Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

کالم

انصاف کیا صرف مریم اور قاسم کے ابو کا حق ہے؟

Published

on

کہتے ہیں کہ ہماری عدلیہ کا دنیا میں انصاف فراہم کرنے والی عدالتوں میں تقریبا آخری نمبر ہے اسکا مطلب تو یہ ہوا کہ ہم دعوی تو مسلمان ملک ہونے کا کرتے ہیں لیکن باقی معاملات کی طرح یہاں بھی اپنے آپ سے، اپنی قوم سے بے ایمانی کرتے ہیں ۔

اس رینکنگ کو میں یہودی سازش سمجھ کر چپ رہتا کہ ہماری عدلیہ کو بدنام کرنے کے لئے یہ سب کیا جا رہا ہے لیکن گزشتہ چند ماہ سے عدالت عظمی اور عدالت عالیہ کے حالات کو بغور دیکھنے کے بعد علم ہوا کہ یہ درجہ بندی یہودی سازش نہیں بلکہ حقیقت ہے ۔یہودیوں کے ملک میں تو آج بھی انصاف مل جاتا ہے لیکن ہمارے ملک میں شاید عدالتوں کے پاس عام آدمی کو انصاف فراہم کرنے کے لئے وقت ہی نہیں۔

ایک وقت تھا کہ اتوار کو عدالت لگا کر مریم کے ابو کو برطانیہ جانے کی اجازت دی گئی کیونکہ اس وقت کے حکمران انھیں پاکستان میں نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ سب نے ایک پیج پر ہوتے ہوئے انھیں پاکستان سے باہر بھجوانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اب ایک وقت یہ ہے کہ منصب قضا پر فائز افراد کو قاسم کے ابو کے مقدمات سے فرصت نہیں۔ وقت سے پہلے عدالتیں لگا لی جاتی ہیں کہ قاسم کے ابو کا کوئی کیس آئے اور وہ اسے ریلیف دیں۔

کہتے ہیں خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے۔ چودھری پرویز الٰہی کے کیس میں بھی ایسا ہی کچھ ہوا، عدالت عالیہ لاہور نے جو فیصلہ دیا وہ بھی تاریخ میں یاد رکھا جائے گا کہ انھیں دنیا کے کسی بھی کیس میں گرفتار نہ کیا جائے اور تمام پرانے اور نئے ہونے مقدمات میں نہ صرف ضمانت دی گئی بلکہ انھیں بحفاظت گھر پہنچانے کا بھی کہا گیا، اس مقصد کے لئے ایک ڈی آئی جی کی ڈیوٹی بھی لگا گئی کہ انہیں بحفاظت گھر پہنچا یا جائے۔ اسکے بعد کیا ہوا یہ الگ کہانی ہے۔ قبل ازیں اس قسم کا ملتا جلتا فیصلہ قاسم کے ابو کے کیس میں بھی آ چکا ہے ۔انہیں تو عدالت عظمی گڈ ٹو سی یو بھی کہتی ہے اور دو چار منٹ میں انھیں دنیا کے ہر کیس سے ریلیف دے کر گھر بھیج دیتی ہے ۔

حقیقت تو یہ ہے کہ عدالتیں انصاف فراہم کرنے کی بجائے اسٹیبلشمنٹ اور مقننہ سے جنگ کرنے میں مصروف نظر آتی ہیں اور قانون سازی بھی اپنی مرضی کی چاہتی ہیں، اس کے پیچھے کیا مقاصد ہیں؟ کون سی قوتیں ہیں؟ یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے لیکن حقیقت کبھی نہ کبھی سامنے آ ہی جائے گی ۔

دوسری طرف عوام مہنگائی میں پس رہے ہیں، جینا محال ہو چکا ہے، بجلی کے بلوں میں ٹیکس لگا لگا کر عوام کا کچومر نکال دیا گیا ہے، لوگ خود کشی پر مجبور ہیں، جو عدالتیں قاسم کے ابو کو انصاف کی فراہمی میں ایک منٹ تاخیر نہیں کرتیں ان کے پاس اس وقت شاید فرصت کے چند لمحات میسر نہیں کہ وہ عوام کی دکھ کی گھڑی میں ان کے لئے ایک سو موٹو ہی لے لیں یا اس موضوع پر آنے والی کسی درخواست کو دیکھ کر شنوائی کا اہتمام کر یں ۔

سوال یہ ہے کہ وہ ایسا کیوں کریں؟ ان کی تو چھٹیاں ہیں، قاسم کے ابو کا کیس تو نرالا ہے ۔عوام کا کیا ہے؟ بھاڑ میں جائے۔ انہی عدالتوں میں ہزاروں کیس رکھے ہیں جن پر کئی دہائیوں سے کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔اپنا مذاق خود اڑانا بھی شاید ہم پر ختم ہے۔

جنرل مشرف کی موت کے بعد ان کا ایک کیس کل ہی یاد آیا ہے، لگتا ہے کسی کو علم نہیں کہ وہ اس جہان فانی سے کوچ کر چکے ہیں۔ شرم آتی ہے جب کسی یہود و ہنود کے ملک میں جاتے ہیں اور وہاں انصاف کا معیار دیکھتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے ہم عمر لاءاستعمال کرتے ہیں اور کوئی کہتا ہے ہم محمڈن لا کے کے ذریعے انصاف فراہم کرتے ہیں۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ ہمارے ہاں بیشتر ججز حضرات ہر سال گرمیوں کی چھٹیاں وہان منانے جاتے ہیں، بیشتر نے تو قانون کی تعلیم ہی وہاں سے پائی، ان سب باتوں کا علم بھی ہے لیکن پھر بھی ہماری عدلیہ کا نمبر انصاف فراہم کرنے والے ممالک میں آخری نمبر پر ہے یعنی یہاں انصاف نہیں ملتا ۔

کیسے مل سکتا ہے؟ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کا بیٹا سرعام انصاف فروخت کرتا رہا۔ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کا بیٹا بھی سب کے سامنے ہے، ایک داماد کا معاملہ بھی سامنے آیا تھا ۔ موجودہ عدلیہ کا ایجنڈا اسٹیبلشمنٹ اور مقننہ سے جنگ محسوس ہوتا ہے ۔اسٹیبلشمنٹ بھی بہت سے معاملات میں حدود میں نظر نہیں آتی۔ سیاستدانوں کا حال بھی سامنے ہے۔ خدارا سب اس ملک پر رحم فرمائیں اور اسے چلنے دیں، عدلیہ مریم اور قاسم کے ابو کے علاوہ بھی کوئی کیس دیکھ لے اور قومی مفادات کے منصوبوں پر سیاسی مفادات کے منصوبوں کو ترجیح نہ دے، اس کی صرف ایک مثال اورنج ٹرین کا منصوبہ ہے جس پر قومی مفاد کو بالائے طاق رکھ کر ایک اسٹے آڑدر ایک سیاسی شخصیت کے کہنے پر دیا گیا، جس سے دوست ملک بھی ناراض ہوا اور عوام کو بھی ایک سہولت کی فراہمی میں بھی رکاوٹ آئی۔

صرف عدلیہ اپنا کام دیانت داری سے کرنا شروع کر دے وہ وقت دور نہیں جب پاکستان کے عوام خوشحال ہوں گے۔ بلاشبہ اس میں سارا قصور عدلیہ کا نہیں، ماضی کی حکومتیں ،مارشل لائی دور ،اسٹیبلشمنٹ بھی ذمہ دار ہیں، انہیں بھی اب قومی مفاد میں اپنے اس فعل یعنی عدلیہ میں مداخلت سے پیچھے ہٹنا ہو گا۔ ججز کی بھرتی کا طریقہ کار بھی ٹھیک کرنا ہو گا۔ اگر یہ سب نہیں کر سکتے تو کسی غیر مسلم ملک کو اپنا عدالتی نظام ٹھیکے پر دے دیا جائے۔

بس اب بہت ہو چکا ۔عوام کو انصاف چاہئے اس کے لئے اب عوام نہیں ملک کے چاروں ستون قربانی دیں کیونکہ بربادی کی ذمہ داری انہی پر عائد ہوتی ہے عوام بےچارے تو منتظر ہیں کب انہیں جینے کا حق ملے گا۔

ہمایوں سلیم 32 سال سے زائد عرصہ سے شعبہ صحافت سے منسلک ہیں، تمام بڑے قومی اخبارات کے لیے خدمات انجام دینے کا اعزاز رکھتے ہیں، میگزین ایڈیٹر اور ایڈیٹر کی حیثیت سے کئی اداروں میں کام کرنے کے بعد ان دنوں سٹی چینل لاہور رنگ کے ڈائریکٹر نیوز ہیں۔ اردو کرانیکل کے لیے ہفتہ وار کالم لکھتے ہیں۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین