Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

ٹاپ سٹوریز

‘ مودی ناٹ ویلکم’ 22 جون کو بھارتی وزیراعظم کے دورہ کے دوران وائٹ ہاؤس کے سامنے احتجاج کی تیاریاں

Published

on

امریکا کے انسانی حقوق گروپوں نے اگلے ہفتے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے دورہ واشنگٹن کے موقع پر احتجاج کا منصوبہ بنایا ہے، انسانی حقوق گروپ کہتے ہیں کہ بھارت میں انسانی حقوق کی صورتحال سنگین ہوتی جا رہی ہے۔

انڈین امریکن مسلم کونسل، پیس ایکشن اور دیگر تنظیمیں 22 جون کو وائٹ ہاؤس کے قریب اکٹھے ہو کر احتجاج کریں گی جب نریندر مودی امریکی صدر بائیڈن سے ملاقات کر رہے ہوں گے۔

امریکا بھارت کے ساتھ قریبی تعلقات چاہتا ہے، امریکا بھارت کو چین کے مقابل ایک اتحادی کے طور پر دیکھتا ہے لیکن انسانی حقوق کے کارکنوں کو تشویش ہے کہ امریکا کی جیوپولیٹیکل ترجیحات بھارت میں انسانی حقوق کی صورتحال کو نظرانداز کر سکتی ہیں۔امریکا کے آزادیوں سے متعلق سرکاری کمیشن کے مطابق بھارت میں مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے، اختلاف رائے کو دبایا جاتا ہے اور صحافیوں کو بھی حکومتی جبر کا سامنا ہے۔

انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے گروپوں نے مودی کے دورے کے دوران احتجاج کے لیے فلائرز تیار کرائے ہیں جن پر ‘ مودی ناٹ ویلکم’ اور ‘ بھارت کو ہندو بالادستی سے بچاؤ’ کے نعرے درج ہیں۔

نیویارک میں بھی ایک ایونٹ کا انتظام کیا گیا ہے جس کا نام ‘ ہاؤڈی ڈیموکریسی’ رکھا گیا ہے، یہ ڈرامہ 2019 میں ہیوسٹن میں ہونے والی ریلی کے نام پر رکھا گیا جس میں نریندر مودی اور اس وقت کے امریکی صدر ٹرمپ نے شرکت کی تھی۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ نے پالیسی میکرز، صحافیوں اور تجزیہ کاروں کو اگلے ہفتے واشنگٹن میں بی بی سی کی ڈاکومنٹری دیکھنے کی دعوت دی ہے جس میں 2002 کے گجرات فسادات میں مودی کے کردار کو اجاگر کیا گیا ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ کے سابق عہدیدار اور سنٹر فار سٹرٹیجک سٹڈیز سے وابستہ تجزیہ کار ڈونلڈ کیمپ کا کہنا ہے کہ مودی اور بائیڈن کی ملاقات میں انسانی حقوق کا معاملہ زیر بحث نہیں آئے گااس دورے کو دونوں فریقوں کے لیے کامیاب بنانے کے لیے امریکا انسانی حقوق کے معاملے کو اٹھانے سے گریز کرے گا۔

امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا ہے کہ وہ انسانی حقوق کے حوالے سے تحفظات کا اظہار بھارتی ہم منصبوں کے ساتھ مستقل بنیادوں پر کرتے رہتے ہیں۔

مودی 2014 میں اقتدار میں آئے، تب سے بھارت صحافتی آزادی کے انڈیکس میں مسلسل تنزلی کا شکار ہے، مودی کی حکومت میں بھارت پریس فریڈم انڈیکس میں 140ویں درجے سے گرتا ہوا 161 ویں درجے تک جا پہنچا ہے۔ بھارت انٹرنیٹ کی بندش کے حوالے سے بھی دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔

بھارتی حکومت تمام الزامات کو مسترد کرتی ہے اور اس کا موقف ہے کہ ملک کی تمام کمیونٹیز کی بھلائی اس کی پالیسی کا حصہ ہے اور قانون بھی سب کے لیے برابر ہے۔

انسانی حقوق کے گروپ مودی حکومت پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا الزام تواتر سے عائد کرتے ہیں اور اس کے لیے 2019 کے شہریت قانون کی مثال دی جاتی ہے جسے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق دفتر نے بھی بنیادی طور پر امتیازی قانون قرار دیا تھا۔

سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کی حکومت نے 2005 میں مودی پر ویزا پابندی عائد کی تھی اور یہ پابندی مذہبی آزادی کی سگین خلاف ورزیوں کی بنا پر عائد کی گئی تھی۔2002 میں جب مودی گجرات کے وزیراعلیٰ بنے تو ایک ہزار افراد مذہبی فسادات میں مارے گئے تھے اور مرنے والوں کی اکثریت مسلمان تھی۔

امریکا نے 2023 کی انسانی حقوق اور مذہبی آزادی کی رپورٹس میں بھارت سے متعلق تحفظات ظاہر کئے لیکن امریکی وزیر خارجہ سمیت اہم عہدیدار کھلے بندوں اس کے اظہار سے گریز کرتے ہیں۔

تھنک ٹینک ولسن سنٹر کے ساؤتھ ایشیا انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ ماہر مائیکل کگلمین کہتے ہیں کہ چین کا فیکٹر بنیادی وجہ ہے کہ امریکا انسانی حقوق اور مذہبی آزادیوں کے متعلق بھارت کے ساتھ سخت رویہ اختیار نہیں کرتا، امریکا بھارت کو چین کے خلاف طویل مدتی اتحادی کے طور پر دیکھتا ہے۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین