Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

ٹاپ سٹوریز

کیا اس سال حج کی نگرانی امریکی سی آئی اے کر رہی ہے؟

Published

on

امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے نے نگرانی کی نئی صلاحیتوں اور مصنوعی ذہانت کے جاسوسی کے لیے استعمال کو اجاگر کرنے کے لیے حج کی تصویروں کو استعمال کیا جس پر ڈیجیٹل رائٹس اور مسلم سول سوسائٹی تنظیمیں شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسے اسلاموفوبیا سے جوڑ رہی ہیں۔

ایک امریکی میڈیا ہاؤس نے رپورٹ کیا ہے کہ سی آئی اے کے ڈیجیٹل انوویشن ڈائریکٹوریٹ کے ایک سینئر افسر نے ایک پریزینٹیشن دی جس میں بتایا گیا کہ سی آئی اے کس طرح کلاؤڈ بیسڈ ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے انٹیلی جنس معلومات اکٹھی کرنے کی صلاحیت کو بہتر بنا رہی ہے۔ اس پریزینٹیشن میں حج کی تصویر کا استعمال کیا گیا۔

دو ہزار اٹھارہ میں ایمازون ویب سروسز ( اے ڈبلیو ایس) کے زیراہتمام ایک پبلک سیکٹر کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سی آئی اے عہدیدار شان روش نے کہا کہ  فوجی انٹیلی جنس دور کا مطلب ہے غیر دوستانہ مقامات پر جا کر تیزی سے مسائل کوحل کرنا ہے، اس شعبے میں کام کرنے والے پروگرامرز، ڈیٹا سائنسدانوں اور تجزیہ کاروں نے  ان لوگوں کو تلاش کرنے میں حیرت انگیز صلاحیتیں فراہم کی ہیں جن کی ہمیں تلاش ہے، ہم یہ جان سکتے ہیں کہ وہ کون ہیں، کہاں ہیں، کیا کر رہے ہیں اور ان کے ارادے کیا ہیں؟ اس کے بعد اس افسر نے جو اس وقت سی آئی اے کا ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر تھا، حرم کے باہر جمع حاجیوں کی تصویر دکھائی۔

یہ تصویر 2017 کے حج کے دوران سٹاک امیجز سے لی گئی معلوم ہوتی ہے لیکن اس تصویر کو ایڈٹ کیا گیا تھا اور ایک شخص کے گرد زرد رنگ کا دائرہ لگایا گیا تاکہ مجمع میں سے اس کا چہرہ نمایاں ہو سکے۔

رپورٹ شائع کرنے والے میڈیا ہاؤس مڈل ایسٹ آئی کا کہنا ہے کہ اس شخص کی شناخت ہوئی جس کی تصویر کے گرد زرد دائرہ لگایا گیا تھا اور وہ سی آئی اے کو مطلوب بھی محسوس نہیں ہوتا۔

رپورٹ کے مطابق اس میڈیا ہاؤس نے سی آئی اے سے رابطہ کر کے سوال کیا کہ کیا وہ حج کے دوران نگرانی کی صلاحیت رکھتی ہے اور اگلے ہفتے ہونے والے حج کی نگرانی کر رہی ہے؟ سی آئی اے نے اس سوال کا جواب نہیں دیا۔

سی آئی اے کی بریفنگ میں حج کی تصویر کے استعمال نے مسلم ایڈووکیسی گروپوں اور قانونی ماہرین میں نگرانی کی ٹیکنالوجی سے متعلق تحفظات بڑھے ہیں۔

کونسل آن امریکن اسلامک ریلشنز کے ڈپٹی ڈائریکٹر ایڈورڈ مچل نے کہا کہ امریکی سرکاری اداروں کے ٹریننگ میٹریل اور پریزینٹیشنز میں مسلمانوں کو بطور خطرہ پیش کرنا ایک طویل تاریخ رکھتا ہے، مسلمانوں کو ایک ڈی فکیٹو مثال کے طور پر پیش نہیں کیا جانا چاہئے، اور وہ بھی اس وقت جب مسلمان حج کی عبادت میں مصروف ہوں۔

امریکن سول لبرٹیز یونین کے نیشنل سکیورٹی پروجیکٹ کے ساتھ سینئر سٹاف اٹارنی کی حیثیت سے وابستہ ایشلے گورسکی نے کہا کہ چہروں کی شناخت کی ٹیکنالوجی شہری آزادیوں کے لیے شدید خطرہ ہے، لوگوں کو آزادانہ عبادت کا حق ہے، اور حکومتوں کی جانب سے ٹریکنگ کا خوف نہیں ہونا چاہئے، یہ ایک مثال ہے کہ امریکی انٹیلی جنس کس طرح نگرانی کے ٹولز کو پروموٹ کرتی ہے اور مذہبی اقلیتوں کو کس طرح قابو میں رکھتی ہے چاہے وہ امریکا سے باہر ہی کیوں نہ ہوں۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین