Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

ٹاپ سٹوریز

برطانیہ کے آپریشن تھیٹرز میں دوران سرجری خواتین پر جنسی حملوں کے خوفناک اعداد و شمار

Published

on

برطانیہ کی نیشنل ہیلتھ سروس کے عملے کے ایک بڑے تجزیے میں خواتین سرجنوں کا کہنا ہے کہ انہیں جنسی طور پر ہراساں کیا جا رہا ہے، ان پر حملہ کیا جا رہا ہے اور کچھ معاملات میں ساتھیوں کی طرف سے ریپ کیا گیا ہے۔

بی بی سی نیوز نے ان خواتین سے بات کی ہے جنہیں آپریشن کے دوران آپریٹنگ تھیٹر میں جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

مطالعہ کے مصنفین کا کہنا ہے کہ سینئر مرد سرجنوں کا زیر تربیت خواتین کے ساتھ بدسلوکی کا ایک نمونہ ہے، اور یہ اب نیشنل ہیلتھ سروس ہسپتالوں میں ہو رہا ہے۔رائل کالج آف سرجنز نے کہا کہ یہ نتائج "واقعی چونکا دینے والے” تھے۔

جنسی ہراسانی، جنسی حملہ اور عصمت دری سرجری کا کھلا راز ہے۔

مرد سرجن ساتھی خواتین سے چھیڑ چھاڑ کرتے ہیں، ان کے جسم کو سہلاتے ہیں، اپنا عضو تناسل منتشر حالت میں ان کے جسموں سے رگڑتے اور ٹکراتے ہیں۔ کچھ خواتین کو جنسی تعلقات کے عوض کیریئر کے مواقع کی پیشکش کی گئی۔

تحقیق کاروں کو جواب دینے والی تقریباً دو تہائی خواتین سرجنوں نے کہا کہ وہ جنسی ہراسانی کا نشانہ بنی ہیں اور ایک تہائی کو پچھلے پانچ سالوں میں ساتھیوں نے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا ہے۔

خواتین کا کہنا ہے کہ انہیں خدشہ ہے کہ واقعات کی اطلاع دینے سے ان کے کیریئر کو نقصان پہنچے گا اور انہیں اعتماد نہیں ہے کہ این ایچ ایس کارروائی کرے گا۔

‘اس کا چہرہ میری چھاتیوں میں کیوں ہے؟’

ایک خاتون نے اپنا پہلا نام استعمال کرنے کی اجازت دی، اس کا جوڈتھ کے نام سے ذکر کیا جائے گا، جوڈتھ اب ایک تجربہ کار اور باصلاحیت کنسلٹنٹ سرجن ہیں۔ جوڈتھ نے بتایا کہ اس کے کیریئر کے شروع میں اس پر جنسی حملہ کیا گیا جب وہ آپریٹنگ تھیٹر میں سب سے کمزور فرد تھی – اور ایک سینئر مرد سرجن کو پسینہ آ رہا تھا۔ اس نے] فوراً گھوم کر اپنا سر میری چھاتیوں میں دفن کر دیا اور مجھے احساس ہوا کہ وہ میرے ساتھ اپنی پیشانی صاف کر رہا ہے۔

جوڈتھ کہتی ہیں کہ اس وقت اس کی حالت یہ تھی کہ وہ بالکل ساکت تھی اور سوچ رہی تھی کہ اس مرد کا چہرہ اس کی چھاتیوں میں کیوں ہے؟

جب اس نے دوسری بار ایسا کیا تو جوڈتھ نے اسے تولیہ لینے کی پیشکش کی۔ جواب واپس آیا ، نہیں، اس میں زیادہ مزہ ہے، وہ کہتی ہیں، اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی – مجھے گندا محسوس ہوا، میں نے تذلیل محسوس کی۔ اس سب سے بھی بری بات میرے ساتھیوں کی مکمل خاموشی تھی۔

جوڈتھ کہتی ہیں کہ وہ آپریٹنگ تھیٹر میں سب سے سینئر شخص بھی نہیں تھا، لیکن وہ جانتا تھا کہ یہ سلوک ٹھیک ہے اور کوئی کچھ نہیں کہے گا۔

یہ آپریشن تھیٹر کے وسط میں جوڈتھ کے ساتھ ہوا، لیکن جنسی ہراسانی اور جنسی زیادتی ہسپتال سے باہر تک پھیلی ہوئی ہے۔

‘میں نے اس پر بھروسہ کیا’

این – قانونی وجوہات کی بناء پر اس کا اصل نام ظاہر نہیں کیا گیا – بی بی سی سے بات کرنا چاہتی تھی کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ تبدیلی تب آئے گی جب لوگ بات کریں گے۔

وہ اپنے ساتھ جو کچھ ہوا اسے عصمت دری کے طور پر بیان نہیں کرتیں لیکن واضح ہے کہ جنسی تعلق اتفاق رائے سے نہیں تھا۔ یہ ایک میڈیکل کانفرنس سے منسلک ایک سماجی تقریب میں ہوا۔

این ایک ٹرینی تھی اور وہ ایک کنسلٹنٹ تھا۔ وہ کہتی ہیں میں نے اس پر بھروسہ کیا کیونکہ میں اس کے سوا کسی کو نہیں جانتی تھی، اس نے اس بھروسے کو استعمال کیا۔

این کہتی ہیں کہ وہ مجھے وہاں لے گیا جہاں میں ٹھہری ہوئی تھی، میں نے سوچا وہ کچھ بات کرنا چاہتا ہے لیکن وہ اچانک میرے اوپر ۤگیا اور مجھ سے جنسی تعلق قائم کر لیا۔

این کہتی ہیں کہ وہ اس وقت فریز ہو کر رہ گئی تھیں اور اسے روک  نہیں سکیں۔ جو ہو رہا تھا میں ایسا نہیں چاہتی تھی، یہ سب بالکل غیرمتوقع تھا۔ اگلے دن جب اسے دیکھا تو بمشکل اپنے غصے پر قابو رکھ پائی، میں نے کوئی ہنگامہ کھڑا نہیں کیا کیونکہ مجھے محسوس ہوا کہ اس سب کا ایک مضبوط کلچر موجود ہے۔

اس واقعے نے دیرپا اثر ڈالا، پہلے اسے جذباتی طور پر بے حس کر دیا اور برسوں بعد کام پر "وہ یاد این کے ذہن میں خوفناک، ڈراؤنے خواب کی طرح بھر جاتی”، یہاں تک کہ جب وہ کسی مریض کا آپریشن کرنے کی تیاری کر رہی ہوتی تو اسے وہ مناظر بھیانک یاد کی طرح ستاتے۔

سرجنوں پر اعتماد متزلزل

اس طرح کے رویے کے ارد گرد خاموشی کا کلچر موجود ہے۔ جراحی کی تربیت آپریشن تھیٹر میں سینئر ساتھیوں سے سیکھنے پر منحصر ہے اور خواتین نے بتایا ہے کہ ان لوگوں کے بارے میں بات کرنا خطرناک ہے جو ان کے کیریئر پر اثرانداز ہونے کی طاقت رکھتے ہیں۔

برٹش جرنل آف سرجری میں شائع ہونے والی یہ رپورٹ جنسی ہراسانی کا اندازہ لگانے کی پہلی کوشش ہے۔

رجسٹرڈ سرجنز – مرد اور خواتین – کو مکمل طور پر گمنام طور پر حصہ لینے کے لیے مدعو کیا گیا اور 1,434 نے جواب دیا۔ نصف خواتین تھیں:

63 فیصد خواتین ساتھیوں کی جانب سے جنسی ہراسانی کا نشانہ بنی تھیں۔

30% خواتین کو ایک ساتھی نے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا

11% خواتین نے کیریئر کے مواقع سے متعلق جبری جسمانی رابطے کی بات کی۔

زیادتی کے کم از کم 11 واقعات رپورٹ ہوئے۔

90% خواتین، اور 81% مردوں نے کسی نہ کسی طرح کی جنسی بدکاری کا مشاہدہ کیا تھا۔

جب کہ رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ مرد بھی کچھ اس رویے کا شکار ہیں (24% کو جنسی طور پر ہراساں کیا گیا تھا)، یہ نتیجہ اخذ کرتی ہے کہ مرد اور خواتین سرجن "مختلف حقائق کی زندگی گزار رہے ہیں”۔

یونیورسٹی آف ایکسیٹر سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر کرسٹوفر بیگنی نے کہا کہ "ہمارے اس سروے نتائج سے جراحی کے پیشے میں عوام کا اعتماد متزلزل ہونے کا امکان ہے۔”

دریں اثناء ایک دوسری رپورٹ – جسے بریکنگ دی سائیلنس کہا جاتا ہے: صحت کی دیکھ بھال میں جنسی بدسلوکی کے ازالہ  کے لیے سفارشات پیش کر رہی ہے کہ کس طرح کی تبدیلی کی ضرورت ہے۔

یونیورسٹی آف سرے کی کنسلٹنٹ سرجن پروفیسر کیری نیو لینڈز کہتی ہیں، "اس سے لوگ استثنیٰ کے ساتھ برتاؤ کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں اور اس میں سے زیادہ تر کو چیک نہیں کیا جاتا۔”

وہ اپنے جونیئر ساتھیوں کے تجربات سننے کے بعد اس طرح کے رویے سے نمٹنے کے لیے متحرک ہوئی۔

اس نے بی بی سی کو بتایا: "سب سے عام منظر یہ ہے کہ ایک جونیئر خاتون ٹرینی کے ساتھ ایک سینئر مرد مجرم، جو اکثر ان کا نگران ہوتا ہے، بدسلوکی کرتا ہے۔

"اور اس کے نتیجے میں خاموشی ہوتی ہے، لوگ اپنے مستقبل اور اپنے کیریئر کے بارے میں حقیقی خوف میں رہتے ہیں اگر وہ بات کرتے ہیں۔”

‘ناقابل یقین حد تک پریشان کن’

اعداد و شمار میں سامنے آنے والا ایک اور موضوع این ایچ ایس ٹرسٹ، جنرل میڈیکل کونسل (جو کہ پریکٹس کرنے کی اجازت اور ڈاکٹروں کی برطانیہ میں رجسٹریشن کرتا ہے) اور رائل کالجز  جیسے اداروں میں اعتماد کی کمی تھی۔

پروفیسر نیولینڈز کا کہنا ہے کہ ہمیں تفتیشی عمل میں ایک بڑی تبدیلی کی ضرورت ہے تاکہ وہ خودمختار ہو جائیں، اور صحت کی دیکھ بھال کے لیے کام کرنے کے لیے ایک محفوظ جگہ بننے کے لیے ان پر بھروسہ کیا جائے۔

انگلینڈ کے رائل کالج آف سرجنز کے صدر ٹم مچل نے کہا کہ یہ نتائج "واقعی چونکا دینے والے” اور "ناقابل یقین حد تک پریشان کن” ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس "گھناؤنے رویے” نے زندگیوں کو تباہ کر دیا ہے اور "ہمارے آپریٹنگ تھیٹرز یا این ایچ ایس میں کہیں بھی اس کی کوئی جگہ نہیں ہے”۔

انہوں نے کہا کہ ہم اپنی صفوں میں اس طرح کے رویے کو برداشت نہیں کریں گے۔

لیکن کیا آج سرجری خواتین کے لیے کام کرنے کے لیے محفوظ جگہ ہے؟

جوڈتھ کہتی ہیں، کبھی نہیں، یہ ایک خوفناک چیز ہے جسے تسلیم کرنا پڑے گا۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین