Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

تازہ ترین

ووٹوں کی دوبارہ گنتی کے لیے الیکشن کمیشن کے اختیارات لامحدود نہیں، لاہور ہائیکورٹ

Published

on

We did not say that Tehreek-e-Insaaf is not a registered political party: Member Election Commission

لاہور ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کے ری کائونٹنگ سے متعلق اختیار کی تشریح کر دی۔لاہور ہائیکورٹ کاکہنا ہے الیکشن ایکٹ 2017 کے تحت ووٹوں کی دوبارہ گنتی کے معاملے پر الیکشن کمیشن کے اًختیارات لامحدود نہیں ہیں۔ الیکشن کمیشن اس معاملے میں محدود اختیار سے تجاوز نہیں کر سکتا۔عدالت نے یہ ریمارکس پی پی 133 ننکانہ سے ن لیگی امیدوار رانا ارشد کی کامیابی کے خلاف درخواست پر دیے.

لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شاہد کریم نے تحریک انصاف کے محمد عاطف کی درخواست پر تحریری فیصلہ جاری کر دیا.عدالت نے الیکشن کمیشن کی جانب سے رانا ارشد کی کامیابی کا نوٹفکیشن بھی کالعدم قرار دے دیا۔

عدالت نے قرار دیا کہ الیکشن ایکٹ 2017 کے تحت ووٹوں کی دوبارہ گنتی کے معاملے پر الیکشن کمیشن کے اًختیارات لامحدود نہیں ہیں،الیکشن کمیشن اس معاملے میں محدود اختیار سے تجاوز نہیں کر سکتا۔الیکشن کے دوران ہونے والی مبینہ ناانصافی کو دور کرنے کے لیے الیکشن کمیشن کے پاس کوئی موروثی اختیارات بھی نہیں ہیں۔

عدالت نے قرار دیا کہ الیکشن ایکٹ میں کمیشن کو بیلٹ پیپرز کی دوبارہ گنتی کا اختیار دینے کے لیے مخصوص شق موجود ہے۔ قانونی طور پر دوبارہ گنتی حتمی نتائج کی کارروائی کے اختتام سے پہلے ہونی چاہیے۔اگر یہ اختیار دفعہ 95 کی ذیلی دفعہ (6) کے مطابق استعمال نہیں کیا جاتا تو کمیشن بعد ازاں اسے استعمال نہیں کر سکتا۔

عدالت نے فیصلے میں لکھا کہ الیکشن کمیشن کا یہ کہنا کہ "انتخابات کے دوران ہونے والی کسی بھی ناانصافی کو دور کرنے کے لیے وہ اپنی موروثی طاقت کا استعمال کر سکتا ہے” غلط ہے،یہ نظریہ قانون کی خلاف ورزی ہے, جسے برقرار نہیں رکھا جا سکتا۔اس معاملے میں یہ واضح ہے کہ کمیشن نے مقننہ کی منشاء کے منافی سیکشن 95(6) کے تحت اپنے اختیارات کا استعمال کیا۔

فیصلے میں کہا گیا کہ صوبائی حلقے میں پولنگ کے پانچ دن کے اندر ریٹرننگ افسر کے ذریعے حتمی نتائج مرتب کرنے کی کارروائی کو مکمل کرنا ضروری ہے۔یہ کٹ آف ڈیٹ ہے جس میں ضابطے کے مطابق حتمی نتائج کی کارروائی مکمل کی جائے گی۔قانون کے مطابق پولنگ کی تاریخ سے چودہ دنوں کے اندر سب سے زیادہ ووٹ لینے والے امیدوار کا نام سرکاری گزٹ میں شائع کرنا ضروری ہے۔

عدالت نے قرار دیا کہ اس معاملے میں الیکشن کمیشن کی خواہشات پر انحصار نہیں کیا جا سکتا بلکہ حتمی متفقہ نتیجہ سب سے اہم دستاویز ہے.اس دستاویز کی موجودگی میں الیکشن کمیشن کے پاس کوئی صوابدید باقی نہیں رہتی۔سیکشن 95 کے ذیلی سیکشن (7) کے تحت الیکشن کمیشن ریٹرننگ افسران کو ہدایت جاری کر سکتا ہے۔

عدالت نے قرار دیا کہ درحقیقت الیکشن کمیشن کو ری کاؤنٹ کا اختیار استعمال کرنے کے لیے کچھ وقت دیا جانا چاہئے۔جس پر مقننہ کو غور کرنا چاہئے۔ایسا صرف قانون میں ترمیم کے ذریعے کیا جا سکتا ہے جس کے لئے عدالت کو ہدایت جاری کرنے کا اختیار نہیں ہے۔

عدالت نے فیصلے میں کہا کہ الیکشن کمیشن نے دوبارہ گنتی کی درخواست پر صرف یہ فیصلہ کرنا تھا کہ آر او ری کاؤنٹ کرے یا نہیں؟ الیکشن کمیشن نے تاخیر کی اور پورے انتخابی عمل کی انکوائری کروائی جو کہ اس کا مینڈیٹ نہ تھا.الیکشن کمیشن کے وکیل کا موقف تھا کہ ریٹرننگ آفیسر نے حتمی نتائج مرتب کرنے میں جلدی کی.اگر ریٹرننگ آفیسر نے کوئی بے ضابطگی کی تو یہ معاملہ انتظامی سطح پر دیکھا جا سکتا تھا لیکن اس بنیاد پر الیکشن کمیشن کو ری کاؤنٹنگ کا لائسنس نہیں دیا جا سکتا۔

درخواست میں الیکشن کمیشن سمیت دیگر کو فریق بنایا گیا تھا اور موقف اختیار کیا گیا تھا کہ ابتدائی نتائج کے مطابق درخواست گزار نے 35 سو سے زائد ووٹوں سے کامیابی حاصل کی،الیکشن کمیشن نے قانون کے برعکس دوبارہ گنتی کا حکم دیا۔

درخواست میں کہا گیا تھا کہ دوبارہ گنتی میں رانا ارشد کو 25 سو سے زائد ووٹوں سے کامیاب قرار دیا گیا،درخواست گزار کی کامیابی کا نوٹیفکیشن بھی جاری ہوچکا تھا،الیکشن کمیشن نے رانا ارشد کی کامیابی کا نوٹیفکیشن خلاف قانون جاری کیا۔

درخواست گزار نے استدعا کی تھی کہ عدالت رانا ارشد کی کامیابی کا نوٹیفکیشن کالعدم قرار دے،عدالت درخواست گزار کی بطور ایم پی اے کامیابی کا نوٹیفکیشن جاری کرنے کا حکم دے۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین