانے کے بعد حکومت پی ٹی آئی کو مخصوص نشستوں سے محروم کرنے میں کامیاب ہو پاتی ہے یا نہیں؟ میرے آج کے کالم کا موضوع یہ نہیں ہے۔ میرے کالم کا موضوع یہ ہے کہ بعض حکومتیں اور حکمران ایسے فیصلے، ایسے اقدامات کر جاتے ہیں اور ایسی قانون سازی کرانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جو ان کی وقتی سیاسی ضروریات کو تو پورا کرتے ہوتے ہیں لیکن طویل مدت کے تناظر میں جن کے اثرات و نتائج منفی یا برے نکلتے ہیں اور کئی بار ایسا ہوا کہ قانون بنانے والے خود ہی اس کی زد میں آ جاتے رہے۔

حکومت نے اگر الیکشن ایکٹ ترمیمی بل منظور کرایا ہے تو مجھے ذاتی طور پر اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ قانون سازی حکومت کا حق ہے اور اس نے یہ حق استعمال کیا ہے۔ کل کو معزز عدالت اس بل کے بارے میں جو فیصلہ سنائے گی میرے خیال میں وہی سب سے اعلیٰ اور مناسب ہو گا۔ میں بات کر رہا ہوں اپنے ہی بنائے گئے قوانین کی زد میں آنے کے امکانات یا خدشات کی۔ اپنی بات یا اپنا تھیسز واضح کرنے کے لیے میں نیب کے ادارے اور نیب قوانین کی مثال پیش کروں گا جو کسی زمانے میں مسلم لیگ ن والوں نے اپنے مخالفین کو دباﺅ میں رکھنے اور دبائے رکھنے کے لےے وضع کیے تھے‘ لیکن پھر خود بھی اس کی زد میں آتے رہے اور جب خود اس کی زد میں آئے تو اس ادارے کو ہی ختم کرنے کا مطالبہ شروع کر دیا۔ وہ جو کہتے ہیں کہ آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا‘ بس ویسا ہی معاملہ۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ اتنی کوششیں کرنے‘ اتنا سرمایہ لگانے اور مقدمات قائم کرنے کے باوجود کرپشن کا لیول کم نہیں کیا جا سکا ہے۔ وطنِ عزیز آج پہلے سے زیادہ کرپشن کا شکار ہے۔

اس حوالے سے 1990ءسے 1999ءتک کے عرصے کو اگر احتساب کا دور قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ کبھی سیف الرحمن نے بینظیر بھٹو اور ان کے شوہر کا احتساب کیا تو کبھی رحمان ملک نے شریف خاندان کے احتساب کا فریضہ سرانجام دیا۔ جنرل مشرف نے تو باقاعدہ احتساب بیورو قائم کر دیا تھا۔ اگرچہ اس سارے عرصے میں برسرِ اقتدار آنے والی حکومتوں اور حکمرانوں کی جانب سے دعویٰ یہ کیا جاتا رہا کہ احتساب کے عمل میں انصاف کے تقاضے پورے ہو رہے ہیں‘ لیکن جیسا کہ پہلے عرض کیا‘ در حقیقت اس ادارے کو مخالفین کو دبانے اور دبائے رکھنے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا۔

میں اپنے تھیسز کو آگے بڑھاتا ہوں۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی اتحادی حکومت نے اپنی ضرورت کے مطابق الیکشن ایکٹ میں ترامیم کا بل منظور تو کر لیا ہے‘ لیکن ممکن ہے مستقبل میں کبھی ایسا بھی ہو جائے کہ حکومت سازی کے لیے یا کسی برسرِ اقتدار حکومت کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پیش کرنے کے لیے اسے دوسری پارٹیوں کے اراکین کی حمایت کی ضرورت پڑے‘ اور وہ اپنے ہی بنائے ہوئے قانون کی وجہ سے ایسا کرنے سے قاصر رہیں۔ ممکن ہے حقیقت میں ایسا کبھی نہ ہو‘ لیکن اس گمان‘ امکان یا اندیشے کو کس طرح نظر انداز کیا جا سکتا ہے کہ ایسا ہو بھی سکتا ہے۔ تو سوال یہ ہے کہ قانون سازی کرتے وقت وقتی ضروریات کو ہی پیشِ نظر کیوں رکھا جاتا ہے‘ In the long run بنائے گئے قوانین کے کیا نتائج نکلیں گے‘ اس بات کو سامنے کیوں نہیں رکھا جاتا؟

اس سے بڑھ کر میرا سوال بلکہ مطالبہ یہ ہے کہ قوانین نہ تو کسی وقتی سیاسی ضرورت کو سامنے رکھ کر بنائے جانے چاہئیں‘ اور نہ ہی ان کا مقصد مخالفین کو تابع رکھنا ہونا چاہیے۔ قوانین ہمیشہ ملک اور قوم کے وسیع تر مفاد میں بنائے جاتے ہیں اور یہاں بھی اسی عالمی سطح پر جاری پریکٹس پر عمل ہونا چاہےے۔ کیا خیال ہے آپ کا؟

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین