Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

پاکستان

ضیائی مارشل لا کا بھوت اور ملکی سیاست

Published

on

ارادہ تو یہ تھا کہ آج پھر ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال پر کچھ تحریر کروں لیکن اچانک کیلنڈر پر نظر پڑی تو تمام مجتمع خیالات منتشر ہوگئے اور دل و دماغ کے کینوس پر 5 جولائی 1977 کو ہونے والا واقعہ ابھر کر سامنے آگیا جب منتخب وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کا تختہ ایک ایسے فوجی جرنیل نے الٹ دیا جو خود بھٹو صاحب کی چوائس تھا۔

بھٹو حکومت کے خاتمے سے پہلے اور بعد میں جو واقعات رونما ہوئے وہ کسی نہ کسی طور بعد میں بھی ہماری سیاسی تاریخ میں دہرائے جاتے رہے اور اب تک دہرائے جارہے ہیں۔

وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کی حکومت کے خلاف 9 جماعتی اپوزیشن اتحاد پاکستان نیشنل الائنس  ،جسے قومی اتحاد بھی کہا جاتا تھا، نے الیکشن لڑا اور شکست کھائی لیکن اپوزیشن اتحاد نے انتخابی نتائج تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے بھٹو حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک چلادی۔

اس تحریک کے لئے عوامی حمایت اکٹھی کرنے کے لئے مذہبی ٹچ دیا گیا اور اسے تحریک نظام مصطفی کا نام دیا گیا۔ آئین پاکستان میں اسلامی دفعات شامل کرنے والے ذوالفقارعلی بھٹو کو اسلام کے دوسری جانب کا فریق قرار دینے کے لئے “تھوڑی سی پی لیتا ہوں” کا فقرہ استعمال ہوا اور 9 ستاروں سے موسوم 9 جماعتی عوامی اتحاد کی قیادت نے ثابت کردیا کہ اس ملک میں سیاسی کشمکش اقتدار کی جنگ نہیں بلکہ یہ حق و باطل کس معرکہ ہے۔

جب معاملات حد سے بڑھنے لگے تو وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو نے اپوزیشن کو مذاکرات کی دعوت دے دی جو کامیاب رہے۔ لیکن مذاکرات کی کامیابی تو جنرل ضیا کو درکار ہی نہ تھی۔ انہوں نے اس سیاسی بحران کو جواز بنا کر ملک میں منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر مارشل لگا دیا۔

ملک کے پہلے منتخب وزیراعظم کو قتل کے ایک بے بنیاد کیس میں پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا۔ اور ملک پر گیارہ سالہ طویل آمریت مسلط کردی۔ مارشل لا لگنےکے بعد جماعت اسلامی کے پروفیسر غفور احمد اور متعدد دیگر رہنماوں نے اس بات کا انکشاف کیا کہ وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو اپوزیشن کے تمام مطالبات مان گئے تھے۔ وہ ملک میں دوبارہ الیکشن پر بھی راضی ہوگئے تھے لیکن ہمیں مذاکرات کی اس کامیابی کے اعلان کا موقع ہی نہ دیا گیا اور جنرل ضیا الحق نے مارشل لا نافذ کردیا۔

بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ انہی 9 ستاروں میں شامل جماعت اسلامی سمیت دیگر جماعتوں نے ضیا مارشل لا کو نہ صرف ویلکم کہا بلکہ ضیا کی بنائی گئی مجلس شوری میں شامل ہوکر شریک اقتدار بھی ہوگئیں۔ اگر اپوزیشن کی سیاسی جماعتیں اس معاملہ پر سٹینڈ لے لیتیں تو یہ بات یقینی تھی کہ نہ تو ضیا کو ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے کی جرات ہوتی اور نہ ہی اس کا اقتدار گیارہ سال تک طویل ہوتا۔

ضیا الحق کے دور میں اختیار کی گئی خارجہ پالیسی نے ملک کو ایک ایسی خوفناک جنگ میں جھونک دیا جس میں چار دہائیاں گذرنے کے بعد آج بھی جھلس رہا ہے۔ اسلامائزیشن کے نام پر مذہبی اور سماجی منافرت اورعدم برداشت کا معاشرہ تشکیل دیا۔ جس نے 95 فیصد مسلمانوں کے ملک میں موجود مسلمانوں کو فرقوں میں تقسیم کردیا۔  “سٹریٹیجک ڈیپتھ”  کے حصول میں ملک کو  “اقتصادی اور سوشل ڈیتھ” کا شکار کردیا۔

آج سیاست میں جس کرپشن کی بات کی جاتی ہے اس کی بنیاد جنرل ضیا نے پارلیمنٹ سے اپنے صدارتی خطبے میں ارکان اسمبلی میں کروڑوں روپے کے ترقیاتی فنڈز تقسیم کرکے رکھی۔ ہماری سیاست اس ناسور سے آج تک جان نہیں چھڑا پائی۔ بلکہ اب یہ ترقیاتی فنڈ سیاسی جماعتوں میں بھی ایک سیاسی ٹول اور انتخاب جیتنے کی کنجی کی حیثیت اختیار کرگئے ہیں۔

معاشرے اپنے ماضی سے سبق نہ سیکھیں تو ماضی بار بار سامنے آکر ان کا منہ چڑاتا ہے۔شاید اسی لئے ہمارے ہاں بھی سیاسی واقعات گھوم پھر اسی انداز سے دہرائے جارہے ہیں۔ اپریل 2022 میں ایک تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں عمران حکومت کے خاتمے کے بعد پاکستان ایک بار پھر  1977 والے سیاسی بحران سے دوچار ہوگیا۔ لیکن اس بار معاملہ اس لحاظ سے مختلف ہے کہ اب 13 جماعتوں کا اتحاد حکومت میں ہے اور اتحادی حکومت نے اپوزیشن کی واحد جماعت تحریک انصاف کو مذاکرات کی دعوت دی۔ مذاکرات ہوئے، کئی دور ہوئے لیکن پھر پی ٹی آئی چیف عمران خان نے مذاکرات کی ناکامی کا ایسا یک طرفہ اعلان کیا کہ ان کی اپنی نامزد مذاکراتی ٹیم کے ارکان بھی اس پر حیران رہ گئے۔

وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ نے انکشاف کیا کہ حکومت نے تحریک انصاف کا مقررہ مدت سے پہلے اسمبلی تحلیل کرنے کا مطالبہ تسلیم کرلیا تھا اوریہ اتفاق ہوگیا تھا کہ بجٹ کی منظوری کے بعد جولائی میں اسمبلیاں تحلیل کرکے انتخابات کروادئیے جائیں گے۔ آئندہ مذاکراتی دور میں صرف یہ طے ہونا باقی رہ گیا تھا کہ اسمبلیاں جولائی کے پہلے ہفتے میں تحلیل کی جائیں یا تیسرے ہفتے میں۔  یہ ایک بڑا انکشاف تھا جس کی تائید پی ٹی آئی مذاکراتی ٹیم کے ارکان اسد عمر اور شاہ محمود قریشی نے بھی کی۔

اس ڈیڈ لاک کے بعد جو نیا بحران پیدا ہوا 9 مئی اسی کا شاخسانہ تھا۔ جس نے پاکستان کی سیاست پر ایک بار پھر 1977 والے اثرات مرتب کئے ہیں۔ حالات ابھی تک غیریقینی صورتحال سے دوچار ہیں۔ خدا نہ کرے کہ 9 مئی پاکستانی سیاست کے لئے دوبارہ کسی 5 جولائی کا باعث بنے۔ تاہم اس سوال کا جواب وقت دے گا کہ ملک کو اس دور کے سنگین سیاسی بحران سے دوچار کرنے والے  کس کردار کو ضیاالحق سے تعبیر کیا جائے  ؟؟؟

لاہور سے سینئر صحافی ہیں۔ جنگ،پاکستان، کیپیٹل ٹی وی، جی این این اور سما ٹی وی سمیت ملک کے نامور اخبارات اور ٹی وی چینلز کے لئے سیاسی رپورٹنگ کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ مختلف اخبارات میں ان کے آرٹیکلز باقاعدگی سے شائع ہوتے ہیں جبکہ ٹی وی چینلز پر کرنٹ افئیر کے پروگرامز میں بھی بطور تجزیہ کار ان کی رائے کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین