Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

کالم

ٹوٹا ہوا تارا (1)

Published

on

   ہندوستان کے شہر حصار میں 1932 میں پیدا ہونے والے الطاف حسن قریشی ہماری صحافتی ثقافت کے درخشندہ ستارے اور ملکی تاریخ کے ایسے شاہد ہیں جنہوں نے کم و بیش ساٹھ سالوں پہ محیط قومی سفرکے نشیب و فراز کو دیکھنے کے علاوہ سیاست کے اُن تمام مرکزی کرداروں کو قریب سے پرکھا جو شعوری یا لاشعوری طور پہ کبھی نوزائیدہ مملکت کی تعمیر و تخریب کے عوامل کا جُز رہے ۔خاص طور پرسقوط ڈھاکہ سے پہلے اور بعد کے حالات کی تفہیم میں ان کا صحافتی حصہ قابل رشک ہے۔

ابھی حال ہی میں سانحہ بنگال کے موضوع پہ انہوں نے گزشتہ چار دہائی کے دوران لکھے گئے اپنے مضامین، تجزئیے، رپوٹس،اہم شخصیات سے انٹرویوز اور اُس زمانہ کے متحرک کرداروں کے ساتھ مکالمات کو ” مشرقی پاکستان، ٹوٹا ہوا تارا“ کے عنوان سے کتابی شکل میں شائع کرکے جہاں تاریخ کے طلب علموں کو گراں قدر مواد مہیا کیا،چند بڑے سانحات کے ضمن میں وہاں دفاعی اداروں کی صفائی بھی پیش کر دی۔

چودہ سو آٹھ صفحات پہ مشتمل اِس کتاب میں مصنف نے جہاں پوری وضاحت کے ساتھ مورخین و محقیقین کے لئے نہایت کارآمد مواد فراہم کیا وہاں جائزے کا اسلوب دلنشیں ہونے کے باوجود مضامین کی طوالت، قاری کے لئے، مطالب تک پہنچنے کی راہ میں حائل رہی۔لاریب، تقسیم ہند خاص طور پر پاکستان کی تخلیق،ملکی اور عالمی سطح کے محقیقن کے لئے ہمیشہ دلچسپی کا محور رہی، اس موضوع پہ موہن چند گاندھی، جواہرلعل نہرو ،چوہدری رحمت علی اور مولانا ابوالکلام آزاد سے لیکر متعدد مغربی محقیقن طبع آزمائی کر چکے ہیں تاہم کوئی مصنف اس سوال کو زیر بحث نہ لا سکا کہ تقسیم ہند کے وقت مسلمانوں کی مذہبی قیادت سیکولر ہندوستان اور سیکولر لیڈرشپ ایک مذہبی ریاست کے قیام پہ کیوں مصر تھی ؟۔

اسی طرح سقوط بنگال پر بھی انڈین اور بنگالی آفیسرز کے علاوہ ذوالفقار علی بھٹو،جنرل اعظم خان، جنرل راؤ فرمان علی اور بریگیڈیر صدیق سالک کی معروف کتابوں سمیت حمود الرحمن کمیشن ریوٹ اہمیت کی حامل سمجھی گئی تاہم ہماری قومی پالیسی کے تحت عام شہری کو متذکرہ بالا دونوں موضوعات پر متضاد مواد کوجانچنے کی کھلے دل سے اجازت دینے کی بجائے مخصوص نقطہ نظر کے مطالعہ تک محدود رکھا گیا۔

حمود الرحمن کمیشن کی ناقابل اشاعت رپورٹ سے قطع نظر تمام پاکستانی مصنفین نے تقسیم ہند اور سانحہ بنگال کو ” وسیع تر قومی مفاد “ کے تابع رکھنے کی خاطر متنوّع حقائق کی تلبیس میں ملکی سلامتی تلاش کی حالانکہ قومی سلامتی سچائی کی اشاعت کے سوا کہیں اور پائی نہیں جاتی۔ فطری تناظر سے عاری اس ضخیم کتاب کے مواد کا جائزہ لینے سے قبل ابتدائی پچیس سال کے مختصر عرصہ میں رونما ہونے والے ان عظیم واقعات کے پیچھے کار فرما عالمی و علاقائی محرکات کی توضیح اور اس عہد کے سماجیات کے علاوہ سیاستدانوں، دانشوروں اور صحافیوں کے ذہنی پس منظر کوسمجھنا ضروری ہے کیونکہ کتاب میں شامل مواد دراصل اُسی تصور کا اسیر ہے جو اس وقت ہمارے ہوشیار میڈیا نے پیش کیا، جس میں وہ خود بھی ایک اداکار کی حیثیت سے شامل رہا ۔تاہم مرور ایام کے ساتھ برطانوی گورنمنٹ کے خفیہ تاریخی ریکارڈ کی اشاعت نے کئی حوالوں سے ہمارے تاریخی شعور اور ناقص سیاسی تصورات کو دھچکا پہنچاکر کئی مقبول کتابوں کو بیکار بنا دیا،جن میں سابق صدر ایوب خان کی فرینڈ ناٹ ماسٹر،مزیب الرحمن کی فرینڈ ناٹ فو،ڈاکٹر صفدر محمود،الطاف گوہر، قدرت اللہ شہاب،صدیق سالک اور جنرل فیض احمد چستی کی کتابیں شامل ہیں۔میڈیا رپوٹس کے مطابق دو سال قبل برطانیہ میں امریکی سفیر) (Woody Johnson نے انکشاف کیا کہ 1947 میں برطانوی وزیراعظم اٹیلی نے اس وقت کے امریکی سفیر کو یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ اگلی تین دہائیوں میں بنگال کو الگ مملکت کے طور پہ استوار کر لیں گے۔

یہ انکشاف اُسی تصور کی تائید تھا جسے مغربی مصنفین تقسیم ہند پہ لکھی گئی کتابوں میں پیش کرتے آئے۔اگرچہ پہلی بار سرسیداحمد خان نے مسلمانوں میں ہندوؤں سے الگ راہ عمل اختیار کرنے کی سوچ متعارف کرائی لیکن علامہ اقبال کے تصور پاکستان میں بھی ہمیں بنگال کہیں نہیں ملتا۔حتی کہ چوہدری رحمت علی کا کتابچے(Now or never ) جس پہ اسلم خٹک اور بیرسٹر عبدالرحیم کے دستخط ثبت تھے،میں بھی بنگالستان، عثمانستان اور پاکستان پہ مشتمل تین مسلم ریاستوں کی ڈیمانڈ کی گئی۔

تاہم امر واقعہ یہ ہے کہ مسلم رہنماؤں کی یہ فکری تقسیم محض اتفاق نہیں تھی بلکہ یہ تمام ذہنی تغیرات انگریز کی مائیکرو لیول کی ہیومین مینجمنٹ کا اعجاز تھے چنانچہ یہ بات اب کوئی راز نہیں رہی کہ دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر 1945میں جب برطانیہ نے ہندوستان چھوڑنے کا حتمی فیصلہ کیا تو برٹش انڈیا میں انگریزوں کی وفادار ہندو اکثریت کی نمائندہ سیاسی قیادت نے ملکہ الزبتھ کو اپنے تحفظات پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ برطانوی حکومت اپنے کروڑوں وفادار ہندوؤں کو، بھارت پر ہزار سال تک حکومت کرنے والے، مسلمانوں کے رحم و کرم پہ کیوں چھوڑے جا رہی ہے ؟ جس پہ برٹش مقتدرہ نے انہیں یقین دلایا کہ ایک تو ہندوستان چھوڑنے سے قبل ہم کروڑوں ہندوؤں کو یکجا اور مسلمانوں کو تین حصوں میں منقسم کرنے کے علاوہ برٹش انڈین آرمی کا تین چوتھائی حصہ اُس نوزائیدہ مملکت(پاکستان)کے سپرد کریں گے تاکہ انڈیا کے مغربی بارڈر پر ایسی مسلم ریاست کا قیام ممکن ہو جو ایک طرف بھارت کو افغانیوں، روسیوں اور ایرانیوں کی روایتی یلغار سے بچائے اور دوسری طرف اسی نوزائیدہ سکیورٹی سٹیٹ کی فورسزجنوبی ایشیا سمیت دنیا بھر میں برطانوی مفادات کا تحفظ یقینی بنا سکیں۔

اس سے یہی واضح ہوتا ہے کہ نئی مملکت کو مغربی استعمار کے فوجی اڈوں کے عالمی قوانین کے تحت بنانے کے علاوہ تخلیقِ بنگلہ دیش بھی تقسیم ہند کے اُس نامکمل ایجنڈا کا حصہ تھی،جسے بیسویں صدی کی پہلی دھائی میں تقسیم بنگال کے وقت ڈیزائین کر لیا گیا تھا۔

تزویری لحاظ سے بھی ساحل مکران سے گوادرکوسٹ اور گوادر کی بندرگاہ سے لیکرچمن بارڈر تک کی تکون جسے اُس وقت جرمن اور روسی فوجوں کی بحرہند تک رسائی کا واحد راستہ سمجھا جاتا تھا،امریکہ و برطانیہ کے لئے کافی اہمیت کی حامل تھی اور برصغیر چھوڑنے کے باوجود اس تکون پہ اپنا اسٹریٹیجک تسلط برقرار رکھنا برطانیہ و امریکہ کے لئے ناگزیر تھا چنانچہ تقسیم ہند کے فوری بعد یہاں مذہبی تحریکوں اور فوجی آمرتیوں کے تال میل سے ایسا سکیورٹی پیراڈئم تشکیل دیا گیا جس نے ایک طرف بھارت کو افغانستان سے ابھرنے والی شورشوں کے شعلوں سے محفوظ بنایا اور دوسری جانب سوویت یونین کی گرم پانیوں کی طرف پیشقدمی روکنے اور تیسرے چین کا اقتصادی محاصرہ کرکے اُسکی مڈل ایسٹ اور وسطی ایشیا ریاستوں تک رسائی مشکل بنائی گئی۔

آپ تصور کریں اگر آج بھارت کی سرحدیں افغانستان کے ساتھ جڑی ہوتیں تو کیا ستّر کروڑ مسلمانوں کی آماجگاہ بھارتی مملکت،طالبان عسکریت پسندوں سے نمٹ سکتی تھی ؟ ہرگز نہیں ۔ اسی لئے دوراندیش انگریزوں نے اس خطہ کی ایسی اسٹریٹیجک تقسیم ممکن بنائی جس میں ہندو متحد و محفوظ اور مسلمان کو منقسم اور باہم دست و گربیاں رکھنے کے علاوہ بیسویں صدی کے وسط میں بھارت جیسے متنوع ملک کو کیمونزم کی یلغار سے بچانا اور اکیسویں صدی میں مغرب کے اقتصادی مفادات کے تحفظ کی خاطر چین کی راہ روکنا شامل تھا۔

انگریزوں نے اسی سکیم کی آبیاری کے لئے دو قومی نظریہ کی گونج میں برصغیر کی تقسیم کو ہندوؤں اور مسلمانوں کی فطری عدوات کے تصور میں ڈھال کر سواد اعظم کے لئے قابل قبول بنایا اور اس نقطہ نظر سے متضاد سوچنے اور متبادل بیانیہ رکھنے والے بھگت سنگھ، احرار اور خاکسار سمیت تمام گروہوں کو پہلے انگریز نے ریاستی قوت سے کچلنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی اور انگریزوں کے بعد دونوں نوزائیدہ ریاستوں نے آزادی کے تصور کی وضاحت اور متبادل سیاسی نظریہ پیش کرنے والوں پہ غداری کے لیبل لگا کرکچلنے کے ساتھ ساتھ سب کو وہی بیانیہ قبول کرنے پہ مجبور کیا جو مغربی استعمار کی عالمی مفادات کے تقاضوں سے ہم آہنگ تھا۔

جاری ہے۔

ملک محمد اسلم اعوان سینئر صحافی اور کالم نگار ہیں، افغانستان میں امریکا کی طویل جنگ کی گراؤنڈ رپورٹنگ کی، قومی سیاسی امور، معیشت اور بین الاقوامی تعلقات پر لکھتے ہیں، افغانستان میں امریکی کی جنگ کے حوالے سے کتاب جنگ دہشتگردی، تہذیب و ثقافت اور سیاست، کے مصنف ہیں۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین