Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

ٹاپ سٹوریز

عمران خان کی گرفتاری پر مظاہرے، جلاؤ گھیراؤ کی وجہ سے شدت زیادہ، مظاہرین کی تعداد سیکڑوں میں رہی

Published

on

تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو سپریم کورٹ سے ریلیف ملنے کے بعد بھی سیاسی کشیدگی مکمل ختم نہیں ہوئی اگرچہ بڑے شہروں میں پرتشدد احتجاج رک گیا ہے، پرتشدد احتجاج میں ملوث کارکنوں اور رہنماؤں کی گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے اور کئی رہنما پہلے ہی گرفتار ہیں۔

رات گئے اسلام آباد پولیس نے ڈاکٹر شیریں مزاری کو گرفتار کیا، ان کی بیٹی ایمان حاضر مزاری نے بتایا کہ پولیس نے گرفتاری سے قبل انھیں وارنٹ دکھایا ہے اور بتایا ہے کہ ان کی والدہ کو آبپارہ تھانہ لے جایا جا رہا ہے۔

کون کہاں سے گرفتار ہوا؟

تحریک انصاف کی جانب  سے مہیا کی گئی گرفتاررہنماؤں کی فہرست کے مطابق ان کے چوبیس رہنما گرفتار ہیں۔

پی ٹی  آئی کی فہرست کے مطابق اسلام آبااد سے گرفتار پارٹی رہنماؤں میں اسد عمر، اسلام آباد ہائیکورٹ سے گرفتار ہوئے، فواد چوہدری کو سپریم کورٹ سے گرفتار کیا، شاہ محمود قریشی، جمشید چیمہ، مسرت جمشید چیمہ، ملیکہ بخاری، ڈاکٹر یاسمین راشد، علی محمد خان، سینیٹر اعجاز چوہدری، قاسم سوری کو اسلام آبااد سے گرفتار کیا گیا۔ قاسم سوری کی اہلیہ بھی اسلام آبااد میں گرفتار ہیں۔قاسم سوری کے بھائی بلال سوری کوئٹہ سے گرفتار کئے گئے۔

علی زیدی کراچی سے گرفتار ہوئے،عالیہ حمزہ ملک لاہور میں زیر حراست ہیں، ،فیصل آباد میں علی افضل ساہی اور ان کے بھائی جنید ساہی زیر حراست ہیں،فیصل آباد سے ٹکٹ ہولڈر بلال اشرف بسرا بھی گرفتار ہیں،خواتین ونگ سنٹرل پنجاب کی سابق سیکرٹری اطلاعات عائشہ بھٹہ کو ان کے گھر سے گرفتار کیا گیا۔فیصل آباد سے خیال احمد کاسترو بھی گرفتار ہوئے،اسلام آباد سے سینیٹر فلک ناز چترالی زیر حراست ہیں۔

لاہور میں گرفتاریوں کے 6 ٹیمیں تشکیل،202 گرفتاریاں

تحریک انصاف کی فہرست میں یہ بھی بتایا گیا کہ کئی رہنماؤں کے گھروں پر چھاپے مارے گئے لیکن وہ موجود نہ ہونے کی وجہ سے گرفتاری سے بچ گئے۔پی ٹی آئی کے رہنماؤں اعجاز چوہدری ،میاں اسلم اقبال ،حماد اظہر ،میاں محمود الرشید سمیت دیگر قائدین کی گرفتاریوں کیلئے لاہور پولیس نے رات گئے جب ان رہنماؤں کے گھروں میں چھاپے مارے تو قائدین اپنے گھروں میں موجود نہ تھے۔لاہور پولیس نے گرفتاری کیلئے 6 مختلف ٹیمیں تشکیل دی ہیں،پولیس کے مطابق احتجاج کے دوران توڑ پھوڑ میں ملوث 202شرپسند گرفتار کر لیے گئے۔ لاہور میں پارٹی قیادت روپوش ہے اور کارکن اشتعال میں نجی و سرکاری املاک کو نقصان پہنچاتے رہے۔

خیبرپختونخوا میں 659 گرفتاریاں،13 سرکاری عمارتیں جلائی گئیں

پشاور میں نو سال حکمرانی کرنے والی تحریک انصاف کے لیڈر روپوش ہیں اور بچوں اور نوجوانوں کو احتجاج کی آڑ میں توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کے لیے متحرک کیا گیا۔

بلوائیوں نےفائرنگ اور لوٹ ماربھی کی جبکہ تحریک انصاف کاکوئی بھی لیڈر مظاہرین کو کنٹرول کرنے کے لئے موجود نہ تھا۔ تحریک انصاف کی لیڈر شپ پرتشدد واقعات سے لاتعلقی کا اظہار کررہی ہے۔

خیبر پختونخوا میں 139 مقامات پر سڑکوں کو بلاک کیا گیا، پولیس کی جانب سے مختلف کارروائیوں کے دوران 659 افراد کو حراست و تحویل میں لیا گیا۔ پرتشددمظاہروں کے دوران صوبے کی 13 سرکاری عمارتوں سمیت مجموعی طور پر پندرہ املاک کو نذر آتش کیا گاجبکہ مختلف علاقوں میں مظاہرین نے 12 سرکاری گاڑیوں سمیت 17 گاڑیوں کو آگ لگا دی۔ احتجاجی مظاہروں میں 58 پولیس اہلکاروں سمیت 300 سے زائد افراد زخمی ہوئے، پولیس کے ساتھ جھڑپوں کے دوران سات مظاہرین جاں بحق ہوئے، ریڈیو پاکستان پشاو ر کی عمارت کو نذزآتش کیا گیا جس میں کئی سالوں پر محیط فن و ثقافت کا ریکارڈ بھی جل گیا ۔عمارت میں موجود اے پی پی کے دفتر ٗگاڑیوں ٗاور موٹر سائیکلوں کو بھی جلا کر خاکستر کردیا گیا۔پشاور میں صوبائی اسمبلی کی عمارت اور قلعہ بالا حصار سمیت کئی اہم فوجی اورسرکاری عمارتوں اور تنصیبات پر حملے کئے گئے ہیں الیکشن کمیشن کے دفاتر کو بھی آگ لگادی گئی۔

راولپنڈی، اسلام آباد کے شہری لاتعلق، توڑ پھوڑ باہر سے آنے والوں نے کی

راولپنڈی اسلام آباد میں تحریک انصاف نے پچھلے الیکشن میں ساڑھے چار لاکھ کے قریب ووٹ لئے تھے لیکن مقامی آبادی واضح طور پر احتجاج سے لاتعلق رہی اور خیبر پختونخوا سے لائے گئے لوگ احتجاج اور توڑ پھوڑ میں ملوث رہے۔

ڈیڑھ کروڑ آبادی کے شہر لاہور میں بھی شرپسند عناصر کا ایک گروہ املاک کو جلانے اور عمارتوں پر حملے میں ملوث تھا جبکہ عام شہری نے اس احتجاج سے لا تعلقی اختیار کی۔

لاہور میں موٹرسائیکل سوار جتھے توڑ پھوڑ ، جلاؤ گھیراؤ میں ملوث

عمران خان گرفتار ہوئے تو پہلے دن لاہور کے 6 مقامات زمان پارک، لبرٹی چوک، مال روڈ، شاہدرہ، چونگی امرسدھو، بابو صابو وغیرہ پر احتجاج ہوا، جن میں 4 سو سے 6 سو افراد نے مختلف مقامات پر احتجاج کیا اور پھر یہی مظاہرین جن میں نوجوانوں کی بڑی تعداد تھی وہ موٹر سائیکلوں پر دوسرے مقام پر بھی جا کر احتجاج کرتے اسی طرح پولیس اور مظاہرین کا آنکھ مچھولی کا سلسلہ جاری رہا، تاہم مظاہرین کی جانب سے کور کمانڈر ہاؤس کو نذر آتش کرنے کے بعد جب پولیس نے گرفتاریاں شروع کی تو کارکنوں کی بڑی تعداد غائب ہو گئی۔ لاہور پولیس کا کہنا ہے کہ ان دنوں میں اس نے صرف 202 کارکنوں اور رہنماؤں کو گرفتار کیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جب پی ٹی آئی قیادت کو معلوم ہوا کہ خان کی گرفتاری کے بعد بڑی تعداد میں مظاہرین باہر نہیں آ رہے تھے اس نے منصوبہ بندی کے ذریعے اپنے کارکنوں کو کہا کہ وہ جگہ جگہ جلاؤ اور گھیراؤ کریں تاکہ لوگوں کو ان کی موجودگی کا زیادہ سے زیادہ احساس ہو، اور معلوم ہو کہ بڑی تعداد میں کارکن باہر آئے ہیں، لہٰذا زمان پارک، لبرٹی، مال روڈ، اپر مال پر زیادہ جلاؤ گھیراؤ کیا گیا ۔

ملتان میں کوئی بڑا احتجاجی مظاہرہ نہ ہوا

عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملتان میں بھی احتجاجی مظاہرے ہوئے ،پہلے دن10 مقامات پر اور دوسرے دن 2مقامات پر مظاہرے ہوئے ،جنہیں پولیس نے منتشر کردیا ،اس کے بعد شہر میں کسی جگہ مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آیا،گرفتاری کے بعد پہلے روز سوائے چونگی نمبر 9 پرہونے والا مظاہرہ اور کینٹ میں ایک بڑے جتھے کے ساتھ قاسم روڈ پر نکالی جانے والی ریلی کے علاوہ کوئی بڑا مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آیا،جبکہ شہر سے دور بہاول پور بائی پاس چوک پر تحریک انصاف کے رہنماؤں و کارکنوں نے اپنا احتجاج ریکار ڈ کرایا ،اسی طرح نواں شہر ،ممتازآباد ،انصاری چوک ،چوک کمہارنوالہ ،عزیز ہوٹل چوک،پاک گیٹ اور مظفرآباد میں مظاہرے ہوئے ،جن کی قیادت اراکین اسمبلی اور دیگر رہنما کررہے تھے ،مگر ان میں کارکنوں کی تعداد زیادہ نہیں تھی ،جنہوں نے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا،البتہ کینٹ کے علاقہ میں کئی گھنٹوں تک صورتحال کشیدہ رہی ،چند سو مظاہرین نے کور کمانڈر ہاؤس کی طرف پیش قدمی کی ،تو پولیس نے لاٹھی چارج اور آنسو گیس کے شیل مار کر روک دیا ،جبکہ قاسم بیلہ اور کینٹ کی طرف آنے والی ٹریفک کو بند کردیا گیا ،تاہم اگلے دن یہ صورتحال نہیں تھی ،البتہ سکیورٹی نقطہ نظر سے سٹرکو ں کو بند رکھا گیا ، دوسرے دن بھی کوئی بڑا مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آیا ۔

اندرون سندھ مکمل لاتعلق، کراچی میں بہت کم مظاہرین

عمران خان کی گرفتاری پر پی ٹی آئی سندھ عوام کو سڑکوں پر لانے میں ناکام رہی۔کراچی میں احتجاج کے دوران کارکنوں کی تعداد انتہائی کم رہی جس کی وجہ سے پارٹی رہنما صوبائی قیادت سے نالاں ہے۔ اندرون سندھ حیدرآباد، سکھر،خیرپور،جیکب آباد، شکارپور، تھرپارکر،بدین، جامشورو، نواب شاہ ، قمبرشدادکوٹ، گھوٹکی میں کسی قسم کا احتجاج نہیں ہوا تاہم ان مقامات پر بعض سیاسی جماعتوں اورعوام کی جانب سے عمران خان کی گرفتاری پر مٹھائیاں تقسیم کی گئیں۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین