پاکستان
الیکشن وقت پر نہیں ہوں گے؟
قومی سیاسی افق پر غیر یقینی بڑھتی جارہی ہے۔ نہیں معلوم کہ کل کیا ہوگا۔ یہ غیر یقینی کسی عام شہری یا میری طرح جزوی اور سطحی معلومات رکھنے والے صحافیوں تک ہی محدود نہیں، بلکہ اقتدار کی غلام گردشوں میں رہنے والے سیاستدانوں سمیت ان حضرات تک پھیلی ہوئی ہے جنہیں ہم درحقیقت ’ مقتدر‘ سمجھتے ہیں۔ سڑکوں پر طاقت کے مظاہرے کرنے والوں اور کورٹ کچہری میں پیشیاں بھگتنے والوں کو بھی نہیں پتہ کہ ان کا مستقبل کیا ہوگا ؟ تاہم اس وقت تمام فریقوں کی توجہ اگست کے دوسرے ہفتے میں بننے والی نگران وفاقی حکومت پر ہے۔
پاکستان کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے ہی کھوج لگانے کے لئے ان دنوں پنجاب کے شہر اقتدار میں کئی حلقے سرگرداں ہیں۔ شام چھ بجے کے بعد فائیو سٹار ہوٹلز اور کلبوں میں کئی ایسی نشستیں ہورہی ہیں جن میں اس موضوع پر گفتگو کی جارہی ہے۔ ایسی ہی ایک نشست کا حصہ بننے کا موقع ملا تو اس میں میرا نقطہ نظر یہ تھا کہ عمران خان کی حکومت کو گھر بھیجنے کی جو مختلف وجوہات تھیں اس میں ایک بڑی وجہ معاشی بدحالی تھی۔ خود عمران کابینہ کے ایک رکن نے میرے ساتھ گفتگو میں اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ ہماری حکومت سے معیشت نہیں سنبھل رہی، اسٹبلشمنٹ اس پر شدید پریشان ہے۔ اور اسی وجہ سے اپوزیشن اکٹھی ہوکر تحریک عدم اعتماد کی طرف بڑھ رہی ہے۔ گویا اقتصادی بحران پی ٹی آئی حکومت سے ہی شروع ہوگیا جو اس کے بعد متبادل کے طور پر آنے والی پی ڈی ایم حکومت میں عروج پر پہنچ گیا ہے اور بات ڈیفالٹ تک پہنچتی نظر آرہی ہے۔ اب معاملہ یہ ہے کہ عمران خان جس معاشی بحران کا شکار ہوئے اس نے پی ڈی ایم، بالخصوص مسلم لیگ نون کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ نتیجہ ۔۔۔ ساری سیاسی قوتیں معیشت چلانے میں ناکام ؟؟؟
سیاسی تجزئیے کے اگر اس زاوئیے کو دیکھیں تو سیاسی قوتوں کے لئے صورتحال بڑی گھمبیر نظر آرہی ہے۔ جب تحریک انصاف ناکام، مسلم لیگ ناکام، پیپلزپارٹی ناکام، جے یو آئی ناکام تو پھر پیچھے کیا رہ گیا۔ غالبا اسی خلا کو پر کرنے کے لئے استحکام پاکستان پارٹی کا وجود عمل میں آیا ہے۔ اگرچہ اس جماعت کے قیام، ساخت اور مستقبل کے حوالے سے ابھی سوال ہی سوال ہیں لیکن اگر اس کی قیادت سے ملیں تو ان کے چہروں پر وہ مکمل اطمینان نظر آتا ہے جو دیگر سیاسی جماعتوں کے ہاں مفقود ہورہا ہے۔ اس کی ایک بنیادی وجہ تو یہ ہے کہ اس پارٹی کا ابھی کھاتہ کھلنا باقی ہے۔ اس کا کچھ سٹیک پر نہیں۔ اس نے ابھی کچھ کیا ہی نہیں جس کے لئے اس نے کسی کو جوابدہ ہونا ہے۔ تاہم اگر اس کے صدر عبدالعلیم خان اور جہانگیر ترین کو ملیں تو وہ اپنے سیاسی مستقبل کے حوالے سے نہ صرف مطمئن ہیں بلکہ وہ مستقبل میں خود کو ایک فیصلہ کن سیاسی قوت کے طور پر دیکھتے ہیں جس کے بغیر مرکز اور صوبوں میں حکومت سازی ممکن نہ ہوگی۔
تحریک انصاف کے ایک رہنما جو ابھی تک ایک آئینی عہدے پر موجود ہیں۔ ان سے ایک روز قبل ملاقات ہوئی تو وہ جہاں اپنی پارٹی قیادت سے اپنی جڑت کا اظہار کررہے تھے وہیں دبے لفظوں میں ان پالیسیوں سے بھی شاکی تھے جنہوں نے پی ٹی آئی کو ان حالات سے دوچار کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ اس بات پر بڑے واضح تھے کہ انتخابات تو ابھی کم از کم ایک سال نظر نہیں آتے۔ اس سے زیادہ بات وہ کرنے کے لئے تیار نہ تھے۔ مسلم لیگ نون اور پیپلزپارٹی کے بھی اہم ترین رہنما انتخابات کے ملتوی ہونے کے امکانات پر کھل کر اظہار خیال کرچکے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے مخدوم احمد محمود نے تو پریس کانفرنس میں یہ بات کہہ دی کہ طویل دورانیے کی نگران حکومت بن سکتی ہے۔ یعنی سیاسی جماعتیں اپنے سیاسی مستقبل کے بارے میں تو یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتیں تاہم ان پر یہ بات بڑی واضح ہے کہ انتخابات اکتوبر نومبر میں ہوتے نظر نہیں آتے۔ غالبا استحکام پاکستان پارٹی کے اطمینان کی وجہ بھی یہی ہے کہ انہیں کوئی جلدی نہیں۔ علیم خان روزانہ اپنا ڈرائنگ روم سجاتے ہیں جہاں ہر روز تحریک انصاف چھوڑکر انہیں جوائن کرنے والی ایک سے ایک نئی شخصیت جلوہ افروز ہورہی ہے اور کہا جاتا ہے کہ نگران حکومت کی تشکیل کے بعد یہ سلسلہ اور بھی تیزی پکڑے گا۔
پاکستان کی سیاست اس وقت بنیادی طور پر دو فیکٹرز کے گرد گھوم رہی ہے۔ ایک ملک کی معیشت اور دوسرا تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی سیاست۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ ملکی معیشت اور عمران خان کی سیاست کا مستقبل باہمی طور پر ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں تو غلط نہیں ہوگا۔ طے یہ ہونا ہے کہ عمران خان کی سیاست کے خاتمے سے ملکی معیشت ٹھیک ہوگی یا پھر ملکی معیشت ٹھیک کرلینے سے عمران فیکٹر سے جان چھوٹ جائے گی۔ نگران حکومت کی تشکیل بھی اسی سوال سے جڑی ہوئی ہے۔ کہ مجوزہ طویل دورانیے کی نگران حکومت کا مقصد معیشت کی بحالی ہوگا یا عمران فیکٹر کا خاتمہ۔ تو اس کے لئے نگران وزارت عظمی کے لئے جو امیدوار زبان زدعام ہیں ان کے نام ہی ساری کہانی بیان کردیتے ہیں۔ ان میں عمران خان کے شدید ترین مخالف محسن بیگ، بزنس مین گوہر اعجاز اور معیشت دان عبدالحفیظ شیخ قابل ذکر ہیں۔ ممکن ہے کہ نگران وزیراعظم ان سے بھی ہٹ کر کوئی اور شخصیت ہو لیکن جو نام سامنے آرہے ہیں ان کے دو فلیور مستقبل کی ترجیحات کو تو واضح کرتے ہیں۔ ایسے میں کئی دل جلے اس حبس سے اکتا کر سیاست سے ہی توبہ کرتے نظر آتے ہیں۔ یعنی بقول شاعر
وہ حبس ہے کہ لو کی دعا مانگتے ہیں لوگ
-
کھیل1 سال ago
ورلڈ کپ میں ٹیم کی بدترین کارکردگی، سری لنکا نے اپنا کرکٹ بورڈ برطرف کردیا
-
کھیل1 سال ago
کم عمر لڑکی کی سیکس ویڈیو بنانے اور شیئر کرنے پر ریئل میڈرڈ کے 3 کھلاڑی گرفتار
-
تازہ ترین9 مہینے ago
چیئرمین پی سی بی دو طرفہ سیریز پر بات کرنے آئرلینڈ پہنچ گئے
-
دنیا2 سال ago
آسٹریلیا:95 سالہ خاتون پر ٹیزر گن کا استعمال، کھوپڑی کی ہڈی ٹوٹ گئی، عوام میں اشتعال
-
پاکستان9 مہینے ago
مریم نواز سے گورنر پنجاب کی ملاقات،صوبے کی ترقی کے لیے اہم امور پر تبادلہ خیال
-
ٹاپ سٹوریز2 سال ago
آئی ایم ایف بورڈ سے معاہدہ منظور،1.2 ارب ڈالر کا فوری اجرا ممکن، باقی رقم دو سہ ماہی جائزوں سے مشروط
-
تازہ ترین10 مہینے ago
پی سی بی نے انٹرنیشنل ٹیموں کے قیام کے لیے عمارت خرید لی
-
کالم2 سال ago
اسلام میں عبادت کا تصور