Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

کالم

عشق اور عقل (7)

Published

on

  جس طرح رومی نے عشق کو مکمل حقیقت کے طور پہ پیش کیا اسی طرح برہمن بھی، جو اپنے خدا برہما کی نسبت سے برہمن کہلاتے ہیں ، لفظ برہما کو کسی شخصیت کے لئے نہیں بلکہ کامل حقیقت کے لئے استعمال کرتے ہیں۔

برہمنوں کا یہ عقیدہ ہے کہ صرف برہما ہی لامحدود حقیقت ہے،انسانوں کی علیحدگی فریب ہے(وحدت الوجود) جب آپ یہ محسوس کریں کہ آپکی شخصیت پگھل رہی ہے اور آپ بحر وجود میں مطمئن ہو کر تیر رہے ہیں اور اس جذب کے علاوہ ہر چیز آپکو حقیر معلوم ہو،تب آپ کو معلوم ہو گا کہ مذہب کیا ہے اور خدا کیا ہے،آپ خود خدا کا جُز بن جائیں گے“ ۔

صوفیا کے اسی گروہ نے تخّیلات کی ایسی پیچیدہ دنیا تخلیق کی جس میں شریعت اور نبوت کے ظاہری عوامل سے قطع نظر کرکے رب تعالٰی سے براہ راست تعلق کا احساس پیدا کرنے کے شوق میں اپنی ذات سمیت ہر ظاہری و مخفی حقیقت کی نفی کر بیٹھے ،جس طرح مولانا رومیؒ تیسویں اصول میں فرماتے ہیں کہ ”صوفی تو خود اپنے نفس سے معدوم ہے، چنانچہ وہ کیسے کسی کو اپنا دشمن یا مخالف سمجھے جب وہاں صرف اور صرف ایک ہی واحد ذات کی جلوہ نمائی ہے؟“پھر 32 ویں اصول میں یہ کہہ کر کہ ” امام، پادری، ربّی اور اخلاقی و مذہبی قائدین میں سے کوئی بھی رب اور تمہارے بیچ حائل نہیں ہونا چاہئیے ،حتیٰ کہ تمہارا ایمان اور تمہارا روحانی مرشد بھی نہیں“ ایمانیات،عقائد،سلاسل علم اور الوہیت کے پورے نظام کو اجاڑ کے رکھ دیا۔حتیٰ کہ ان صوفیا کرامؒ کے ہاں خدا کا تصور بھی حقیقی نہیں بلکہ علامتی نظر آتا ہے۔ وہ اپنی روح کو خدا کا جُز سمجھ کر پوری کائنات کو اس کے گرد طواف دینے کے متمنی ہونے کی کفیتِ ذہنی میں محو رہتے ہیں۔

یہ تخیلات کی ایسی جولانی ہے جسے کوئی پہچان سکتا ہے نہ اس کی اصابت کو جانچنے کا کوئی اصولی،علمی یا شرعی پیمانہ موجود ہے، جیسے ہم ایمان اور شریعت کو قرآن و سنت کے مستند پیمانوں پہ جانچ لیتے ہیں لیکن رومیؒ اپنی بیباک اور ضعیف عقل،عمیق و تاریک وجدان اور حواس کے بے نظم فیصلوں سے مدد لیکر تخیلات کی ایسی راہیں تراش لیتے ہیں جہاں جذبات، احساسات اور کیفیات کے علاوہ کوئی سنگ میل ملتا ہے نہ آسمانی ہدایت کا چراغِ راہ میسر آتا ہے۔

چالیس چراغ عشق ہمیں یہ نہیں بتاتے کہ عشق بجائے خود ”شے“ ہے یا ”لا شے“ ، اگر یہ محض کفیت اور حالت ہے تو پھر یہ کبھی صراط مستقیم نہیں پا سکتی کیونکہ سیدھی راہ کے لئے عقلی مشاہدہ کی قوت کا ہونا لازمی ہے،عشق اگر جذبہ و جنوں ہے تو پھر یہ خیر و شر کا ادرک نہیں کر سکتا،یہ اضطراب عقل اور فساد روح کی ایسی گوناں گونی ہے جو کبھی کسی واحد حقیقت سے منسلک رہ سکتی ہے نہ کسی ایک پیغمبرؑ کی پیروی پہ قانع ہو گی۔

رومیؒ نے اپنے حسن کلام اور زور بیاں سے جس عشق کی لافانیت سے بھی ماورا قرار دیا، اس میں دل و دماغ کی تقسیم کے مابین واقع خط امتیاز پہ وہ ایک قسم کا لامکاں فرض کرکے وہاں ایسے درجات سلوک متعین کر لیتا ہے،جنہیں نہ دل محسوس کرسکتا ہے نہ عقل شناخت کر سکے گی،اسی مقام پہ بیٹھ کر وہ زندگی کے موجودات اور موت کے تباہ کاریوں کا استرداد کرتے ہیں،انہی عجائبات کو مولانا رومی 38 ویں اصول میں بیان کرتے ہوئے فرمایا”ہر لمحہ ، ہر آن ، اورہر سانس کے ساتھ ہمیں اپنی تجدید کرتے رہنا چاہئیے،نیا جنم لیتے رہنا چاہئیے اور نیا جنم لینے کیلئے ایک ہی طریقہ ہے۔موت سے پہلے مرجانا“۔

یوں مولانا رومیؒ انسان کو خیر آمیز فریب سے ہمکنار کرکے قسمت پرستانہ فلسفہ حیات کا غلام بننے کی ترغیب دیتے ہیں،وہ ایک قسم کی پُر ہجوم تنہائی کے خُوگر اور حکمت و تدبیر سے انحراف کی ایسی کفیت کے قائل ہیں، یعنی مرض اپنا علاج خود کرے، وہ دنیا کی کسی چیز کو حقیقی نہیں سمجھتا، حالانکہ زندگی کے مقاصد کے لئے اتنا کافی ہے کہ ہم ان مشاہدات کو حقیقی سمجھیں جن کے متعلق مختلف لوگ(ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر) ایک جیسی شہادت دیں،گویا حقیقت اجتماعی طور پہ مربوط احساس ہے کیونکہ یہی اجتماعی دانش ایسی متغیر حقیقت ہے،جس نے کائنات کو مسخرکر لیا اور موت دراصل اسی حقیقت کی تصدیق کرتی ہے۔

زندگی اگر اس دنیا کی حقیقی بنیاد نہ ہوتی تو محمدﷺ جیسا انسان کامل وجود میں نہ آتا ،جب ہم زندگی کو فریب اور خواب کہتے ہیں تو لاشعوری طور پہ اس عظیم کارخانہ قدرت کو بیکار سمجھنے کا اعتراف کرتے ہیں جسے حقیقتِ ابدی(اللہ) نے وجود بخشا لیکن صوفی صرف اپنے مفروضوں کی تصدیق اور اپنی امیدوں کی تسکین پہ قناعت کرتے ہیں۔

علی ہذالقیاس ، جس طرح خدا لافانی ہے اسی طرح اسکی تخیلق کردہ روح بھی ابدی ہو گی، شاید اسی لئے خالق کائنات نے صرف انسان کو عقل جیسی نعمت سے نوازا تاکہ کوئی اسی کی حکمت کا ناقد اور اسکی قدرت کی شعوری ثناءکرنے والا ہو ۔گویا کائنات کا خالق خدا اور اس کائنات کا شاہد صرف عقل ہے۔اسی لئے ہر نبیؑ نے طاقت کی بجائے صداقت کی جنت میں رہنا پسند کیا کیونکہ صداقت دھڑے بندی نہیں کرتی اور اس لئے بھی ضروری ہے کہ انسان معاشرے کے جنگل میں راہ بھٹک نہ جائے ۔لاریب ،سچ یہ ہے کہ رومیؒ کا تخیل اور مشاہدہ بیمثال ہے لیکن اس کے ہاں کوئی متعین نظام فکر نہیں جس میں اسکے اپنے اور بنی نوع انسان کی زندگی کا کوئی مقصد شامل ہو،اس لئے وہ تحقیق سے زیادہ تکلم کو پسند کرتا ہے ،اسکی غایت یہ نہیں کہ سننے والے کو معقول کرے بلکہ یہ ہے کہ عوام  (مریدین) کے تخیل پہ اسکی گرفت مضبوط ہو۔

بادی النظری میں یہی لگتا ہے کہ چالیس چراغ عشق کے تمام مفروضے ماوراء عقل اور محال ہیں،جنہیں دائرہ ادارک میں لا کر کسی عملی نمونہ میں ڈھالنا ناممکن ہے۔ یہ فلسفیانہ میتھالوجی کی دل آویز تمثیل ضرور ہے جو روح میں اضطراب اور ذہنی ابہام کو بڑھاتی ہے۔جس طرح نطشے نے فوق الانسان کے ہاتھوں سب سے بڑے دیوتا کو قتل کرا کے طاقت کو خیر برترین کا مقام عطا کیا، اسی طرح رومیؒ نے عشق کو بجائے خود مطلوب و مقصود بنا کر شریعت و سنت کو لاتعلق کر دیا۔اگرچہ اقبالؒ کے ہاں بھی نطشے اور رومی کے وظائف ذہنی کی تکرار ملتی ہے لیکن اس سب کے باوجود اقبالؒ نے خدا کو فراموش کیا نہ دامن رسول عربیﷺ کو چھوڑا، فرمایا،

                 خودی کا سر نہاں لاالہ اللہ/ خودہے تیغ فساں لاالہ اللہ، اور

          بمصطفے برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست/ اگر بہ او نہ رسیدی تمام بولہبی است۔

کہہ کر اپنی فکری زندگی کو معنی عطا کر دیئے بلکہ اقبالؒ نے جس بے ریا انکساری کے ساتھ،

                    ” دو غنی از ہر دو عالم من فقیر/

                     روز محشر عذر ہائے من پذیر/

                     ور حسابم رو تو بینی ناگزیر/

                     از نگاہ مصطفے پنہاں بگیر“۔

 کہہ کر حضورﷺ کے قدموں پہ اپنے عجز دانش کا جو ہدیہ نچھاور کیا اس نے اقبالؒ کو نطشے اور رومیؒ سے بلندتر کر دیا۔بلاشبہ جس مکمل زاویہ نگاہ کی صوفی فلسفہِ تصوف میں جستجو کرتے ہیں اسی کے حصول کی تگ و دو میں وہ اپنے تجریدی خیالات کے پھندوں اور غیرمتعلق راہوں سے بچ کر نہیں نکل سکتے  تاہم ذرا سی کسرِ نفسی اور تھوڑی سی دیانت ہمیں اس بات کا یقین دلانے کے لئے کافی ہے کہ زندگی اور کائنات کا تنوّع اور بوقلیمونی ہمارے محدود اذہان کے احاطہ سے باہر ہے۔

ختم شد

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین