Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

ٹاپ سٹوریز

مشرف مارشل لا کو قانونی کہنے والے ججوں کا بھی ٹرائل ہونا چاہئے، جسٹس اطہر من اللہ

Published

on

سپریم کورٹ میں پرویزمشرف کی سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت ،سندھ ہائیکورٹ بارکے وکیل رشید اے رضوی نے مارشل لاء کا ذکرچھیڑدیا،جس پرجسٹس اطہرمن اللہ نے ماضی میں نہ جانے کا مشورہ دیا، چیف جسٹس نے ماضی سے سبق سیکھنے کے ریمارکس دئیے توجسٹس اطہرمن اللہ بولے کہ بالکل جائیں ماضی میں، مشرف نےآئین توڑا،اسمبلیاں توڑیں،اسی عدالت نے راستہ دیا، مشرف مارشل لاء کوقانونی کہنے والے ججوں کابھی ٹرائل ہونا چاہیے،ہمیں سچ بولنا چاہیے،چیف جسٹس بولے کہ ہمیں تاریح سے سیکھنا اورسکھانا چاہیے،جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ تاریخ یہ ہے طاقتورکیخلاف کوئی نہیں بولتا کمزورپڑنے پرعاصمہ جیلانی والا فیصلہ آجاتا ہے جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا سزا بھی برقرار رکھیں اور پینشن بھی ملتی رہیں یہ نہیں ہوگا۔

چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں 4 رکنی بینچ پرویزمشرف کی درخواستوں پرسماعت کی لاہورہائیکورٹ فیصلے کیخلاف حامد خان دلائل نے تحریری دلاٸل عدالت میں پیش کیے ۔۔پاکستان بارکونسل کے وکیل ہارون الرشید نے دلائل دئیے تو چیف جسٹس نے تیاری نہ ہونے پرناگواری کا اظہارکیا ۔

سندھ ہائیکورٹ بارکے وکیل رشید اے رضوی نے دلائل میں پرویزمشرف کے مارشل لاء کا ذکرکیا توجسٹس اطہر من اللہ نے روکتے ہوئے کہاکہ رشید رضوی صاحب ماضی میں کب تک جائیں گے؟

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے مجھے جسٹس اطہرمن اللہ کا احترام ہے مگرہمیں اب ماضی میں جانا چاہیے۔

 جسٹس اطہرمن اللہ نے کہاکہ بالکل جائیں پھراسی مشرف نے12اکتوبرکوبھی آئین توڑا،اسمبلیاں توڑیں، بارہ اکتوبرکے اقدام کواسی عدالت نے راستہ دیا، مشرف مارشل لاء کوقانونی کہنے والے ججوں کابھی ٹرائل ہونا چاہیے۔

جسٹس اطہرمن اللہ نے مزیدکہاکہ کاروائی صرف تین نومبرکے اقدام پرکیوں کی گئی؟ تین نومبر کوصرف ججوں پرحملہ ہونے پرکارروائی ہوگی توفئیرٹرائل کاسوال اٹھےگا،کیا ججوں پرحملہ اسمبلیاں توڑنے آئین معطل کرنے سے زیادہ سنگین معاملہ تھا؟ہمیں سچ بولنا چاہیے،اگرکسی فیصلے کوختم ہونا ہے تواسے ہونا چاہیے، جس نےمارشل لاء کوراستہ دیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے جوماضی میں ہوچکا اسے میں ختم نہیں کرسکتا، قوم بننا ہے توماضی کودیکھ کرمستقبل کو ٹھیک کرنا ہے سزا اورجزا اوپربھی جائے گی ،وکیل اکربتائیں ناکہ آئین توڑنے والے ججوں کی تصویریں یہاں کیوں لگی ہیں؟ جج ہی یہاں بیٹھ کرکیوں پوائنٹ آوٹ کریں،میڈیا بھی ذمہ دارہے ان کا بھی احتساب ہوناچاہیے،بتائیں ناکتنے صحافی مارشل لاء کےحامی کتنے خلاف تھے؟ہمیں تاریح سے سیکھنا چاہیے بچوں کوبھی سکھانا چاہیے۔

جسٹس اطہر من اللہ  نے کہاکہ تاریخ پھریہ ہے کہ جب کوئی مضبوط ہوتا ہے اس کیخلاف کوئی نہیں بولتا، جب طاقتورکمزورپڑھ جاتا ہے اس کے بعد عاصمہ جیلانی والا فیصلہ آجاتا ہے۔

وکیل رشید اے رضوی نے غیرآئینی اقدامات کا جواز پیدا کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا موقف اپناتے ہوئے دلائل مکمل کیے۔

چیف جسٹس نے پوچھاکہ وفاق نے لاہورہائیکورٹ کی کارروائی پراعتراض نہیں کیا،اس وقت حکومت کس کی تھی؟

حامد خان نے بتایاکہ پی ٹی آئی کی حکومت تھی۔۔چیف جسٹس نے کہاکہ اب ہم آپ کوشرمندہ نہیں کرنا چاہتے، آپ اپنے گھرسے ہوئی غلط بات کوغلط کہنے کھڑے ہیں۔

جسٹس اطہرمن اللہ نے پوچھا کہ پرویزمشرف کیخلاف کارروائی شروع ہونے پر اسوقت کی حکومت بھی کارروائی نہیں چاہتی تھی، اس وقت کس کی حکومت تھی؟

حامد خان بولے مسلم لیگ ن کی حکومت تھی ۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ ہم سزا بھی برقراررکھیں اورسب کوپینشن اورمراعات بھی ملتی رہیں یہ نہیں ہو گا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل کنفیوز لگ رہے ہیں انہیں شاید وہ سیم پیج مل نہیں رہا ، حکم نامے میں سوال کیا گیاکہ ملزم کی وفات پرکیا اپیل غیر موثرنہیں ہوئی؟ کیا سزا برقرار رہنے پر مشرف کی فیملی کو مراعات دینی چاہیں یا نہیں؟ عدالت نے سماعت 10 جنوری تک ملتوی کردی۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین