Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

تازہ ترین

ججز خط پر عدلیہ کا ردعمل اور ذمہ داری

Published

on

اسلام آباد کے چھ ججز کے خط پر اچانک ایک نیا موڑ آگیا ہے. ایک طرف چیف جسٹس پاکستان جسٹس فائز عیسی نے اس معاملے کا از خود نوٹس لے لیا اور دوسری طرف یک رکنی انکوائری کمیشن کیلئے نامزد سابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس ریٹائرڈ تصدق حسین جیلانی نے کمیشن کا حصہ بنے سے معذرت کرلی۔

حکومت نے ججز کے خط کے معاملے پر چیف جسٹس پاکستان جسٹس فائز عیسی کی بظاہر رضا مندی کے بعد ہی کمیشن تشکیل دیا تھا اور حکومت کیساتھ ہمدردی رکھنے والی وکلا تنظیموں، جن میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن سرفہرست تھی، نے کمیشن کی تشکیل کو درست اور خوش آئندہ اقدام قرار دیا تھا. ان کو نئی پیش رفت سے پسپائی ہوئی ہے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کے خط پر تین سو وکلا نے ایک خط کے ذریعے  مطالبہ کیا تھا کہ خط میں الزامات کی تحقیقات کیلئے کمیشن کے ذریعے کرنے کے بجائے  سپریم کورٹ خود اس کا نوٹس لے اور کارروائی کا آغاز کرے۔ تین سو وکلا  میں کمیشن کے سربراہ اور سابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس ریٹائرڈ تصدق حسین جیلانی کے بیٹے بھی شامل ہیں جو کمیشن کی تشکیل کے حق میں نہیں ہیں۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے 8 میں سے 6  ججز نے چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں قائم  سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھا ہے۔ یہ خط ملکی تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا خط ہے جس میں انتظامیہ کیساتھ ساتھ ایجنسیوں کی عدالتی معاملات میں مداخلت کا الزام لگایا گیا ہے۔ اس خط نے ایک طوفان کھڑا کر دیا ہے۔ یہ خط عین اُس فیصلے کے بعد سامنے آیا جب سپریم کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو عہدے سے ہٹانے کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا۔ جسٹس شوکت صدیقی بھی ایجنسیوں کی مداخلت پر بیان دینے کی وجہ سے عہدے ہٹائے گئے تھے۔

اس خط کے بعد فل کورٹ کا اجلاس ہوا جو کسی حتمی فیصلہ کے بغیر ہی ختم ہوا۔ اس اجلاس کے اگلے روز ہی چیف جسٹس پاکستان نے وزیر اعظم سے ملاقات کی۔ جیسے ہی ملاقات ختم ہوئی تو اس کے کچھ دیر بعد پریس کانفرنس میں وزیر قانون نے خط کے الزامات کی تحقیقات کیلئے کمیشن بنانے کا اعلان کیا۔

سبھی جانتے ہیں کہ قیام پاکستان سے آج تک کئی اہم واقعات پر انکوائری کمیشن بنے لیکن ان سب سے کچھ حاصل نہیں ہوا۔ چاہیے ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کی ہلاکت، ملک ٹوٹنے  اور ابیٹ آباد کی تحقیقات کا معاملہ ہو۔ عوام آج بھی کمیشن کی چھان بین کے نتائج کے انتظار میں ہیں کہ انہیں بھی ان تحقیقات کے بارے میں علم ہو۔  ان تمام کمیشنز کی چھان بین مکمل ہونے کے بعد آج تک اصل محرکات ایک راز ہی ہیں اور لگتا ہے کہ زار ہی رہیں گے۔

عدلیہ کی آزادی اور اس کے بارے میں معاملات پر ہمیشہ بات ہوتی رہی ہے۔ نئے چیف جسٹس پاکستان جسٹس فائز عیسی کے عہدہ سنبھالنے کے بعد یہ کہا گیا کہ عدلیہ کی آزادی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوگا۔ سپریم کورٹ نے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی پر دائر ریفرنس پر فیصلہ دیا کہ ٹرائل میں شفافیت نہیں تھی جو اس بات کا ثبوت ہے کہ عدلیہ پر کہیں نہ کہیں سے دباؤ تھا۔ اسی طرح کا فیصلہ جسٹس ریٹائرڈ شوکت عزیز صدیقی کی درخواست پر بھی آیا۔ اب اسلام آباد کے چھ ججز کے خط  میں جو الزامات لگائے گئے ہیں وہ سنگین نوعیت ہیں۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کا خط لکھنے کا مقصد یہ تھا کہ چیف جسٹس پاکستان خود اس معاملے پر کارروائی کریں کیونکہ ججز نے یہ خط اپنے ادارے کے سربراہ کو لکھا، عدلیہ کے سربراہ کی طرف سے جو رد عمل سامنے آیا ہے وہ کمزور لگ رہا ہے۔ چیف جسٹس پاکستان نے اس معاملے پر خود چھان بین کرنے کے بجائے پہلے پہل اسے حکومت کے سپرد کیا۔

ججز کے اس خط کے بعد سب نظریں چیف جسٹس پاکستان جسٹس فائز عیسی پر لگیں تھیں کہ وہ اس پر کیا کارروائی کرتے ہیں لیکن اُن کا رد عمل غیر متوقع طور پر حیران کن رہا ہے کیونکہ اس معاملے کمیشن کی تشکیل کے بارے میں کسی نے نہیں سوچا تھا اور یہ ہی وجہ ہے کہ تین سو وکلا نے ایک دوسرے خط کے ذریعے سپریم کورٹ سے آئین کے آرٹیکل 184 تین کے تحت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔  یہ مطالبہ کرنے والوں کو یہ بھی تشویش ہے کہ کمیشن کی چھان بین مکمل ہونے پر یہ بھی حکومت کا اختیار ہے کہ وہ اس رپورٹ کو شائع کرتی یا نہیں۔ ماضی میں تو حکومت کا یہ ہی موقف رہا ہے کہ اس طرح تحقیقات پبلک کرنے کی ضرورت ہوتی کیونکہ حکومت اپنی معلومات کیلئے کمیشن کے ذریعے تحقیقات کراتی ہے تاکہ وہ خود حقائق جان سکیں۔

یہاں یہ سوال بھی اہم تھا کہ سپریم کورٹ خود اس طرح کی چھان بین سے کیوں پیچھے ہٹ رہی تھی اور یہ معاملہ کیوں حکومت کے سپرد کیا گیا ؟

کمیشن اور سپریم کورٹ کی کارروائی میں قانونی اعتبار سے بہت فرق ہوتا ہے. کمیشن کسی بھی ذمہ دار کیخلاف کارروائی کرنے کا اختیار نہیں رکھتی بلکہ اپنی سفارشات مرتب کرتی ہے۔ اس کے برعکس سپریم کورٹ سزا دینے کی  مجاز ہوتی ہے اور حکومت کی طرف سے عدالتی فیصلے پر عمل نہ ہونے پر بھی کارروائی کرسکتی ہے۔

سابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس ریٹائرڈ تصدق حسین جیلانی نے کمیشن کی سربراہی قبول کرنے معذوری کیلئے جو چٹھی لکھی اس میں بجا طور نشاندہی کی کہ چھ ججز نے سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھا ہے اور اس پر عدالت خود کارروائی کرے یہ ہی مناسب ہے۔

جسٹس ریٹائرڈ تصدق حسین جیلانی نے کمیشن کے ٹی او آرز پر اعتراض اٹھایا اور واضح کیا کہ وہ کمیشن سے مطابقت نہیں رکھتے۔ سابق چیف جسٹس پاکستان کے کمیشن کا حصہ بننے اور اس پر اٹھائے گئے اعتراض کے بعد کمیشن کی تشکیل کا کوئی جواز باقی نہیں رہا۔

ماہرین قانون کی یہ تشویش بالکل درست تھی  سپریم کورٹ نے وہ کردار ادا نہیں کیا جس کی اس سے امید تھی تاہم اب از خود نوٹس لینے کے بعد سپریم کورٹ خود اس کا جائزہ لے گی۔ سپریم کورٹ کا سات رکنی بنچ اس معاملے پر کارروائی شروع کرے گا اور اب حکومت کو بھی جواب دینا ہوگا؟ بلکہ سپریم کورٹ جو فیصلہ دے گی اس پر من و عن عمل درآمد کی پابند ہوگی۔

وکلا کی اکثریت پہلے ہی اس بات پرزور دے رہی تھی کمیشن کی بجائے سپریم کورٹ کو آگے بڑھ کر اس سارے معاملے کا خود جائزہ لینا چاہیے۔ وکلا کی یہ دلیل ٹھوس اور جاندار ہے کہ یہ بوجھ عدلیہ کو خود ہی اٹھانا چاہئے اور اسے یہ ذمہ داری کسی اور کے سپرد نہیں کرنی چاہیے۔

عدلیہ کا کام شہریوں کو نہ صرف انصاف دینا ہے بلکہ ان کے حقوق کا تحفظ بھی  اس کے فرائض میں شامل ہے۔  اگر سپریم کورٹ اپنے ججر کو انصاف نہیں دے گی تو وہ انصاف کیلئے کس فورم سے رجوع کریں گے؟ اس لیے سپریم کورٹ اور اس کے سربراہ کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ سب سے پہلے اپنے ادارے کے ارکان کو انصاف دے اور ان کے حقوق کا تحفظ کرے تاکہ وہ کسی دباو کے تحت انصاف کرے۔

خدا کا شکر ہے کہ سپریم کورٹ نے ججز کے خط کے معاملے پر از خود نوٹس لے لیا. سپریم کورٹ کے از خود لینے پر یہ ضرور کہا جا سکتا ہے “دیر آید درست آید”

کہتے ہیں کہ انصاف وہی ہے  جو ہوتا نظر دکھائی دے، سپریم کورٹ سے یہ بھی امید کی جاسکتی ہے کہ ججز کے خط کے معاملے پر عدالت کارروائی کو ٹی وی چینلز پر نشر کیا جائے گا۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین