Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

تازہ ترین

عدالتی امور میں مداخلت اوپن سیکرٹ، بات نہ ماننے پر افغانستان سے دھمکیاں ملیں، پشاور ہائیکورٹ

Published

on

ہائیکورٹ ججز کے خط سے متعلق ازخودنوٹس کیس میں پشاور ہائیکورٹ کی تجاویز سامنے آ گئیں۔

پشاور ہائیکورٹ کا کہنا ہے کہ جب کوئی جج حلف لیتا ہے تو کسی بھی قسم کا دباؤ نہ لینے کی قسم کھاتا ہے، جج کے حلف میں لکھا ہے کہ وہ نہ دباؤ میں آئے گا نہ انصاف کی فراہمی میں ریاستی و غیر ریاستی عناصر کی مداخلت برداشت کرے گا، پارلیمانی امور، عدالتی امور میں مداخلت ایک اوپن سیکرٹ ہے،بات نہ ماننے کی صورت  میں ججز کو افغانستان سے غیر ریاستی عناصر نے جان سے دھمکیاں ملیں۔

پشاور ہائیکورٹ نے سپریم کورٹ کی جانب سے تجاویز طلب کئے جانے پر جو جواب داخل کیا ہے اس میں کہا گیا کہ آئینی معاملات میں ہائیکورٹ چیف جسٹس اور ججز پر مشتمل ہوتی ہے،ایسا کوئی ضابطہ نہیں جو انتظامیہ یا ریاستی اداروں کو ججز کے کام میں مداخلت کی اجازت دیتا ہو۔

پشاور ہائیکورٹ کی جانب سے کہا گیا کہ صرف سپریم جوڈیشل کونسل ہائیکورٹ و سپریم کورٹ ججز کے ضابطہ اخلاق کی نمائندگی کرتی ہے،ججز کے ضابطہ اخلاق میں عدلیہ کے اندر ہونے والی مداخلت کے روک تھام کے لیے کوئی رہنمائی موجود نہیں ہے،پارلیمانی امور، سیاست اور عدالتی امور میں مداخلت ایک اوپن سیکرٹ ہے،سیاسی مقدمات میں ججز ایجنسیوں کی مداخلت کا شکوہ کرتے نظر آتے ہیں۔

پشاور ہائیکورٹ نے لکھا کہ کچھ ججز نے شکایات کیں کہ خفیہ ایجنسیوں نے سیاسی مقدمات میں فیصلے اپنی مرضی کے کروانے کے لیے مداخلت کی،بات نہ ماننے کی صور میں ججز کو افغانستان سے غیر ریاستی عناصر نے جان سے دھمکیاں ملیں،ججز کو دھمکیاں ملنے کے بعد محکمہ انسداد دہشتگری کے سامنے اٹھایا گیا لیکن کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔

پشاور ہائیکورٹ نے لکھا کہ ججز کو دھمکی ملنے کے معاملات اعلیٰ سطح پر بھی اٹھایا گیا،یہاں ہم ایسا فیصلے کا حوالہ دیتے ہیں جس میں انٹیلیجنس ایجنسیوں کی سیاسی انجینئرنگ کی حوصلہ شکنی کی گئی،سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں ایجنسیوں کی سیاست اور عدالتی امور میں مداخلت کی ممانعت کی گئی۔

پشاور ہائیکورٹ نے لکھا کہ اعلیٰ عدلیہ کے جج کو ڈرانے دھمکانے سے روکنے کے لیے فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے پر عمل کیا جانا چاہیے،ہائیکورٹس کو اس معاملے پر مربوط لائحہ عمل اختیار کرنا چاہیے،اگر ایک جج کو دھمکی ملتی تو اسے متعلقہ چیف جسٹس کو آگاہ کرنا چاہیے۔

پشاور ہائیکورٹ نے لکھا کہ تجاویز کی کاپی سپریم جوڈیشل کونسل اور ہائیکورٹ کی انتظامی کمیٹی کو بھیجی جانی چاہیے، چیف جسٹس اور انتظامی کمیٹی کو متاثرہ جج کی شکایت پر فوری ایکشن لینا چاہیے،جج کو ملنے والی دھمکی کی روک تھام کے لیے تمام اقدامات کیے جانے چاہیے۔

پشاور ہائیکورٹ نے تجویز دی کہ اگر ادارے ایسے معاملات میں تعاون نہیں کرتے جو پھر اسے جوڈیشل سائیڈ پر لارجر بینچ کے ذریعے دیکھنا چاہیے،متعلقہ لارجر بینچ کو ان اداروں کے خلاف توہین عدالت کی کاروائی سمیت دیگر احکامات جاری کرنے چایئیں۔

پشاور ہائیکورٹ نے تجویزدی کہ ملوث خفیہ اداروں کے افسران کے خلاف فیصلہ دیا جانا چاہیے،چیف جسٹس اور انتظامی کمیٹی کو شکایت موصول ہونے کے فوری بعد اس معاملے کو دیکھنا چاہیے۔

پشاور ہائیکورٹ نے تجویز دی کہ اگر متعلقہ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس ایسا کرنے میں ناکام ہو جاتے ہیں تو انتظامی کمیٹی کے سامنے سات روز میں معاملہ رکھنا چاہیے،اگر انتظامی کمیٹی اس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ اس معاملے کی مزید انکوائری ہونی چاہیے تو مجوزہ طریقہ کار پر عمل ہونا چاہیے۔

پشاور ہائیکورٹ نے تجویز دی کہ اس بابت ججز کے ضابطہ اخلاق میں ترمیم ہونی چاہیے،اگر ہائیکورٹ کے کسی جج کو ریاستی یا غیر ریاستی عناصر کی جانب سے دھمکی ملتی ہے یا مداخلت ہے تو اسے فوری طور پر چیف جسٹس ہائیکورٹ کو تحریری شکایت کے ذریعے آگاہ کرنا چاہیے۔

پشاور ہائیکورٹ نے تجویز کیا کہ اگر چیف جسٹس یا انتظامی کمیٹی کے کسی ممبر جج کے ساتھ کچھ ہوتا ہے تو پھر ہائیکورٹ رولز کے تحت اس معاملے کو دیکھنا چاہیے۔

Continue Reading
1 Comment

1 Comment

  1. pilllow

    اپریل 30, 2024 at 5:09 شام

    What i do not realize is in fact how you are no longer actually much more wellfavored than you might be right now Youre very intelligent You recognize thus considerably in relation to this topic made me in my view believe it from numerous numerous angles Its like men and women are not fascinated until it is one thing to do with Lady gaga Your own stuffs excellent All the time handle it up

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین