Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

ٹاپ سٹوریز

سپریم کورٹ پارلیمنٹ سے ریکارڈ طلب کرنے کی مجاز ہے؟

Published

on

آئین کے تحت 90 روز کے اندر انتخابات کے بارے میں چیف جسٹس آف پاکستان عمرعطا بندیال کا فیصلہ اورریمارکس آئین کے تحفظ کی ضمانت ہیں لیکن وفاقی حکومت اور حساس ترین اداروں کو زمینی حقائق، ریاست کے مفاد، اردگرد دہشت گردی اورافواج پاکستان کے ساڑھے تین لاکھ جانبازوں کی الیکشن کے فرائض کی ڈیوٹی کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا۔ اس وقت پاکستان میں ایسی مضبوط مستحکم،سیاسی قوت کی کامیابی ضروری ہے،جو سی پیک کے عظیم الشان منصوبوں کو کامیابی سے ہمکنار کر سکے۔

بین الاقوامی ایجنڈے اس عظیم الشان ترقیاتی منصوبوں کو ناکام بنانے کے لیے بعض سیاسی جماعتوں کے ایسے رہنماؤں کے ساتھ ملانے کی کوشش کررہے ہیں جن کے اپنے اپنے مفادات ہوتے ہیں اوراس مذموم منصوبہ بندی میں بعض میڈ یاباؤسز کے مالکان اوراینکر پرسنز بھی ہیں،ان کے بیرون ملک اثاثوں سے ان کی سازشوں کا پتہ کروایا جاسکتا ہے لیکن ہمارے حساس ترین ادارے اس وقت سیاسی محاذ آرائی اور عدلیہ کے بحران پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔

مخصوص ایجنڈے کے تحت ایک سیاسی رہنما،ان کے پیروکاروں اوران کے سوشل میڈیا نے حساس ترین ادارے کے سربراہ اور ان کی ٹیم پر،ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت تنقید کا نشانہ بنایا ہوا ہے۔ معززججز کے متنازع فیصلوں نے، جن کو انہوں نے آئین کی تشریح سے منسوب کیا ہوا ہے، سپریم کورٹ تقسیم ہو چکی ہے۔ سپریم کورٹ کے مخصوص تین رکنی بینچ نے الیکشن 90 روز میں نہ ہونے کی بنا پر جوتوہین عدالت لگانے کی سنگین ترین دھمکی دے رکھی ہے اسے پارلیمنٹ نے اپنی بالا دستی کو برقرار رکھنے کے لیے بادی النظر میں ناکام بنا دیا ہے۔

میری اطلاع کے مطابق پارلیمنٹ کی قانون سازی اور سپریم کورٹ کے معززچیف جسٹس کے آئین کے حوالہ سے سنگین نتائج کی دھمکیوں پراہم ادارے گہری نظروں سے حالات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ ان حالات میں توہین عدالت کے ہتھیار کو استعمال کیا گیا تو سپریم کورٹ کے سنیارٹی بیچ کا فیصلہ روکنے کے لیے سات دروازے کھل جائیں گے اورملک کے سیاسی نظام کے ساتھ ساتھ دیگر نظاموں کو بھی لپیٹ میں لینے کے امکانات ہیں۔

اب جو 90 روز کے اندر الیکشن کرانے کے لیے آئین کے بنیادی ڈھانچے کو نظر انداز کیا جارہا ہے اور محض آئین کے آرٹیکل 224 کا سہارا لیا جا رہا ہے جب کہ یہ آرٹیکل دیگرآرٹیکل 218 (3)، 222 اور اہم ترین آرٹیکل 51 کا مرہونِ منت ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان کے فیصلہ کا محورایک ہی نقطہ کے اردگرد گھوم رہا ہے،جب کہ آئین کے آرٹیکل 51 کے تحت مردم شماری کا حتمی گزٹ نوٹیفکیشن بڑی اہمیت کا حامل ہے۔

مشترکہ مفادات کونسل کے اہم اجلاس ستمبر 2021 میں اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کی سربراہی کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ چونکہ جنوری 2018ء کی مردم شماری پر سندھ حکومت اور اہم ترین اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ پاکستان نے شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا اور 25 جولائی 2018ء کے انتخابات متنازعہ مردم شماری کے تحت ہوئے تھے، جسے نظریہ ضرورت کے تحت آئین کے آرٹیکل 51 میں ترمیم کرتے ہوئے عبوری مردم شماری کی شق کے تحت تسلیم کیا گیا تھااور فیصلہ کیا گیا تھا کہ آئندہ انتخابات کےلیے ساتھ میں مردم شماری کروائی جائے گی اور نئی مردم شماری کے حتمی گزٹ نوٹی فیکیشن کے مطابق ازسرنوحلقہ بندیوں کا انعقاد کیا جائے گا۔

اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کی سربراہی میں مشترکہ مفادات کونسل نے فیصلہ دیا تھا کہ 31 دسمبر 2022ء تک 7ویں مردم شماری مکمل کر لی جائے گی اور اس کو مد نظر رکھتے ہوئے الیکشن کمیشن آف پاکستان مارچ 2023 ء تک نئی حلقہ بندیاں مکمل کر کے جولائی 2023 ء تک انتخابی فہرستوں پرنظر ثانی کے مراحل طے کر کے حتمی گزٹ نوٹیفیکیشن جاری کر دے گا اور اگست 2023ء میں اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد اکتوبر 2023ء میں عام انتخابات کا انعقاد آئین کے مطابق ممکن ہو جائے گا۔ موجودہ حکومت 7ویں مردم شہری اب 15 مئی تک مکمل کرنے پرزور دے رہی ہے لہٰذا توقع کی جارہی ہے کہ مردم شہری کا 31 مئی تک حتمی گزٹ نوٹیفیکیشن جاری ہو جائے گا اور الیکشن کمیشن راؤنڈ دی کلاک کے تحت 15 اگست تک حلقہ بندیاں کروانے کی پوزیشن میں ہوگا کیونکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان حلقہ بندیوں پر نظرثانی کرتا رہتا ہے لہٰذا مردم شماری کے نتیجہ کی روشنی میں الیکشن کمیشن کو نئی حلقہ بندیاں کرانے میں دقت پیش نہیں آئے گی۔

مجھے حیرانی ہے کہ اٹارنی جنرل نے معززچیف جسٹس آف پاکستان کی توجہ 7 ویں مردم شماری کی جانب کیوں مبذول نہیں کرائی اور مشترکہ مفادات کونسل کے اہم ترین فیصلہ کی روئیداد معزز 3 رکنی بینچ کو پیش نہ کرنے کا جواز کیا تھا؟اس مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلہ کی وجہ سے الیکشن کمیشن آف پاکستان 90 روز میں انتخابات کو آئین کے آرٹیکل 254 کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کو موجودہ سیاسی،عدالتی اورانتخابی بحران کا سامنا ہے اوراپوزیشن اور حکومت کے ما بین جو کشمکش چل رہی ہے اس کا بھی سامنا ہے۔

ملک کے مفاد کے تحت آئینی اداروں بشمول الیکشن کمیشن آف پاکستان کا احترام آئین کے آرٹیکل 5 کے تحت لازم و ملزوم ہے۔ سپریم کورٹ کے معزز ججز ماضی کی تلخ کشیدگی سے بھی بخوبی واقف ہیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے اپنی حالیہ تقریر میں ملک کے سابق مرحوم چیف جسٹس اےآر کارنیلئس کا ذکر کیا ہے انہوں نے 1954ء میں انتخابی اصلاحات پر اہم تجاویز پیش کی تھیں اگر اس پرعمل درآمد کیا جا تا تو انتخابی سسٹم شفاف ہو جاتا۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے پریکٹس اینڈ پروسیجرز اختیارات ایکٹ 2023ء کے حوالے سے پارلیمنٹ کا رروائی کا ریکارڈ سپریم کورٹ میں جمع کرانے کے احکامات دے کر وفاقی حکومت اور سپیکر قومی اسمبلی کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ حکومت کا موقف ہے کہ پارلیمان کا ریکارڈ کا سپیکر کسٹوڈین ہے، کوئی جواز نہیں کہ پارلیمنٹ کی کارروائی کا ریکارڈ دیا جائے، اس پر سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ کا اپنا اپنا موقف ہے۔ آئین کے آرٹیکل 69 کے تحت اگرچہ پارلیمنٹ کی کارروائی کا ریکارڈ کسی ادارے کو دینے کی ممانعت ہے اورپارلیمنٹ میں جو تقاریر کی جاتی ہیں اس کا با قاعدہ ریکارڈ موجود ہوتا ہے.

اسی طرح کی عدالتی جنگ پاکستان کے سابق چیف جسٹس سید سجاد علی شاہ کے دور میں شروع ہوئی تھی اورقومی اسمبلی کے ارکان نے چیف جسٹس (ر) سید سجاد علی شاہ کی ایک رولنگ، جو توہین عدالت کے بارے میں تھی،اس وقت کی حکومت (نواز شریف) نے قومی اسمبلی کے ہال میں لوٹے دیواروں پر لگا دیئے تھے جو بظاہر سید سجاد علی شاہ کے ریمارکس فیصلہ کے خلافرد عمل تھا اور بطوروزیر اعظم نواز شریف اور ان کے وزراء نے سابق چیف جسٹس سجاد علی شاہ پر اسی انداز میں شدید تنقید کی تھی جیسا کہ ان دنوں پارلیمنٹ میں موجودہ چیف جسٹس اوران کے بعض حجزساتھیوں پر کی جارہی ہے۔ جب سابق چیف جسٹس سید سجاد علی شاہ نے قومی اسمبلی کا ریکارڈ طلب کیا تو قومی اسمبلی کے سپیکر غالباً الٰہی بخش سومرو نے دینے سے انکار کر دیا تھا لیکن جب سپریم کورٹ نے براہ راست سیکرٹری قومی اسمبلی مرحوم محمد خان گورایہ کوحکم جاری کیا تو وہ اسمبلی کا مکمل ریکارڈ لے کررجسٹرارآفس پہنچ گئے تھے اوراسی ریکارڈ کو مد نظر رکھتے ہوئے وزیراعظم نوازشریف کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کرتے ہوئے ان کو طلب کر لیا گیا تھا۔ وزیر اعظم نوازشریف کو لامحالہ توہین عدالت کے نوٹس کے مطابق سپریم کورٹ میں سابق چیف جسٹس کی عدالت میں ذاتی حیثیت سے پیش ہونا پڑا۔ اس کے نتائج کیا پیش آئے وہ تاریخ کا حصہ ہے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے پارلیمانی کارروائی کا ریکارڈ جمع کروانے کے لیے حکم دیا ہے۔ لامحالہ ریکارڈ پیش کیا جائے گا اور بعد ازاں تمام تقاریر کا جائزہ لینے کے بعد سپریم کورٹ کا بنچ ہی فیصلہ کرے گا کہ کن اہم شخصیات کے خلاف توہین عدالت کی فرد جرم عائد کی جائے، اب اگر تو ہین عدالت کی فردجرم عائد ہو جاتی ہے تواس کے سنگین نتائج بڑی اہمیت کے حامل ہوں گے اور میری دانست میں ملک کا سیاسی نظام ہی خطرہ میں پڑ جائے گا اوراسی دوران اہم پیش رفت ہوئی ہے کہ افواج پاکستان نےعمران خان کو شدید وارننگ دے دی ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلی مرتبہ سابق وزیراعظم اور پارٹی کے س براہ کو اس قسم کی یہ دوسری اہم فوجی وارننگ ہے جس ملک پر گہرا اثر پڑے گا

کنور محمد دلشاد الیکشن کمیشن آف پاکستان میں مختلف عہدوں پر کام کرتے ہوئے سیکرٹری الیکشن کمیشن کے عہدے تک پہنچے، انتخابات اور ملکی سیاسی امور کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں،پنجاب یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف بلوچستان سے اعلیٰ تعلیم پائی، قومی اور بین الاقوامی اداروں میں سٹرٹیجک پلاننگ کے شعبے میں اہم عہدوں پر فائز رہے،انتخابی اصلاحات کے لیے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اعلیٰ حکام پر مشتمل کمیٹی کے بھی سربراہ رہے،امریکی حکومت کی دعوت پر2008 کے امریکی صدارتی الیکشن کو بطور مبصر دیکھا اور امریکی الیکشن ماہرین سے تجربات شیئر کئے۔ انتخابی عمل کے حوالے سے کئی بین الاقوامی کانفرنسز میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ پنجاب کی نگران حکومت میں وزیر قانون و پارلیمانی امور کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین