Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

کالم

کاکڑ کے چناؤ سے علوی کی صدارت کا کیا تعلق ہے؟

Published

on

انوارالحق کاکڑ کا نام نگران وزیراعظم کے لئے فائنل ہوا تو اسلام آباد سے ایک انتہائی باخبر دوست نے بتایا کہ صادق سنجرانی کا نام بہت سنجیدگی سے سامنے آیا تھا لیکن اس دوران بڑی تیزی سے سیاسی پیشرفت ایسی ہوئی کہ طاقتور حلقوں کو بھی مہرے بڑھانے اور پیچھے ہٹانے پر مجبور ہونا پڑا، یوں صادق سنجرانی کی بجائے انوار کاکڑ نگران وزیراعظم بن گئے۔

ملکی سیاست پر رپورٹنگ کرتے تین دہائیاں ہو چلیں، مجھے اندزہ ہوا کہ کوئی بڑی خبر ہے اور پردے کے پیچھے چلنے والا کھیل اب مزید سنسنی خیز ہونے کو ہے، میں نے جھٹ پوچھا کہ وہ فیصلہ کیا ہے ؟  اس پر اس باخبر دوست نے بتایا کہ صدر عارف علوی کو 9 ستمبر کو ان کی ریٹائرمنٹ کے دن گھر بھیجنے کا فیصلہ ہوچکا ہے۔

باخبر دوست نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا اگرچہ آئینی طور پر صدر اپنی  ریٹائرمنٹ کے بعد بھی نئے صدر کے انتخاب تک عہدے پر برقرار رہ سکتے ہیں لیکن ڈاکٹر علوی کو اب طاقتور حلقے مزید ایوان صدر میں برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ اس لیے مدت صدارت پوری ہونے پر انہیں گھر بھیج دیا جائے گا، صدر کی عدم موجودگی میں چیئرمین سینیٹ آئینی طور پر قائم مقام صدر ہوتے ہیں اور صادق سنجرانی کو اسی مقصد کے تحت نئے منظر نامے کے لیے سنبھال کر رکھ لیا گیا یے۔

اب جب صدر نے آفیشل سیکرٹری ایکٹ ترمیمی بل 2023 اور آرمی ایکٹ ترمیمی بل 2023 کے حوالے سے ٹویٹ کرکے واضح کیا کہ ان کا ان قوانین سے کوئی لینا دینا نہیں بلکہ ان کے سٹاف نے ہدایات کے برعکس ان بلوں کو ایوان صدر میں روکے رکھا، اس حکم عدولی کے نتیجے میں دس روز گزرنے کے بعد حکومت کو ان بلوں کو قانون کا درجہ دینے کا موقع مل گیا۔

صدر کے ٹویٹ کی دو مختلف تشریحات کی جارہی ہیں۔ ایک تو یہ کہ صدر اس قانون سازی میں برابر کے شریک تھے۔ انہیں کہیں سے اشارہ ہوا۔ انہوں نے خاموشی اختیار کئے رکھی اور دس دن گذرنے دئیے تاکہ وہ اپنا دامن بھی صاف رکھیں اور قانون بننے کا عمل بھی خاموشی سے مکمل ہوجائے۔

صدر کا ان قوانین سے لاتعلق دکھنا اس لیے بھی ضروری تھاکہ چئیرمین تحریک انصاف عمران خان براہ راست اس قانون کی زد میں آرہے ہیں۔ یہ قانون بننے پر صدر کے حوالے سے پارٹی میں شدید ردعمل آیا کہ قومی اسمبلی کی عدم موجودگی میں صدر کے لئے اس قانون کا راستہ روکنا انتہائی آسان تھا۔ اب جبکہ صدر کی مدت بھی پوری ہورہی ہے تو صدر نے واپس اپنی پارٹی میں جانا ہے،  اس سے پہلے صدر نے ٹویٹ کے ذریعے خود کو اس معاملہ سے الگ کرکے خود پر آنے والے دباؤ کو کم کرنے کی کوشش کی ہے۔

دوسری تشریح کے مطابق صدر علوی کی ٹویٹ اور طاقتوروں کے مبینہ منصوبے کے تانے بانے باہم ملتے ہیں۔

صدرعلوی کے عہدے کی آئینی مدت 9 ستمبر کو ختم ہورہی ہے لیکن نئے صدر کے انتخاب کے لئے اس وقت صدارتی الیکٹورل کالج یعنی قومی اور صوبائی اسمبلیاں موجود نہیں۔ یہ ایک غیرمعمولی صورتحال ہے جس میں آئین کے آرٹیکل 44(1) کے تحت صدر مدت عہدہ ختم ہونے کے باوجود نئے صدر کے انتخاب تک اپنے عہدے پر موجود رہیں گے۔ یعنی صدر عارف علوی ریٹائر ہوکر بھی ریٹائر نہیں ہوں گے۔ یہ صورتحال اسٹبلشمنٹ کے لئے کسی صورت پسندیدہ نہیں۔ نگران حکومت کی تشکیل کے عمل میں جو کچھ ہوا اس سے تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے اسٹبلشمنٹ نے اقتدار کے ایوانوں کو بڑے طریقے سے پی ڈی ایم سے خالی کروایا ہے، یعنی شہبازشریف،آصف زرداری،فضل الرحمان، ایم کیو ایم وغیرہ سے جان چھڑائی گئی ہے تو پھر عمران خان کی باقیات ایوان صدر میں کیسے براجمان رہ سکتی ہیں؟

ذرائع کا کہنا ہے کہ صدر پر واضح کردیا گیا ہے کہ 9 ستمبر کے بعد وہ خود ہی ایوان صدر چھوڑ جائیں۔ اگر صدر خود ہی (بظاہر) اپنی مرضی سے گھر چلے جائیں تو ایسی صورت میں چئیرمین سینیٹ ان کی جگہ قائم مقام صدر مملکت بن جائیں گے جبکہ ڈپٹی چئیرمین قائم مقام چئیرمین سینیٹ کا عہدہ سنبھال سکتے ہیں۔ اگر صادق سنجرانی کو نگران وزیراعظم بنایا جاتا تو انہیں سینیٹ سے استعفا دینا پڑتا، اس صورت میں نئے چئیرمین سینیٹ کا انتخاب بھی لازم ہوجاتا، موجودہ حالات میں طاقتور حلقے کوئی غیرضروری رسک نہیں لینا چاہتے۔

موجودہ حالات میں پی ڈی ایم کی جماعتیں رضا ربانی جیسی کسی شخصیت کو چئیرمین سینیٹ منتخب کروادیں تو پھر لینے کے دینے پڑ سکتے ہیں۔ ان ممکنات کو سامنے رکھتے ہوئے صادق سنجرانی کی جگہ انوار الحق کاکڑ نگران وزیراعظم کے لئے سب سے موزوں شخصیت ٹھہرے۔

اگر اس تھیوری کو مان لیا جائے تو صدر کے ٹویٹ کی سمجھ آتی ہے کہ وہ نہ صرف اپنے معاملے میں اسٹبلشمنٹ کے سامنے مزاحمت کررہے ہیں بلکہ اپنے پارٹی قائد کو سائفر کیس سے بچانے کے لئے انہوں نے بھرپور جوابی وار کیا ہے جس میں انہوں نے اس قانون کی بنیاد کو ہی ہلا کر رکھ دیا ہے جس کے ذریعے عمران خان کا ٹرائل کیا جائے گا۔

صدر کے ٹویٹ کو ان کی بے بسی، لاچاری اور نااہلی سے تعبیر کیا جارہا ہے۔ لیکن انہوں نے گہری چال چل دی ہے۔ اگر سپریم کورٹ نے بھی اس معاملے پر نوٹس لے لیا تو پھر صدر کے ٹویٹ کی اہمیت کھل کر سامنے آجائیگی۔ بہرحال آئندہ تین ہفتے صدرعلوی، سابق وزیراعظم عمران خان کے مستقبل اور آئندہ عام انتخابات کے حوالے سے انتہائی اہم ہی نہیں بلکہ فیصلہ کن ہوسکتے ہیں۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین