تازہ ترین
تاخیر پہ تاخیر
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں
ضروری بات کہنی ہو کوئی وعدہ نبھانا ہو
اسے آواز دینی ہو‘ اسے واپس بلانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں
منیر نیازی نے یہ بات اپنی کج ادائیوں کے حوالے سے کہی تھی لیکن ہم نے اس سست روی کو اپنی قومی زندگی کا وتیرہ بنا لیا ہے کہ کوئی کام وقت پر نہیں کرنا‘ کوئی فیصلہ وقت رہتے نہیں کرنا‘ پہلے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنا ہے اور عین آخری وقت پے‘ عین Eleventh Hour کچھ ہل جُل کرنی ہے۔ کام ہو گیا تو ہو گیا‘ ورنہ قدرت پر ڈال دینا ہے کہ اسی کو نہیں منظور تھا‘ ہم نے تو بڑی کوشش کی۔ قائدِ اعظم نے ہدایت دی تھی: کام ‘ کام اور کام‘ لیکن ہم نے اس کے معنی یہ اخذ کیے کہ تاخیر‘ تاخیر اور مسلسل تاخیر۔ مرزا غالب نے کہا تھا:
ہوئی تاخیر تو کچھ باعثِ تاخیر بھی تھا
لیکن دوسروں پر ہمیں امتیاز یہ حاصل ہے کہ کچھ باعثِ تاخیر نہ ہو تب بھی ہم تاخیر کر دیتے ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے گزشتہ ماہ ایک امریکی یونیورسٹی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ تاخیر سے ہونے والے فیصلے افادیت کھو بیٹھتے ہیں۔ ان کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ: Justice delayed is justice denied۔ قاسم علی شاہ اپنی ایک تحریر میں لکھتے ہیں: کسی ناکام آدمی کی زندگی پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہو گا کہ اس ناکامی کی ایک وجہ کاموں میں تاخیر اور ٹال مٹول کی عادت ہے یعنی ایسے کام کو ملتوی کرنا اور ملتوی کرتے جانا جو نہایت اہمیت کا حامل اور ضروری تھا۔
یہ ساری باتیں بجٹ کے اعلان کے حوالے سے مختلف تاریخیں سامنے آنے کے بعد یاد آ رہی ہیں۔ خبر ملی کہ بجٹ 10 جون کو آ رہا ہے۔ پھر اطلاع ملی کہ بجٹ 9 جون کو آئے گا۔ پھر یہ تجزیہ پیش کیا گیا کہ چونکہ وزیر اعظم نے چین کے دورے پر جانا ہے اس لیے بجٹ 7 یا 8 جون کو پیش کیا جائے گا۔ اور آج کی تازہ ترین خبر یہ ہے کہ بجٹ 10 سے 12 جون کے درمیان پیش کیا جائے گا‘ یعنی وثوق کے ساتھ پن پوائنٹ اس خبر میں بھی نہیں کیا گیا کہ دراصل بجٹ کب پیش ہو گا۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سلسلے میں اور بہت سے دوسرے معاملات میں میڈیا کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت خود بھی بجٹ کی حتمی تاریخ کا تعین نہیں کر سکی ہے۔ کیوں نہیں کر سکی جبکہ یہ ایک نہایت اہمیت کا حامل معاملہ ہے‘ اس بارے میں تو حکمران ہی ٹھیک جواب دے سکتے ہیں۔ تاخیر کا باعث یہ بھی ہو سکتا ہے کہ حکومت ابھی بجٹ تیار ہی نہ کر پائی ہو‘ لیکن اس صورت میں بھی عوام کو اعتماد میں لینے کی ضرورت و اہمیت سے تو انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پوری قوم کی نظریں بجٹ پر ہوتی ہیں اور ہر کوئی فکرمندی سے منتظر ہوتا ہے کہ اگلے مالی سال کے لیے حکومت کے پٹارے میں اس کے لیے کیا ہے‘ نئے ٹیکس‘ ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ‘ مہنگائی‘ قربانی کا تقاضا یا کوئی ریلیف؟
یہ تو بجٹ کا معاملہ ہے‘ اس سے پہلے ملک میں عام انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے حوالے سے بھی یہی تماشا مشاہدے میں آتا رہا کہ کبھی ایک بات کی جا رہی ہے تو کبھی دوسری‘ ایک سیاست دان ایک بات کر رہا ہے تو دوسرا دوسری بات‘ ایک پارٹی ایک موقف کی حامل تو دوسری پارٹی اس سے بالکل مختلف اور الٹ موقف کی حامی۔ ایک ادارہ آئینی پیرامیٹرز کی بات کر رہا ہے تو دوسرا سکیورٹی خدشات کی۔ عوام سیاسی بے یقینی کے خاتمے کے حامی ہیں تو کچھ قوتیں ابہام قائم رکھنے کی خواہش مند‘ حتیٰ کہ الیکشن کی تاریخ کے اعلان کے بعد بھی اس طرح کے بیانات سامنے آتے رہے کہ جیسے یہ مقررہ تاریخ کو نہیں ہو سکیں گے‘ یا یہ مقررہ وقت پر نہیں ہونے چاہئیں۔
انتخابات ہو گئے اور ان کے نتائج سامنے آ گئے تو حکومت سازی تاخیر کا شکار ہوتی رہی۔ لگتا‘ ہر پارٹی آگے آنے اور حکومت بنانے کا بوجھ اٹھانے سے گھبرا رہی ہے۔ حکومت بن گئی تو کابینہ کی تشکیل اور اعلان میں تاخیر ہوتی رہی۔ حالات یہ ہیں قائمہ کمیٹیوں کا معاملہ اب تک لٹکا ہوا ہے۔ ان کمیٹیوں میں کس پارٹی کو کتنا حصہ ملنا ہے‘ یہی طے نہیں ہو پا رہا۔ عدالتوں میں کس کس طرح کے سیاسی مقدمات چل رہے ہیں‘ ان سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے سیاست دان اور ہماری سیاسی جماعتیں اپنے معاملات طے کرنے اور اس حوالے سے فیصلے کرنے کے کتنے قابل ہیں۔ اگر وہ فیصلے کرنے کے قابل ہوتے تو اپنے سیاسی مسائل کبھی اٹھا کر عدالت میں نہ لے جاتے‘ ان مسائل کو سیاسی پلیٹ فارمز پر طے کرتے۔
اگر آپ کی تشفی نہیں ہوئی تو اور بھی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ گزشتہ برس جب وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے اپنی میعاد پوری کی تو نگران سیٹ اپ تشکیل دینے میں مسلسل تاخیر کی جاتی رہی۔ یہ فیصلہ ہی نہیں ہو پا رہا تھا کہ نگران وزیر اعظم کسے لگایا جائے۔ صاف نظر آ رہا تھا کہ نگران سیٹ اپ تو قائم کیا جا رہا ہے لیکن کسی کو کسی پر کوئی اعتماد‘ کوئی اعتبار نہیں ہے۔ نگران سیٹ اپ تو کسی طرح آ گیا لیکن وہ جس مقصد کے لیے تشکیل دیا گیا تھا‘ یعنی آئینی پیرامیٹرز کے تحت ملک میں عام انتخابات کرانا‘ وہی وقت کے مطابق نہیں کرائے جا سکے‘ شفافیت اور غیر جانب داریت کو تو ایک طرف ہی رکھ دیں کہ چہار جانب دھاندلی دھاندلی کا شور اب تک مچا ہوا ہے ۔ اپوزیشن جماعتیں مینڈیٹ چرانے کی باتیں کر رہی ہیں اور اس مبینہ چوری کے خلاف مسلسل احتجاج کناں ہیں۔
اس ساری بحث کا مقصد یہ نتیجہ اخذ کرنا ہے کہ چوٹ وہی جو اس وقت پڑے جب لوہا گرم ہو‘ بعد میں پڑنے والی چوٹ کا کوئی فائدہ نہیں۔ چھوٹے چھوٹے معاملات کو بھی اگر مسلسل مؤخر کیا جاتا رہے تو نتائج ظاہر ہے مثبت نہیں نکلتے‘ حالات اور معاملات خرابی کی طرف چلے جاتے ہیں۔ ’ایک دفعہ کا ذکر ہے‘ کے حوالے سے وہ قصہ تو آپ نے سنا ہی ہو گا جس میں ایک شخص کو دور کے سفر پر روانہ ہونا ہوتا ہے اور وہ دیکھتا ہے کہ گھوڑے کے ایک پاﺅں کی نعل ہل رہی ہے اور تبدیل ہونے والی ہے۔ پہلے اس نے سوچا کہ اسے تبدیل کرا لیتا ہوں‘ لیکن پھر سوچا کہ واپس آ کر کرا لوں گا۔ وہ اسی طرح سفر پر روانہ ہو گیا۔ ابھی وہ راستے میں ہی تھا کہ نعل اکھڑ گئی‘ لیکن اس نے سفر جاری رکھا۔ پھر مسلسل دوڑنے کی وجہ سے گھوڑے کے پاﺅں سے خون نکلنا شروع ہو گیا اور وہ چلنے کے قابل بھی نہ رہا‘ چہ جائیکہ سوار کو خود پر بٹھا کر چلتا۔ بحیثیتِ قوم ہمارا رویہ بھی اس شخص سے مختلف نہیں ہے۔ گھوڑا زخمی پڑا ہے‘ ہم اس کے پاس بیٹھے ہیں اور سمجھ نہیں آ رہا کہ کیا کریں‘ اور اس ادھیڑ بن کی وجہ سے ہر کام میں مسلسل تاخیر ہوتی جا رہی ہے۔
-
کھیل1 سال ago
ورلڈ کپ میں ٹیم کی بدترین کارکردگی، سری لنکا نے اپنا کرکٹ بورڈ برطرف کردیا
-
کھیل1 سال ago
کم عمر لڑکی کی سیکس ویڈیو بنانے اور شیئر کرنے پر ریئل میڈرڈ کے 3 کھلاڑی گرفتار
-
تازہ ترین8 مہینے ago
چیئرمین پی سی بی دو طرفہ سیریز پر بات کرنے آئرلینڈ پہنچ گئے
-
پاکستان7 مہینے ago
مریم نواز سے گورنر پنجاب کی ملاقات،صوبے کی ترقی کے لیے اہم امور پر تبادلہ خیال
-
ٹاپ سٹوریز1 سال ago
آئی ایم ایف بورڈ سے معاہدہ منظور،1.2 ارب ڈالر کا فوری اجرا ممکن، باقی رقم دو سہ ماہی جائزوں سے مشروط
-
کالم2 سال ago
اسلام میں عبادت کا تصور
-
ٹاپ سٹوریز7 مہینے ago
اسحاق ڈار سے امریکی سفیر کی ملاقات، سکیورٹی اور اقتصادی تعاون سمیت دو طرفہ امور پر تبادلہ خیال
-
تازہ ترین9 مہینے ago
پی سی بی نے انٹرنیشنل ٹیموں کے قیام کے لیے عمارت خرید لی