Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

کالم

جی 20 سمٹ، تقسیم کا خوف، لفظوں کا ہیر پھیر، عملاً صفر

Published

on

U.S. President Joe Biden, Indian Prime Minister Narendra Modi and President of the European Union Ursula von der Leyen attend the G20 summit in New Delhi, India, September 9, 2023.

20 بڑی معیشتوں کے گروپ نے نئی دہلی میں ہونے والے سربراہی اجلاس کے مشترکہ اعلامیہ میں یوکرین میں جنگ کے حوالے سے ایک مشکل سمجھوتہ کیا لیکن عالمی مالیاتی مسائل کے ٹھوس حل پیش کرنے میں ناکام رہا۔

سفارت کاروں اور تجزیہ کاروں نے کہا کہ روس-یوکرین تنازعہ پر سربراہی اجلاس کے بیان میں حیرت انگیز اتفاق رائے نے گروپ میں تقسیم کو ٹال دیا، اور افریقی یونین کو نئے رکن کے طور پر شامل کرنا میزبان بھارت اور ترقی پذیر معیشتوں کے لیے فتح کی علامت ہے، لیکن باقی سب کچھ مایوس کن تھا۔

نیویارک میں قائم کونسل آن فارن ریلشنز کے صدر مائیکل فرومین نے کہا کہ

جی 20 ایک کثیر جہتی فورم کے طور پر زیادہ بہتر بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتا تھا اگر یہ مشترکہ اعلامیہ کے الفاظ پر اتفاق رائے پیدا کی بجائے عالمی مالیاتی بحرانوں سے نمٹنے کے لیے اگر کوئی حل پیش کرتا۔

مائیکل فرومین، جو امریکا کے جی 8 اور جی 20 مذاکرات کار بھی رہ چکے ہیں، نے کہا کہ توجہ عمل پر ہونی چاہئے تھی نہ کہ زبان پر۔

سربراہی اجلاس کے اعلامیے میں یوکرین جنگ پر روس کی مذمت کرنے سے گریز کیا گیا لیکن اس تنازع کی وجہ سے ہونے والے انسانی مصائب پر روشنی ڈالی گئی اور تمام ریاستوں پر زور دیا گیا کہ وہ علاقے پر قبضے کے لیے طاقت کا استعمال نہ کریں۔

بہت کم لوگوں کو توقع تھی کہ جی 20 دستاویز پر اتفاق رائے کر پائے گا، کیونکہ گروپ اس سال 20 یا اس سے زیادہ وزارتی اجلاسوں میں کسی مشترکہ اعلامیہ پر متفق ہونے میں ناکام رہا تھا۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سربراہی اجلاس کے اعلامیے پر متفق ہونے میں ناکامی اس بات کا اشارہ دے سکتی تھی کہ جی 20 ایک طرف مغرب اور دوسری طرف چین اور روس کے درمیان، شاید اٹل طور پر تقسیم ہو گیا ہے۔ اور بیجنگ کی جانب سے برکس اور شنگھائی تعاون تنظیم جیسے گروپوں کو وسعت دے کر عالمی نظام میں ردوبدل پر زور دینے کے ساتھ، جی 20غیر متعلق ہو سکتا تھا۔

مشکل سربراہی اجلاس

جی 20 ایشیائی مالیاتی بحران کے اثرات کا مقابلہ کرنے کے لیے 1999 میں وزرائے خزانہ اور مرکزی بینک کے گورنرز کے پلیٹ فارم کے طور پر قائم کیا گیا تھا اور 2008 میں عالمی مالیاتی بحران کے بعد رہنماؤں کو شامل کرنے کے لیے اجلاس کو وسعت دی گئی۔

اقتصادی مسائل پر ردعمل کو مربوط کرنے کا اس کا بنیادی کردار کمزور کر دیا گیا ہے،یہ گروپ عالمی ٹیکسیشن اور کم آمدنی والے ممالک کو حالیہ برسوں میں مشترکہ فریم ورک کے تحت اپنے قرضوں کے بوجھ کو سنبھالنے میں مدد دینے میں ناکام رہا ہے کیونکہ اتفاق رائے حاصل کرنے کی ضرورت کمزور معاہدوں کا باعث بنتی ہے۔

روس کی مذاکرات سویتلانا لوکاش کا کہنا ہے اس سال، یوکرین کی جنگ اور دیگر مسائل پر اختلافات کو حل کرنے کے لیے 25 دن کی طویل بات چیت ہوئی، جس میں سربراہی اجلاس سے پہلے کا ایک ہفتہ بھی شامل ہے۔

لوکاش نے کہا، “یہ فورم کی تقریباً 20 سالہ تاریخ میں سب سے مشکل سربراہی اجلاسوں میں سے ایک تھا۔”

وارسا میں پولش انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل افیئرز کے ایک سینئر تجزیہ کار پیٹرک کوگیل نے کہا کہ جی 20 کے تمام فیصلوں پر اتفاق رائے کی ضرورت ہوتی ہے جس کا مطلب ہے کہ یہ فیصلہ سازی کم سے کم ممکن ہوگی، اسی لیے جی 20 کی جانب سے موسمیاتی ربدیلی سے لے کر قرض تک کسی بھی اہم عالمی چیلنج پر کوئی ٹھوس فیصلہ یا وعدہ سامنے نہیں آسکا۔ یہ فورم کو غیرمؤثر یہاں تک کہ بیکار بنانے جیسا ہے۔

نئی دہلی کے اجتماع میں، رہنماؤں نے 2030 تک عالمی سطح پر قابل تجدید توانائی کی صلاحیت میں تین گنا اضافہ کرنے پر اتفاق کیا اور کوئلے کی بے لگام توانائی کو مرحلہ وار کم کرنے کی ضرورت کو قبول کیا۔تاہم، انہوں نے کوئی ٹائم ٹیبل مقرر نہیں کیا اور کہا کہ کوئلے کے استعمال کو قومی حالات کے مطابق ختم کرنا ہوگا۔

کوئلہ، جسے کئی صنعتی ممالک میں بجلی کے نظام سے مرحلہ وار باہر کیا جا رہا ہے، اب بھی بہت سی ترقی پذیر معیشتوں میں اہم ایندھن ہے اور آنے والی دہائیوں تک ایسا ہی رہ سکتا ہے۔

اجلاس میں غریب ممالک کے قرضوں کی کمزوریوں کو دور کرنے اور کثیرالجہتی ترقیاتی بینکوں کو مضبوط بنانے اور ان کی اصلاح پر بھی اتفاق کیا گیا لیکن کوئی ٹھوس اہداف طے کیے نہیں کئے گئے۔

روس کو بحیرہ اسود اناج معاہدے پر واپس لانے پر بھی کوئی پیش رفت نہیں ہوئی حالانکہ اعلامیہ میں یوکرین اور روس دونوں سے اناج، خوراک اور کھاد کے محفوظ بہاؤ کا مطالبہ کیا گیا۔

تقسیم کا خوف، مایوسی

اگرچہ جی 20 کے زیادہ تر ممبران کے لیے، سربراہی اجلاس کا اعلامیہ ایک بڑا فائدہ دکھائی دیتا ہے کیونکہ اس اعلامیہ میں یوکرین میں جنگ کا حوالہ دینے کے لیے قابل قبول زبان پر اتفاق رائے ممکن ہوسکا۔

غیر حاضر صدر ولادیمیر پوتن کی جگہ سربراہی اجلاس میں روس کی نمائندگی کرنے والے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا کہ ہندوستان کی صدارت نے شاید جی 20 کے پورے وجود کے دوران پہلی بار، گلوبل ساؤتھ سے جی 20 کے شرکاء کو حقیقی معنوں میں مضبوط کیا ہے۔

سفارت کاروں نے کہا ہے کہ ہندوستان، انڈونیشیا، برازیل اور جنوبی افریقہ کے مذاکرات کاروں نے سربراہی اجلاس کی دستاویز میں اتفاق رائے پیدا کیا۔امریکہ، جرمنی اور برطانیہ سبھی نے اس اعلان کو سراہا ہے۔

چین کی طرف سے کوئی باضابطہ ردعمل نہیں آیا لیکن اس کی سرکاری خبر رساں ایجنسی شنہوا نے اعلامیہ کا حوالہ دیئے بغیر ہفتے کے روز ایک تبصرہ میں کہا کہ جی 20 کو اب بھی کام کے قابل بنایا جا سکتا ہے۔

سربراہی اجلاس میں موجود ایک فرانسیسی اہلکار نے کہا کہ “جی 20 دراصل ایک ایسا کلب ہے جو شمال اور جنوب اور مشرق و مغرب کے درمیان اتفاق رائے قائم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے”۔

ٹھوس پیش رفت کے فقدان کے باوجود، ہندوستان کے جی 20 کے چیف کوآرڈینیٹر ہرش وردھن شرنگلا نے کہا کہ میٹنگ نے گروپ کو آگے بڑھایا۔

انہوں نے کہا کہ ترقی پذیر دنیا کے خدشات اتنے زیادہ ہیں کہ اگر آپ ناکام ہو گئے تو انہیں تقسیم کے بہت بڑے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا اور میں کہوں گا کہ مایوسی بھی زیادہ ہو گی۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین