ٹاپ سٹوریز
9 مئی: فوجی عدالت موت یا 14 سال کی سزا نہیں دے گی،اٹارنی جنرل، مارشل لا لگا تو مداخلت کریں گے، چیف جسٹس
چیف جسٹس سپریم کورٹ عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ اگر ملک میں مارشل لا لگا تو ہم مداخلت کریں گے۔
فوجی عدالتوں کیخلاف درخواستوں پر سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 6 رکنی لارجر بنچ نے کی، بنچ میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر نقوی، جسٹس عائشہ ملک شامل ہیں۔
سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ نے مجھے ہدایات دی تھیں، میں نے 9 مئی کے پیچھے منظم منصوبے کی بات کی تھی، میں نے تصاویر بھی عدالت میں پیش کی تھیں،ہم بہت محتاط ہیں کہ کس کیخلاف فوجی عدالت میں مقدمہ چلنا ہے، 102 افراد کیخلاف فوجی عدالت میں مقدمہ چلانے کیلئے بہت احتیاط برتی گئی ہے، 9 مئی جیسا واقعہ ملکی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں ہوا، عدالت میں دکھائےگئےوڈیو کلپس سے ظاہرہے کہ 9 مئی واقعات میں بہت سے افراد شامل تھے، بڑی تعداد ہونے کے باوجود احتیاط کے ساتھ 102 افراد کو کورٹ مارشل کیلئے منتخب کیا گیا،9 مئی کا واقعہ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا ہے۔
جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے استفسار کیا کہ کس کا ٹرائل ملٹری کورٹس میں ہوگا کس کا نہیں یہ کیسے طے کیا گیا؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ میانوالی میں ایئرکرافٹ پر حملہ ہوا ایسا آرڈیننس فیکٹری یا کسی اور جگہ بھی ہو سکتا تھا،9 مئی جیسے واقعات کو مستقبل میں روکنا ہے،سول جرائم اور سویلنز کی جانب سے کئے گئے جرائم میں فرق ہے، سیکشن 2 (1) ڈی کے تحت ہونے والے جرائم کے ملٹری کورٹس میں ٹرائل ہوں گے، مجھ سے شفاف ٹرائل کی بات کی گئی تھی، ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کیس فیصلے میں ایک فرق ہے، اکیسویں ترمیم کے بعد صوتحال تبدیل ہوئی۔
جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کسی فوجی کا جھگڑا کسی سویلین کے ساتھ ہو تو ٹرائل کیسے ہوگا؟قانون بالکل واضح ہونا چاہیے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ سویلین پر آرمی ایکٹ کے اطلاق کیلئے اکیسویں ترمیم کی گئی تھی، سویلین پر آرمی ایکٹ کے اطلاق کیلئے شرائط رکھی گئی ہیں،اکیسویں آئینی ترمیم کے تحت قائم کردہ فوجی عدالتیں مخصوص وقت کیلئے تھیں۔
جسٹس یحیٰ آفریدی نے کہا کہ آپ جیسے دلائل دے رہے ہیں لگتا ہے اپنی ہی کہی ہوئی بات کی نفی کررہے ہیں، کیا آرمی ایکٹ بنیادی انسانی حقوق کے دائرے سے خارج ہے؟۔
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ جی، آرمی ایکٹ پر بنیادی انسانی حقوق کا اطلاق نہیں ہوتا۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے ہیں کہ فوجی عدالتوں میں ملزمان کو دفاع کے لیے بہت کم وقت دیا جاتا ہے۔
عدالت میں کیس کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ملٹری کورٹس میں ٹرائل کے دوران ملزم اپنے وکیل سے مشاورت کر سکتا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل میں بھی فیصلہ کثرت رائے سے ہوتا ہے اور سزائے موت کی صورت میں فیصلہ دو تہائی سے ہونا لازمی ہے۔
اٹارنی جنرل نے عدالت میں کہا کہ بادی النظر میں گرفتار 102 ملزمان میں سے کسی کو سزائے موت یا 14 سال سزا نہیں دی جائے گی۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ اپ کا مطلب ہے کہ سیکشن 3 اے کا کوئی کیس نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ ایسا کوئی کیس نکل سکتا ہے۔
اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ میرا بیان آج کی سٹیج تک کا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ملزمان کو اپنے دفاع کے لیے فوجی عدالتوں میں بہت کم وقت دیا جاتا ہے جبکہ جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا کہ آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ فوجی عدالتوں میں ٹرائل فیئر ہونگے۔
اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ کو یقین دہانی کروائی ہے کہ 9 مئی کے واقعات پر ملٹری کورٹس کے فیصلوں میں تفصیلی وجوہات کا ذکر ہوگا۔
اٹارنی جنرل نے جمعے کے چیف جسٹس کی سربراہی میں کیس کی سماعت کرنے والے چھ رکنی بینچ کے سامنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ فوجی عدالت میں سزا سیکشن 105 اور رولز 142 کے تحت سنائی جاتی ہے اور ملزم کو سزا سنانے کے بعد کنفرمیشن کا مرحلہ آتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ کنفرمیشن سے پہلے جائزہ لیا جاتا ہے کہ ٹرائل قانون کے مطابق ہوا یا نہیں۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ملزمان پرائیوٹ وکیل کی خدمات بھی حاصل کر سکتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ملٹری کورٹس میں ٹرائل کے خلاف اپیل کے لیے سیکشن 133 موجود ہے اور سزا کے 42 دن کے اندر کورٹ آف اپیل سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ اگر ملک میں مارشل لا لگا تو ہم مداخلت کریں گے۔
اس سے قبل اعتزاز احسن کے وکیل سردار لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے وہ ضیا الحق کے دور میں ہوتا رہا ہے جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ موجودہ دور کا ضیا الحق کے دور سے موازنہ نہ کریں۔
اٹارنی جنرل سے مخاطب ہوتے ہوئے چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا ہم کسی ریٹائرڈ جج کو 102 افراد سے ملاقات کے لیے فوکل پرسن مقرر کر سکتے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے چیف جسٹس کو جواب دیا کہ وہ اس حوالے سے ان کے چیمبر میں بتائیں گے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم چاہتے ہیں زیر حراست افراد کو بنیادی حقوق ملیں اور زیر حراست افراد کو اہل خانہ سے ملاقات کی اجازت ہو۔