Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

تازہ ترین

داعش بھی یوکرین جنگ کا ہتھیار ہے؟

Published

on

ماسکو کے کروکس سٹی ہال کنسرٹ کے شرکاء پر داعش کے حملہ میں 133 افراد ہلاک اور 100 سے زائد زخمی ہو گئے۔حملہ آوروں نے کنسرٹ ہال کے اندر بارودی مواد سے دھماکوں کے ساتھ فائرنگ شروع کی، دھماکوں سے چھت گرنے کے بعد پورا ہال آگ کی لپیٹ میں آ گیا۔

ہفتہ کے دن روسی نیوز ایجنسی نے اطلاع دی کہ پولیس نے گیارہ ملوث افراد کو پکڑ لیا، جن میں حملہ میں براہ راست ملوث چار دہشتگرد شامل ہیں۔رائٹرز کے مطابق، داعش خراسان نے حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔

قطع نظر اس بات کے کہ داعش کی حقیقت کیا ہے، اس کے تنظیمی وجود کے اجزاءترکیبی،کارکنوں کی جنگی تربیت،معاشی وسائل ، لاجسٹک کیسے اور کہاں سے آتے ہیں؟ مغرب نواز تجزیہ کار خراسان گروپ کو داعش کا سب سے زیادہ فعال دھڑا بتاتے ہیں، جس کا مقصد جنوبی ایشیا میں اُس قدیم خلافت کا احیاء ہے جو کبھی افغانستان، ایران اور ترکمانستان پہ مشتمل ہوا کرتی تھی۔

یہ گروپ 2013 میں صدر اوباما کی طرف سے دوحہ میں امارات اسلامی افغانستان کا دفتر کھول کے طالبان سے مذاکرات شروع کرنے کے بعد 2014 کے آخر میں جنوب مشرقی افغانستان سے نمودار ہوا ، اس میں ٹی ٹی پی سے الگ ہونے والوں کے علاوہ ایسے مقامی جنگجو شامل ہیں ،جنہوں نے داعش کے اساسی خلیفہ ابوبکر البغدادی سے بیعت کی تھی۔

اگرچہ افغانستان میں اس کی ریکروٹمنٹ 2018 سے بتدریج کم ہوئی لیکن اس کے جنگجو اب بھی افغانستان میں طالبان اتھارٹی کے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھے جاتے ہیں۔

قبل ازیں داعش خراسان کے جنگجوؤں نے 2021 میں کابل ہوائی اڈے کے باہر حملوں کی ذمہ داری قبول کی جس میں 175 شہری اور 13 امریکی فوجی ہلاک ہوئے تھے۔

داعش پر اس سے قبل مئی 2020 میں کابل میں میٹرنٹی وارڈ پر خونریز حملے کا الزام تھا جس میں خواتین اور شیر خوار بچوں سمیت 24 افراد مارے گئے۔

اسی سال نومبر میں، گروپ نے کابل یونیورسٹی پر حملہ کیا، جس میں کم از کم 22 اساتذہ و طلبہ جاں بحق ہوئے۔ستمبر 2022 میں، اس گروپ نے کابل میں روسی سفارت خانے پر خودکش حملہ کی ذمہ داری قبول کی تھی۔

پچھلے سال، ایران نے اس گروپ کو جنوبی شیراز میں دو الگ الگ حملوں کا ذمہ دار ٹھہرایا، جس میں کم و بیش 14ہلاک اور 40 سے زیادہ زخمی ہوئے تھے۔

اس سال جنوری میں جنوب مشرقی ایرانی شہر کرمان کے اُن حملوں کی ذمہ داری بھی داعش نے قبول کی جس میں لگ بھگ 100 افراد مارے گئے ۔

مغربی تجزیہ کاروں کے مطابق اس گروپ نے حالیہ برسوں میں روسی مسلمانوں پر مبینہ ظلم و ستم پر صدر ولادیمیر پوٹن کے خلاف پروپیگنڈہ مہم چلائی،جس میں افغانستان پر سوویت حملہ، چیچنیا میں روسی کارروائیاں، شام اور ایرانی حکومتوں کے ساتھ ماسکو کے قریبی تعلقات،خاص طور پر وہ فوجی مہمات جو روس نے کرائے کے فوجیوں کے ذریعے شام اور افریقہ کے کچھ حصوں میں کیں،کو نمایاں کیا گیا۔

امریکی ماہرین کا خیال ہے اگر ماسکو حملے کو یقینی طور پر آئی ایس خراسان سے منسوب کیا جائے تو وہ عالمی اثر و رسوخ کی حامل ایسی دہشت گرد تنظیم کے طور پہ خود کو منوا چکی ہے کہ وہ روس جیسے ملک کے اندر بھی حملوں کی اہلیت رکھتی ہے،گویا ماسکو حملہ کے ذریعے داعش خراسان نے مستقل طور پر مضبوط علاقائی وجود میں ڈھل جانے کے اپنے عزم کا اظہار کیا۔

ایران اور روس جیسی مملکتوں کی سمت داعش کی جارحیت نہ صرف داعش کے علاقائی ہیوی ویٹ کا مقابلہ کرنے کی استعداد بلکہ عالمی سطح پر اپنی سیاسی مطابقت اور آپریشنل رسائی کو بھی واضح کرتی ہے۔داعش خراسان نے 2022 میں کابل میں روسی سفارت خانے پر حملہ کیا تو کئی مہینوں تک روسی سیکورٹی ایجنسیوں نے روسی سرحدوں کے ارد گرد، خاص طور پر وسطی ایشیا اور قفقاز میں داعش کے حامی رجحان کو روکنے کی کوشش جاری رکھی۔

مارچ کے اوائل میں روس کی فیڈرل سیکیورٹی سروس نے کہا، ماسکو کی عبادت گاہ پر داعش کے حملوں کے منصوبے کو ناکام بنا دیا گیا۔علی ہذالقیاس بظاہر یہی تاثر پیدا کیا جا رہا ہے کہ دنیا کی توجہ سے کافی دور، مسلح گروپ شام اور ایران میں ناکامیوں کے بعد افغانستان میں دوبارہ نمودار ہو رہا ہے۔

داعش کی کارروائیوں کے طریقہ کار میں حملوں سے قبل ہدف کے خلاف بڑے پیمانے پر منفی پروپیگنڈہ مہمات جیسے عوامل کو پیش نظر رکھیں تو یہ جدید حربی مظاہر کی عکاسی کرتے ہیں، جیسے حال ہی میں داعش کے روس مخالف پیغامات میں دیکھا گیا،اس طرح کے حملے رائے عامہ کی سطح پہ مسلح گروپوں کی ساکھ میں اضافہ کرکے اُن کی فنڈنگ، بھرتی اور اثر و رسوخ کا دائرہ بڑھاتے ہیں۔

امریکی خفیہ ادارے کہتے ہیں کہ روس اور دیگر جگہوں پر مزید حملے متوقع ہیں، چنانچہ داعش میں شامل وسطی ایشیائی نژاد تاجکوں کے کردار کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ زار روس کے خلاف گوریلا جنگیں لڑنے والے امام شامل اور مُلا وادی کی اولادیں ایکبار پھر وسطی ایشیا میں واپس پلٹ رہی ہیں ۔

روس میں پچھلے چند سالوں میں بھی ماسکو سمیت کئی شہر ماضی کے حملوں کا نشانہ رہے۔2002 میں ماسکو کے تھیٹر، ڈوبروکا میں 900 سے زائد افراد کو یرغمال بنانے والے چیچن جنگجو بھی خود کو امام شامل کا پیروکار سمجھتے تھے،جو چیچنیا سے روسی افواج کے انخلاءاور خطہ پر روسی بالادستی کے خاتمہ مطالبہ کر رہے تھے۔

روسی اسپیشل فورسز نے تعطل کو ختم کرنے کے لیے تھیٹر پر حملہ کرکے 130 افراد مارے دیئے، زیادہ اموات دم گھٹنے والی گیس سے ہوئیں جس کا استعمال سیکیورٹی فورسز نے چیچن جنگجوؤں کو بے ہوش کرنے کے لیے کیا تھا۔

روس میں سب سے مہلک حملہ 2004 میں بیسلان اسکول کا محاصرہ تھا جو چیچن مسلح گروپ کے ارکان نے کیا تھا جو روس سے چیچنیا کی آزادی کے خواہاں تھے۔ اس محاصرے میں 186 بچوں سمیت 334 افراد ہلاک ہوئے۔لیکن کروکس سٹی ہال کنسرٹ پہ دہشت گردانہ حملے کے حوالہ سے روسی حکام نے نہ صرف یوکرین کو مورد الزام ٹھہرایا بلکہ متعدد بار مغربی ممالک پر ملوث ہونے کا الزام بھی دہرایا۔

اگرچہ امریکی اصرار کرتے ہیں کہ انہوں نے ماسکو کو خاص وارننگ دی تھی کہ اسلامک اسٹیٹ اس مقام پر حملہ کر سکتی ہے تاہم امریکی انتباہ اگر اتنا مفصل تھا، تو اس سے دو دہائیوں کے اندر روس میں ہونے والے دہشت گردانہ حملے کو روکنے میں ناکامی بارے مزید سوالات اٹھتے ہیں لیکن اب بھی روسی سیکورٹی حکام داعش کی طرف سے ذمہ داری کے دعووں کو نظر انداز کرتے ہوئے یوکرین کی طرف سے دہشتگردانہ حملوں کو منظم کرنے میں امریکی اور برطانوی انٹیلی جنس کے ملوث دیکھتے ہیں۔

کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے بدھ کو واشنگٹن پوسٹ کی اس رپورٹ پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا کہ امریکی انٹیلی جنس نے خاص طور پر روس کو خبردار کیا تھا کہ کروکس سٹی ہال دہشت گردوں کا نشانہ بن سکتا ہے۔ روسی سلامتی کونسل کے سیکرٹری نکولائی پیٹروشیف نے بدھ کے روز کروکس سٹی ہال حملے کے لیے یوکرائنی سکیورٹی سروسز کو براہ راست ذمہ دار ٹھہرانے کے علاوہ مغربی مداخلت کا اشارہ بھی دیا۔

ایک دن پہلے، انہوں نے مغربی انٹیلی جنس پر الزام لگایا کہ وہ دہشت گرد گروپوں کو مخالفین پر حملوں کے لیے استعمال کر رہی ہے۔پیٹروشیف نے قازقستان کے شہر آستانہ میں شنگھائی ممالک اجلاس میں کہا کہ ”وہ ہمیں یہ سوچنے پہ مجبور کر رہے ہیں کہ دہشت گردانہ حملہ کیف حکومت نے نہیں بلکہ داعش کی افغان شاخ کے ارکان نے کیا۔ انہوں نے کہا کہ”ماسٹر مائنڈز اور اسپانسرز“ کی شناخت کرنا زیادہ اہم ہے،وہ یوکرائنی سیکیورٹی سروسز پر الزام لگاتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا ،حملے کے بعد سے یوکرائنی سرزمین سے متعدد دھوکہ دہی بموں کی دھمکیاں موصول ہوئیں۔ پیٹروشیف نے کہا ”یہ بھی اشارہ ہے کہ کروکس سٹی ہال پر دہشت گرد حملے کی اطلاع ملتے ہی مغرب نے یوکرین کے اس جرم میں ملوث نہ ہونے پر ازخود اصرار شروع کر دیا“۔

یوکراین پر الزام تراشی کا کھیل اعلیٰ سکیورٹی حکام کی جانب سے نیٹو مخالف بیانات کے دوران سامنے آیا،جو اصرار کرتے ہیں کہ امریکی زیر قیادت اتحاد، روس کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے۔ ان میں سے کئی عہدیدار روس کے جوہری ہتھیاروں کے ممکنہ استعمال بارے بار بار اشارہ کر چکے ہیں۔

نیٹو حکام یوکرین کو اپنے دفاع کے لیے درکار ہتھیاروں کی فراہمی کے حق پر زور دیتے ہیں۔ کروکس سٹی ہال حملے کے بعد سے، روسی حکام نے اس تشدد کو یوکرین جنگ کے حصہ کے طور پر دیکھا اور بمشکل اُس داعش خراسان کا ذکر کیا ، جسے امریکی انٹیلی جنس حکام ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین