Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

تازہ ترین

ججز کا خط، قوم کے لیے نادر موقع یا گردِ صحرا؟

Published

on

انتخابات کے بعد ضرورت تو اس امر کی تھی کہ ملک میں سیاسی استحکام پیدا ہوتا لیکن سیاسی اورعدالتی منظرنامے پر گذشتہ ایک ہفتے کے دوران ہونے والے واقعات نے ماحول میں ایک بار پھرغیریقینی کی صورتحال پیدا کردی ہے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججوں کی جانب سے چیف جسٹس آف پاکستان کے نام خط سے شروع ہونے والی کہانی میں ہر گذرتے دن کے ساتھ نیا موڑ آرہا ہے۔

وزیراعظم شہبازشریف کی چیف جسٹس آف پاکستان کے ساتھ  ملاقات کے بعد حکومتی سطح پر اس معاملے کی تحقیقات کے لئے سابق چیف جسٹس تصدق جیلانی کی سربراہی میں ایک کمیشن قائم کیا گیا جو محض چوبیس گھنٹے بعد ہی ختم ہوگیا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججوں کا خط اپنی جگہ ایک بہت بڑا واقعہ ہے۔ اگرچہ اس پر کئی سوال بھی اٹھائے جارہے ہیں مثلا، ان ججوں نے اس خط کے لئے موجودہ وقت کا انتخاب کیوں کیا ؟  عدلیہ پرغیرمرئی دباؤ کی شکایت کے بعد ان ججوں کے سابقہ فیصلوں کو کس نظر سے دیکھا جائے ؟ تحریک انصاف اس معاملے کو ایک فریق کے طور پر کیوں اچھال رہی ہے ؟  اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججوں نے جسٹس ریٹارئرڈ شوکت صدیقی کے معاملہ پر ان کا ساتھ کیوں نہ دیا ؟ اور یہ کہ کیا یہ اسٹیبلشمنٹ کی اندرونی لڑائی کا شاخسانہ تو نہیں ؟

اس طرح کے بے شمار سوال اورجتنے منہ اتنی باتیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس معاملہ نے اسلام آباد میں وزیراعظم شہبازشریف کی نوزائیدہ حکومت کو ایک نئی آزمائش میں ڈال دیا ہے۔ انہیں سمجھ نہیں آرہی ہے کہ وہ اس معاملہ پر کیا پوزیشن لیں۔ کیونکہ ایجنسیز کی عدالتی امور میں مداخلت کی اس بحث کو حتمی طور پر تو حکومت نے ہی سمیٹنا ہے کیونکہ یہ تمام ادارے بالواسطہ یا بلاواسطہ وزیراعظم کے ماتحت ہی آتے ہیں۔

اس صورتحال میں مسلم لیگ نون کے اندر دو گروپ واضح طور پر سامنے آئے ہیں۔ ایک گروپ ایوان اقتدار میں بیٹھے وزیراعظم شہبازشریف اور ان کی کابینہ میں شریک ان کے وزرا ہیں جو اس صورتحال میں دفاعی پوزیشن اختیار کئے ہوئے ہیں کیونکہ چھ ججز نے بالواسطہ طور پر ان کی حکومت کو ہی عدالتی امور میں مداخلت پر مورد الزام ٹھہرایا ہے۔

خاص طور پر وزیردفاع خواجہ آصف،وزیرقانون اعظم نذیرتارڑ، وزیراطلاعات عطا تارڑ سمیت دیگر لوگ روایتی حکومتی طرزعمل اختیار کئے ہوئے ہیں وہ اس معاملے کی تحقیقات کو گذشتہ دہائیوں تک پھیلانے کی بات کرکے اس معاملے کو کنفیوژ کرنا چاہتے ہیں جو عمومی طور پر حکومتوں کی پالیسی ہوتی ہے۔

جبکہ دوسری طرف نون لیگ کے اندر جاتی امرا میں بیٹھے پارٹی قائد میاں نوازشریف اور ان کے ہم خیال پارٹی رہنماؤں کی بات کریں تو مجھے یقین ہے کہ وہ اس صورتحال کا مزہ لے رہے ہوں گے۔

حقیقت یہ ہے کہ وہ بھی یہ چاہتے ہیں کہ اسٹبلشمنٹ کے سیاسی کردار پر بحث کا کوئی سامان ہو۔ خواہ اس کا سبب ان کے سیاسی مخالف ہی کیوں نہ بن رہے ہوں کیونکہ میاں نوازشریف نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ جو حالیہ ڈیل کی وہ ان کے لئے اب تک گناہ بے لذت ہی رہی ہے۔

نون لیگ  کے ساتھ الیکشن میں جو کچھ ہوا وہ اس پر قطعاً خوش نہیں اورانہیں یقین ہے کہ ان کے ساتھ ڈبل گیم ہوا ہے۔ انہیں بیٹی کے لئے پنجاب کی وزارت اعلیٰ دے کر خاموش کرانے کی کوشش کی گئی ہے جبکہ خود ان کی ذات یعنی نوازشریف کو پاکستان کے اقتدار سے بڑی چابکدستی سے الگ کیا گیا ہے۔ سو وہ بھی دل ہی دل میں خوش ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کا کردار کھل کر زیربحث آئے۔

اب اگر حکومت کی دوسری بڑی اتحادی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی کی بات کریں تو وہاں اعلیٰ قیادت اس معاملہ پر پراسرار خاموشی کئے ہوئے ہے۔

ایوان صدر میں بیٹھے صدر آصف زرداری تو ظاہر ہے بطور صدر بیان بازی کرنے کی پوزیشن میں نہیں لیکن پارٹی میں عوامی سیاست کا استعارہ بلاول بھٹو بھی مکمل طور پر خاموش ہیں۔ غالبا وہ یہ سمجھتے ہیں کہ جو کیس چھ ججز نے اب اٹھایا ہے وہ اس سے پہلے ہی بھٹو ریفرنس کی شکل میں چند روز قبل سپریم کورٹ میں یہ کیس ثابت بھی کرچکے اور جیت بھی چکے ہیں۔

دوسرے یہ کہ وہ اس آزمائش میں نون لیگ کو کسی قسم کی سپورٹ فوری طور پر فراہم کرتے نظر نہیں آتے اور وہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ عدلیہ میں مداخلت کے کیس میں نون لیگ کیا پوزیشن لیتی ہے کیونکہ اس کیس کے حوالے سے ایک عوامی رائے بڑی تیزی سے رہی ہے اور حکومت کی طرف سے اس کے برعکس کوئی پوزیشن لینے پر نون لیگ کو ایک  اور عوامی ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔

اس لئے پیپلزپارٹی کسی ایسی کشتی میں سوار نہیں ہوگی جس میں کوئی سوراخ ہونے کا اندیشہ ہو۔

اب اگر تیسرے سیاسی فریق اپوزیشن یعنی تحریک انصاف کی بات کریں تو وہ اس صورتحال کا پورا پورا فائدہ اٹھانے کی کوشش میں ہے۔ پی ٹی آئی کے لیڈرز سپریم کورٹ اور حکومت پر آئے روز دباؤ بڑھا رہے ہیں۔ ان کے دباؤ کے نتیجے میں ہی حکومت کی طرف سے جسٹس تصدق جیلانی کی سربراہی میں بنایا گیا یک رکنی تحقیقاتی کمیشن قائم ہونے کے فوری بعد ہی تحلیل ہوگیا۔

تحریک انصاف کے کی بورڈ وارئیررز نے جسٹس تصدق جیلانی کی وہ بھد اڑائی کہ وہ اس تند وتیز تنقید کا مقابلہ نہ کرسکے اور کمیشن کی سربراہی سے معذرت کرلی۔

یہ پی ٹی آئی کی ایک بڑی کامیابی ہے۔ اب پی ٹی آئی کا دوسرا ہدف اس کیس پر سپریم کورٹ کا فل بنچ بنوانا ہے تاکہ اس معاملے کو طول دے کر زیادہ سے زیادہ سیاسی فائدہ حاصل کیا جائے کیونکہ فل بنچ میں یہ معاملہ جتنا زیادہ زیربحث آئے گا اتنا ہی تحریک انصاف کی قیادت کے خلاف عدالتوں میں زیرسماعت سینکڑوں کیسز کی قانونی، اخلاقی ساکھ کمزور پڑتی جائے گی۔

بدھ کے روز سپریم کورٹ آف پاکستان میں ججز خط کیس کی سماعت بھی بڑی اہم رہی۔اس میں چیف جسٹس آف پاکستان اور اٹارنی جنرل آف پاکستان ایک حوالے سے سیم پیج  پر نظر آئے کہ دونوں حکومت کی طرف سے قائم کردہ تحقیقاتی کمیشن کا دفاع کرتے رہے اور انہوں نے اس یک رکنی کمیشن کے خلاف تنقید اور پروپیگنڈے پر سخت غم و غصے کا اظہار کیا۔

چیف جسٹس نے واضح طور پر اس کمیشن کی اونرشپ لی۔ تنقید کرنےوالوں کو آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ ناقدین جسٹس تصدق جیلانی سے بہتر ساکھ والی شخصیت کی ہی نشاندہی کردیں۔ انہوں نے کہا جس انداز سے جسٹس تصدق جیلانی کو ہدف تنقید بنایا گیا اس صورتحال میں تو کوئی بھی شریف شخص کام نہیں کرسکتا۔

اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی واضح کردیا کہ کسی بھی تنازعے کی تحقیقات کے لئے کمیشن بنانے کا اختیار کابینہ اور پارلیمنٹ کے پاس ہے۔ انہوں نے کیس کی فل کورٹ سماعت کی پی ٹی آئی کی استدعا کو فوری پذیرائی نہیں دی اور کیس کی سماعت رواں ماہ کے آخر تک ملتوی کردی۔

اگر تو ملک میں اداروں کا قبلہ درست کرنا ہے تو یقین مانیں کہ قوم کو یہ ایک نادر موقع ہاتھ آیا ہے جس سے بھرپور فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ ججز خط کے معاملے کی تحقیقات کوئی کمیشن کرے، سپریم کورٹ کا سات رکنی بنچ یا فل کورٹ، اس فورم کو ایک ٹروتھ کمیشن کی شکل دے کر ریاست پاکستان میں پاور پالیٹکس کے تمام سٹیک ہولڈرزکو اس میں طلب کیا جائے۔

ملک میں طویل عرصے سے  یہ بحث جاری ہے کہ ہمارے ہاں ادارے خواہ وہ مقننہ ہو، عدلیہ ہو، انتظامیہ یا پھر فوج، سب اپنے آئینی دائرہ کار سے تجاوز کرتے ہیں۔

اگر اس مجوزہ ٹروتھ کمیشن میں تمام سٹیک ہولڈرز اپنے اپنے حصے کا سچ بول دیں تواس سے ملک ایک نئے دور کا آغاز ہوسکتا ہے۔ لیکن اگر کسی نے اس بحث سے محض وقتی سیاسی فائدہ اٹھانے کے لئے یہ گرد اڑائی ہے تو پھر یہاں کچھ بہتر ہونے والا نہیں۔

امن سکون سے اپنے شب و روز اسی انداز سے گذارتے رہیں جیسے گذر رہے ہیں۔ سب اسی طرح چلتا رہے گا۔ سب کو پرانی تنخواہ پر ہی کام کرنا پڑے گا۔

لاہور سے سینئر صحافی ہیں۔ جنگ،پاکستان، کیپیٹل ٹی وی، جی این این اور سما ٹی وی سمیت ملک کے نامور اخبارات اور ٹی وی چینلز کے لئے سیاسی رپورٹنگ کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ مختلف اخبارات میں ان کے آرٹیکلز باقاعدگی سے شائع ہوتے ہیں جبکہ ٹی وی چینلز پر کرنٹ افئیر کے پروگرامز میں بھی بطور تجزیہ کار ان کی رائے کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین