Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

تازہ ترین

لگتا ہے فیض آباد دھرنا کمیشن فیض حمید کو بری کرنے کے لیے بنایا گیا، کمیشن 12 مئی اور بعد والے دھرنے کو گول کرگیا، سپریم کورٹ

Published

on

Who is Imran Khan to say that Faiz Hameed should have an open trial, the reaction of security sources

سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنا کمیشن کی رپورٹ پر برہمی کا اظہار کیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ میں سمجھ نہیں پا رہا کس لیول کے ذہن نے یہ رپورٹ تیار کی ہے۔کمیشن کو معلوم ہی نہیں انکی ذمہ داری کیا تھی۔  کمیشن 12 مئی کو اور بعد والے دھرنے کو گول کر گیا۔ کمیشن کو جو کام کیا گیا تھا وہ نہیں کیا گیا ۔۔۔ لگتا ہے فیٖض حمید کو بری کرنے کےلئے یہ سب کرناتھا۔

پیر کے روز چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس عرفان سعادت خان اور جسٹس نعیم اختر اعوان پر مشتمل سپریم کورٹ کے تین رُکنی بینچ نے فیض آباد دھرنا نظرثانی کیس پر سماعت کا آغاز کیا تو کمیشن کی جانب سے اپنی رپورٹ عدالت میں پیش کی گئی۔

سماعت کے دوران کمیشن کے تینوں ممبران میں سے کوئی بھی عدالت میں پیش نہ ہوا اور اٹارنی جنرل کی جانب سے عدالت کو آگاہ کیا گیا کہ کمیشن کے سربراہ اختر علی شاہ کو آج سپریم کورٹ آنے کا کہا گیا تھا تاہم ان کی جانب سے معطلع کیا گیا کہ ان کی طبعیت ناساز ہے چنانچہ وہ عدالت نہیں آ سکتے۔

دوران سماعت کمیشن کی رپورٹ پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے اظہار برہمی کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ بظاہر کمیشن نے یہ رپورٹ سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل (ر) فیض حمید کے بیان کی بنیاد پر تیار کی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ انھیں یہ رپورٹ پڑھ کر مایوسی ہوئی اور بظاہر یہ کمیشن وقت ہی ضائع کرتا رہا ہے۔ انھوں نے استفسار کیا کہ بس آگے بڑھو، ماضی سے سیکھے بغیر کیسے آگے بڑھا جا سکتا ہے؟

انھوں نے ریمارکس دیے کہ کمیشن کہہ رہا ہے جو کر رہے ہیں وہ ذمہ دار نہیں، بلکہ پنجاب حکومت ذمہ دار ہے، کمیشن نے یہ نہیں بتایا کہ حلف کی خلاف ورزی کس نے کی۔

انھوں نے استفسار کیا کہ کمیشن کیسے کہہ سکتا ہے کہ مظاہرین کو پنجاب میں روکنا چاہیے تھا، پرامن احتجاج کرنا ہر شہری کا حق ہے۔

چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ انھیں معلوم نہیں کہ کمیشن کو کس بات کا خوف تھا اور بظاہر ایسا لگتا ہے کہ انکوائری کمیشن کو پنجاب حکومت سے کوئی بغض ہے۔

دوران سماعت جسٹس عرفان سعادت خان نے ریمارکس دیے کہ کمیشن کا سارا فوکس صرف اس بات پر تھا کہ مظاہرین کو پنجاب سے اسلام آباد کیوں آنے دیا گیا، کمیشن نے سارا نزلہ پنجاب حکومت پر گرایا ہے۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کمیشن نے ساری رپورٹ پنجاب حکومت کے خلاف لکھ دی ہے، اس رپورٹ میں سنجیدگی کہیں نظر نہیں آ رہی۔

اس موقع پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ کمیشن کو فریم ورک کی سفارشات کا کہا تھا، مگر وہ نہیں دی گئیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر 2019 والے فیصلے پر عمل کرتے تو شاید نو مئی کے واقعات بھی نہ ہوتے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے فیض آباد دھرنا کمیشن کی رپورٹ پر برہمی کا اظہار ہوئے ریمارکس دیے ہیں کہ ’آؤٹ آف دی وے جا کر اس جنٹلمین کو رپورٹ میں بری کیوں کیا جا رہا ہے؟ بظاہر کمیشن کا مینڈیٹ فیض حمید کو بری کرنا تھا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’کیا خوبصورت اتفاق تھا کہ اتنی نظرِ ثانی درخواستیں دائر ہوئیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’کسی نے نظرِ ثانی کی منظوری دی ہو گی وکیل کیا ہو گا ساری پیپر ٹریل کدھر ہے؟ یہ بہت ہی مایوس کن ہے، کیوں ملک کا وقت ضائع کیا۔ کیا کمیشن نے ٹی ایل پی کی طرف سے کسی کو بلایا؟‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’شاید ٹی ایل پی والے ان کی معاونت کر دیتے۔ ان کو بلاتے ہوئے انھیں ڈر لگ رہا تھا۔ جن سے متعلق انکوائری کر رہے تھے ان کا مؤقف لے لیتے۔

’ان کو بھی نہیں بلایا گیا جن کے پاس سے اسلحہ برآمد ہوا۔ اسلحہ لانے والوں کی نیت تو واضح تھی کہ وہ پرامن مظاہرین نہیں۔‘

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ’یہ پانچویں کلاس کے بچوں کو دینے والی چیز ہے۔ یہ اخبار کا آرٹیکل لگتا ہے کمیشن کو دیا گیا کام یہ نہیں تھا۔

’کوئٹہ کمیشن میں ہم نے بتایا تھا یہ یہ کر لیں۔ آج بھی اٹھا کر پڑھ لیں کمیشن کا کام کیا ہے۔ یہ کمیشن والے تو لگتا ہے اپنے آفس سے باہر نکلے ہی نہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا ’کمیشن 12 مئی کو اور بعد والے دھرنے کو گول کر گیا۔‘

اس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ’گول تو وہ اس ٹی ایل پی والے دھرنے کو بھی کر گئے۔‘

چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ ’کمیشن لکھتاہے آرمی کو ان معاملات سے دور رکھنا چاہیے تو معاہدے پر دستخط کیوں کیے۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین