Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

کالم

‘الذوالفقار سے الانصاف تک’

Published

on

بوئنگ 720 ، بی 030 اور پی کے 805 ، یہ وہ نام ہیں جن کے گرد پاکستان کی پوری سیاست گھومتی رہی ہے۔ بوئنگ 720 پرجو گزری،اس کے اثرات ہماری سیاست پر1988ء تک چھائے رہے۔ اگر ضیاء الحق مرحوم زندہ ہوتے تو آج بھی بوئنگ 720، کسی 420 کی طرح ہماری سیاست کا محورومرکز ہوتا۔ جبکہ 1999ء کا طیارہ ہائی جیکنگ کیس 2007ء تک سیاسی افق پر چھایا رہا۔

مارشل لا کے جبر نے 1981ء میں بے نظیر بھٹو مرحومہ کی پیپلز پارٹی کو ایم آر ڈی کی چھتری تلے بٹھا دیا،وہ،ہائی جیکنگ سے صرف دو ماہ پہلے تحریک بحالی جمہوریت ( ایم آرڈی) میں شیرپاؤ اوربھٹو مخالفوں کے ساتھ بیٹھ گئیں۔ برے وقت میں ایک دوسرے کی "پیٹھ کھجانے” کو ہی جمہوریت اور برداشت کہتے ہیں۔

آئیے، پہلے "بوئنگ 720” کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ 2 مارچ 1981ء کو 19برس قدیم بوئنگ طیارہ 132 مسافروں اورعملے کے 9 ارکان کے ساتھ کراچی کے بین الاقوامی ہوائی اڈے سے پرواز کرتا ہے۔ منزل مقصود پشاور تھی۔ پارٹی پر بدقسمتی لانے والی یہ فلائٹ پی کے 326 کہلاتی ہے۔ طیارہ معمول کی ٹیکسی کرنے کے بعد ہوا سے باتیں کرنے لگتا ہے۔ ابھی چند منٹ ہی گزرے ہوں گے، مختلف سیٹوں پر براجمان تین مسافر یک دم کھڑے ہو جاتے ہیں۔ سلام اللہ ٹیپو کی قیادت میں۔

خبردار! طیارہ ہائی جیک ہو چکا ہے۔ ٹیپو اور اس کے دو ساتھی پستول اور دیگر ہتھیار نکال لیتے ہیں۔

ایئر ہوسٹس! کاک پٹ میں چلو! ٹیپو گرجتا ہے ایئر ہوسٹس ٹس سے مس نہیں ہوتی۔ وہ فیصلہ کر چکی تھی، سلام اللہ ٹیپو کے سامنے ٹیپو سلطانہ بننے کی۔

سوری، ہائی جیکرز کی میزبانی کرنا میری ڈیوٹی نہیں، ایئر ہوسٹس نائلہ نذیر ڈٹ گئیں۔ موت سر پہ تھی۔ مگر نائلہ بے خوف اور پرسکون تھی۔ شیر کی سی زندگی، کئی مضامین اور کتب کی زینت بنی۔ فلائٹ سیفٹی فاؤنڈیشن نے "ہیرو ازم ایوارڈ” سے نوازا۔

یہ تاریخ کی طویل ترین ہائی جیکنگ تھی۔ 12 دن، 10 گھنٹے کی۔ طیارہ پہلے کابل لے جایا گیا۔ ہائی جیکرز8 مارچ 1981ء کو کابل سے لیبیا لے جانے پربضد تھے۔ طرابلس ایئرپورٹ کیلئے ترس رہے تھے۔ ادھ، قذافی ڈٹے رہے، یوں بوئنگ طیارے کو شام میں لیڈنگ کرنا پڑی۔ ہائی جیکرزکے مطالبات بدلتے رہے۔ انتظامیہ نے ہلکا لیا، وہ بھاری پڑے، بہت بھاری،طیارے کے تین مسافرامریکی اورایک پاکستانی ڈپلومیٹ میجر طارق رحیم تھے۔ ہائی جیکرزکو لگا کہ میجرصاحب، گورنر بلوچستان، رحیم الدین کے صاحبزادے ہیں۔ چنانچہ،انہیں شہید کر دیا گیا۔ حکومت نے گھٹنے ٹیک دئیے۔ ہائی جیکرز کے مطالبے پرکئی درجن قیدی مختلف جیلوں سے رہا کر کے شام بھجوا دیئے گئے۔ آپ اسے پہلا این آراو کہہ سکتے ہیں۔

ہائی جیکنگ سے چند ہفتے قبل چلنے والی تحریک بحالی جمہوریت کے "غبارے” سے ہوا نکل گئی۔ پیپلز پارٹی کی جانب سے تردیدی بیانات کا دفتر تحریر جمع تھا، ایک بڑا حلقہ ہائی جیکنگ کو پیپلز پارٹی سے ہی نتھی کرتا رہا۔ ضیاء الحق مرحوم کے کاغذات میں شامل ایک "دہشت گرد” وفاقی وزیر داخلہ بنے، سابق گورنرپنجاب پنجاب اورتین چارایم پی اے بھی اس فہرست کا حصہ تھے۔ پیپلزپارٹی کی تمام قیادت پرشکوک و شبہات کے بادل تا دیر منڈلاتے رہے۔ 17 اگست 1988ء کو ایک اور طیارے کے سانحے نے پیپلزپارٹی پر دہشت گردی کا باب بند کر دیا۔ جنرل ضیاء الحق مرحوم کا سی 130 کریش کرنے سے پیپلزپارٹی کے خلاف دہشت گردی کے الزامات بھی کریش کر گئے۔

اب، تاریخ کا پہیہ الٹا گھوم رہا ہے۔ کل جنرل(ر) ضیاء الحق مرحوم کی  نظروں میں ملزم ٹھہرائے جانے والی جماعت اپنی حریف جماعت کو دہشت گردی کا ملزم، بلکہ مجرم بتا رہی ہے۔ تمام راستے ایک ایک کرکے بند کئے جا رہے ہیں۔

اور مسلم لیگ ن؟ اسےبھی ایک ہائی جیکنگ کے الزام کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ سابق جنرل پرویز مشرف مرحوم کولمبو سے واپس آرہے تھے۔ مزید 198 افراد آرمی چیف کے ہم سفر تھے۔ طیارے  نے کراچی کے ہوائی اڈے پر اترنا تھا۔ مگر وہاں بلیک آؤٹ تھا۔ بیتیاں گل، کنٹرول ٹاور خاموش۔ ہوائی جہاز کو اندرون سندھ کے ایک ہوائی اڈے پراترنے کی اجازت ملی۔ مگر ایندھن اورماحول ناساز گار تھا۔ اپنے آرمی چیف اور دیگر مسافروں کو بچانے کے لئے فوج کو بیرکوں سے نکلنا پڑا۔ میاں نواز شریف اس ہائی جیکنگ کیس میں عدالت سے مجرم قرار پائے۔ دس سالہ جلاوطنی کے معاہدے نے قید و بند کی صعوبتوں سے بچا لیا۔

نواز شریف 11 ستمبر 2000ء کو ایک این آر او کے تحت سعودی عرب میں تھے،پھر آئے چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری، انہوں نے 2007ء میں دس سالہ تاخیر معاف،ختم کر دی۔ کیس کی خصوصی سماعت کے بعد میاں نواز شریف ہائی جیکنگ کے الزام سے بری ہوئے۔ سپریم کورٹ نے سیاست کے دروازے کھولے تو میاں نواز شریف نے 2013 ء میں انتخابی میدان مار لیا۔

ہماری سیاست میں این آر او کے وزن پر آر او نے شہرت پائی۔آصف علی زرداری کی دانست میں 2013 کے الیکشن آر اوز کے الیکشن تھے۔

ملک کی دونوں بڑی جماعتوں نے اپنے عروج میں دہشت گردی کے الزامات کا سامنا کیا۔ مجھے اس وقت کی سیاسی اور دوسری قیادت، موجودہ قائدین کے مقابلے میں نسبتا زیادہ سنجیدہ، معاملہ فہم اور بہتر دکھائی دی۔ اگر 1981 اور 1999 کی قیادت، عصری سیاست جیسی ہوتی تو پیپلزپارٹی اور  مسلم لیگ ن کے اکثر لیڈر جیلوں کے گیدڑ ہوتے۔

پی ٹی آئی ایک سیاسی جماعت ہے۔ کروڑوں ووٹ اس کے کریڈٹ میں ہیں۔ لفظوں کے تانے بانے جوڑنا کوئی مشکل نہیں۔ عقل و دانش سے کام لینا یقینا آسان نہیں۔ چند سو افراد کی سزا ملک گیر پارٹی کو دی گئی  توانجام ہم سب جانتے ہیں۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین