Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

تازہ ترین

افغانستان میں صحافت مذاق بن کر رہ گئی، صحافیوں کو ہر وقت گرفتاری کے ڈر کا سامنا

Published

on

افغان سرزمین پر صحافت ایک مذاق بن کر رہ گئی۔صحافی برادری کے لیےحقائق تک رسائی کٹھن مرحلہ بن چکا ہے۔اقوام متحدہ  کا کہنا  ہے کہ  صحافیوں کو طالبان قیادت پر تنقیدی مواد شائع کرنے کی صورت میں گرفتاری اور لائسنس منسوخی کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔

انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹ  کےمطابق   افغانستان میں 90 سے زائد اخبارات میں سے صرف 11 فعال رہ گئے ہیں

اقوام متحدہ کے مطا بق افغانستان میں طالبان حکومت کی جانب سے صحافتی تقاضوں کو پامال کیا جا رہا ہے۔

بی بی سی رپورٹ میں  کہا گیا کہ طالبان کی جانب سے افغانستان کی عوام پر اپنے ظلم و بربریت کے خلاف بولنے والے کئی صحافیوں کو گرفتار کر لیا گیا، طالبان کی جانب سے بی بی سی کو مواد نشر نہ کرنے کے حکم کے بعد پروگرامنگ بند کر دی گئی۔

سی بی ایس نیوز  کا کہنا ہے  کہ طالبان کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد سے یو این ایچ سی آر کے تحت کام کرنے والے دو غیر ملکی صحافیوں کو حراست میں لے لیا گیا۔

انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹ نے کہا کہ اگست 2021 سے پہلے افغانستان میں 90 سے زائد اخبارات میں سے صرف 11 فعال رہ گئے ہیں، 2023 میں افغان طالبان نے پاکستانی صحافی، انس ملک کو اغواء کر کے شدید تشدد کا نشانہ بنایا جو طالبان کی حکومت مکمل ہونے کے پہلے سال کی کوریج کر رہا تھا۔

طلوع نیوز کا کہنا  ہے کہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد 270 سے زائد میڈیا تنظیموں نے اپنا کام معطل کر دیا ہے، سال 2022 میں چھ ماہ میں ہی آزادی صحافت کے 75 سے زائد واقعات درج کیے گئے جن میں 33 صحافیوں کی گرفتاریاں اور 42 میڈیا اہلکاروں کو حراساں کرنے کے واقعات شامل ہیں۔

سال 2023 میں افغانستان میں صحافیوں کے خلاف تشدد اور ان کی حراست کے 108 واقعات درج ہوئے، 2023 میں یونسکو نے افغانستان میں متعدد صحافیوں کی ہلاکت پر رپورٹ شائع کی۔

رپورٹ کے مطابق افغانستان میں 50 فیصد سے زائد میڈیا چینلز بند ہو گئے ہیں۔اقوام متحدہ کے مطابق 2021 میں افغانستان ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں 122ویں نمبر پر تھا جو 2023 میں 156ویں نمبر تک پہنچ گیا۔

مارچ 2022 میں وائس آف امریکہ کی نشریات پر قومی پریس قوانین کی خلاف ورزی کے الزام کی مد میں پابندی لگائی گئی۔

اپریل 2023 کے بعد سے خواتین صحافیوں پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی، رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز  نے افغانستان صحافیوں کے لیے دنیا کا خطرناک ترین ملک قرار دے دیا۔

انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹ  کے مطابق ٹی وی چینلز اور ریڈیو اسٹیشنز کی تعداد میں پچاس فیصد سے زائد کی کمی آئی ہے، میڈیا ورکرز کی کل تعداد میں نصف سے زیادہ کمی آئی ہے جبکہ خواتین صحافیوں کے ایک چوتھائی حصے میں سے صرف 15 فیصد باقی رہ گئی ہیں۔

حال ہی میں طالبان نے اسلامی اور قومی اقدار کو نظر انداز کرنے کے الزام پر افغانستان میں دو ٹی وی چینلز، نور ٹی وی اور بریا ٹی وی چینلز کی نشریات کو معطل کر دیا۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین