دنیا
تنازعات سے نمٹتے ہوئے نئی سرد جنگ سے بچنا ہوگا، چین کا انتباہ
چینی وزیر اعظم لی کیانگ نے کہا ہے کہ ممالک کے درمیان تنازعات سے نمٹنے کے دوران "نئی سرد جنگ” سے بچنا ضروری ہے۔
جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی تنظیم (آسیان) اور چین، جاپان اور جنوبی کوریا کے ارکان پر مشتمل سالانہ سربراہی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے، لی نے کہا کہ ممالک کو "اختلافات اور تنازعات کو مناسب طریقے سے سنبھالنے” کی ضرورت ہے۔
لی نے میٹنگ میں کہا، "فی الحال، فریقین کے درمیان محاذ آرائی اور ایک نئی سرد جنگ کی مخالفت کرنا بہت ضروری ہے۔”
آسیان، جس نے بڑی طاقتوں کے تنازعات میں گھسیٹے جانے کے خطرے سے خبردار کیا ہے، لی، امریکی نائب صدر کملا ہیرس، اور جاپان، جنوبی کوریا، آسٹریلیا اور بھارت سمیت مختلف شراکت دار ممالک کے رہنماؤں کے ساتھ بھی وسیع تر بات چیت کر رہا ہے۔
نہ ہی امریکی صدر جو بائیڈن اور نہ ہی ان کے چینی ہم منصب ژی جن پنگ اس سربراہی اجلاس میں شرکت کر رہے ہیں۔
انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتہ میں ہونے والے اجتماع کے ایجنڈے میں سب سے اوپر، بحیرہ جنوبی چین میں چین کی بڑھتی ہوئی جارحانہ سرگرمیوں کے بارے میں تشویش ہے، یہ ایک اہم تجارتی راہداری ہے جس پر آسیان کے کئی اراکین کے دعوے چین سے متصادم ہیں ۔
آسیان کے موجودہ سربراہ، انڈونیشیا کے وزیر خارجہ نے کہا کہ آسیان نے اس ہفتے چین کے ساتھ آبی گزرگاہ کے لیے ایک طویل زیر بحث ضابطہ اخلاق پر بات چیت کو تیز کرنے پر تبادلہ خیال کیا۔
انہوں نے کہا کہ یہ مسئلہ آسیان-جاپان سربراہی اجلاس کے دوران بھی سامنے آیا جہاں رہنماؤں نے "خطے میں حالات کو سازگار رکھنے کی اہمیت کا اظہار کیا، خاص طور پر جزیرہ نما کوریا اور بحیرہ جنوبی چین میں”۔
امریکا اور اس کے اتحادیوں نے بحیرہ جنوبی چین میں جہاز رانی اور خطے پر پروازوں کی آزادی اور متنازعہ پانیوں میں تعمیرات سے گریز کے مطالبات کرتے آئے ہیں اور آسیان میں بھی ان مطالبات کی بازگشت سنائی دی۔ چین نے سمندر میں چھوٹے چھوٹے حصوں پر رن وے سمیت مختلف سہولیات تعمیر کی ہیں۔
وائٹ ہاؤس کے ایک اہلکار نے منگل کو کہا، "نائب صدر کملا ہیرس اجلاس کے دوران چین کے غیر قانونی سمندری دعووں اور اشتعال انگیز اقدامات کے پیش نظر، بحیرہ جنوبی چین سمیت، قواعد پر مبنی بین الاقوامی نظم کو برقرار رکھنے میں امریکہ اور آسیان کے مشترکہ مفاد پر زور دیں گی۔” .
اس ہفتے کے اجتماعات سے ٹھیک پہلے، چین نے ایک نقشہ جاری کیا جس میں بحیرہ جنوبی چین کے وسیع علاقے کو چین کا حصہ دکھایا گیا۔آسیان کے کئی ارکان نے اس نقشے کو مسترد کر دیا۔
بحیرہ جنوبی چین کا حوالہ دیتے ہوئے، فلپائن کے صدر، فرڈینینڈ مارکوس نے کہا کہ ان کا ملک تنازع نہیں چاہتا لیکن ہمارا کا فرض ہے کہ اپنی خودمختاری کو درپیش کسی بھی چیلنج کا مقابلہ کریں۔
مارکوس نے کہا کہ فلپائن ان گمراہ کن بیانیوں کو سختی سے مسترد کرتا ہے جو بحیرہ جنوبی چین میں تنازعات کو صرف دو طاقتور ممالک کے درمیان اسٹریٹجک مقابلے کی عینک سے طے کرتے ہیں۔یہ نہ صرف ہماری آزادی کا انکار کرتا ہے، بلکہ یہ ہمارے اپنے جائز مفادات کو بھی نظر انداز کرتا ہے۔
‘زبردست خطرہ’
جنوب مشرقی ایشیائی گروپ کے کچھ ارکان نے چین کے ساتھ قریبی سفارتی، کاروباری اور فوجی تعلقات استوار کیے ہیں جبکہ دیگر زیادہ محتاط ہیں۔
آسیان اس ہفتے ایک بیان جاری کرے گا، روئٹرز کے مطابق اس بیان کا مسودہ اس نے دیکھا ہے اور اس بیان میں کہا گیا ہے کہ ہمارے خطے میں سمندری دائرے میں استحکام کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے … اور ان مقاصد کے لیے نئے اقدامات تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
تھنک ٹینک سی ایس آئی ایس کی سیاسی تجزیہ کار لینا الیگزینڈرا نے کہا کہ یہ مسودہ "بحیرہ جنوبی چین کے معاملات پر بہت کمزور” ہے، فلپائن آسیان کے ساتھ صبر کھو چکا ہے، اگر آسیان مفید نہیں ہے تو یہ ایک بہت بڑا خطرہ ہے، کیونکہ دوسرا آپشن یہ ہے کہ وہ بڑی طاقتوں کے پاس جائیں اور وہ ان بڑی طاقتوں کو خطے میں لے آئیں۔
اس سربراہ اجلاس میں جنوبی کوریا کے صدر یون سک یول نے جاپان اور چین کے ساتھ بہتر تعلقات استوار کرنے کے لیے تین طرفہ مذاکرات کی جلد بحالی کے لیے کام کرنے کا عہد بھی کیا۔
یون نے کہا کہ شمالی کوریا کے ساتھ کسی بھی قسم کا فوجی تعاون بند ہونا چاہیے۔ نیویارک ٹائمز نے پیر کے روز اطلاع دی ہے کہ شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان اس ماہ روس کا دورہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جہاں وہ صدر ولادیمیر پوتن سے ملاقات کریں گے اور یوکرین میں جنگ کے لیے ماسکو کو ہتھیاروں کی فراہمی پر بات چیت کریں گے۔
آسیان کے 10 ممبران نے ہفتے کے شروع میں اپنی سربراہی کانفرنس منعقد کی تھی جس میں رہنماؤں نے بلاک کی مطابقت پر زور دینے کی کوشش کی تھی، تنقید کے باوجود یہ میانمار کے فوجی رہنماؤں پر امن کے منصوبے پر تعاون کرنے کے لیے دباؤ ڈالنے میں ناکام رہے۔