Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

آرٹ

مومن خان مومن،دلچسپ شخصیت، مذہبی شدت پسندی اورمعاشقوں کی قطار،کافرکہتے بنتی ہے نہ مومن

Published

on

سنا ہوگا  تم نے کہ مومن خاں مرگئے، آج ان کو مرے دسواں دن ہے۔ دیکھو بھائی ہمارے بچے مرے جاتے ہیں۔ ہمارے ہم عصر مرے جاتے ہیں۔ قافلہ چلا جاتا ہے اور ہم پا در رکاب بیٹھے ہیں۔ مومن خاں میرا ہم عصر تھا، اور یار بھی تھا۔ بیالیس تنتالیس برس ہوئے یعنی چودہ چودہ ،پندرہ پندرہ برس کی میری اور اس مرحوم کی عمر تھی کہ مجھ میں اور اس میں ربط پیدا ہوا۔

یہ الفاظ ہیں مرزا غالب کے جو انہوں نے ، نبی بخش حقیر کو ایک خط میں مومن سے مراسم کا ذکر کرتے ہوئے لکھے۔

مومن خاں مومن اردو  شاعری کے دلچسپ اور متضاد شخصیت کے مالک شاعر ہیں، ایک طرف تو ان کے معاشقوں کی قطاریں لگی ہیں اور دوسرے طرف مذہب میں شدت پسندی۔ ایک طرف سید احمد بریلوی  سے بیعت کرکے جہاد کی تمنا کرتے ہیں اور دوسری جانب نواب صاحب ٹونک ان کو حج پر چلنے کی دعوت  دیتے ہیں تو معذرت نامہ اس ندامت کے ساتھ ارسال کرتے ہیں کہ زندگی  گناہوں میں گزری اب کیا منہ لے کر اس کے حضور میں جائیں۔

دلی کی سرزمین اور مومن کے شباب کی رنگین مزاجیاں، نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے متعدد عشق کئے۔ نوبرس کی عمر  سے لے کر اکتیس برس کی عمر تک وہ اس راہ پر گامزن رہے۔

مومن خاں مومن بیک وقت رند اور درویش خدامست تھے انہیں تصوف سے شغف نہ تھا اس لیے دوسرے اردو شعرا کی طرح انہوں نے مجازی عشق کو حقیقت کا زینہ تو نہیں بنایا لیکن اس سے انکار ممکن نہیں کہ ان کا ایک قدم مے خانے میں اور دوسرا مسجد میں تھا۔ ایک طرف وہ مذہبی رسوم و قیود کے سختی سے پابند تھے تو دوسری طرف زہرہ جمالوں پر جان چھڑکتے۔  سید احمد بریلوی شہید کے جہاد میں جام شہادت نوش کرنے کا شوق بھی دل میں رکھتے تھے اور معاشقوں  کی جیتی جاگتی تصویریں انہوں نے خود مثنویوں کی صورت سب کے سامنے پیش کیں۔ یہ مثنویاں خود مومن کے مطابق 1235 ھ سے 1246 ھ کے درمیان لکھی گئیں یہی وقت سید احمد شہید کی تحریک کے عروج کا ہے۔ اس دوران مومن خاں ، سید احمد شہید سے بیعت ہوئے اور لشکر اسلام  کادل بڑھانے کے لیے ایک مثنوی جہاد کے عنوان سے لکھی اور شوق شہادت کا اظہار کیا۔

الٰہی مجھے بھی شہادت نصیب

یہ افضل سے افضل عبادت نصیب

الٰہی اگرچہ ہوں میں تیرہ کار

پہ تیرے کرم کا ہوں امیدوار

تو اپنی عنایت سے توفیق دے

عروج شہید اور صدیق دے

کرم کر نکال اب یہاں سے مجھے

ملادے امام زماں سے مجھے

یہ دعوت ہو مقبول درگاہ میں

مری جاں فدا ہو اسی راہ میں

ایک طرف یہ مذہبی جوش و خروش اور دوسری طرف عیش  کوشی کی وہ ہنگامہ خیزیاں جس کا ذکر انہوں نے اپنی مثنویوں میں کیا ہے ۔ فرمان فتح پوری کے  لفظوں میں اب انہیں کافر کہتے بنتی  ہے نہ مومن۔

مومن نے اپنی مثنویوں میں جس بے  باکی سے کام لیا ہے یہ انہی کا خاصہ ہے عام انسانوں میں ایسی ہمت نہیں ہوتی۔ عام انسان اپنے عیب چھپانے اور کمالات و اوصاف کے دعووں کو ترجیح دیتے ہیں لیکن مومن نے اپنے دونوں رخ سامنے رکھ دیئے۔

مومن کے معاشقے

مومن  کی عشق بازیوں کی ابتدا کب اور کہاں سے ہوئی یہ بھی ان کی اپنی مثنویوں سے معلوم ہوتا ہے۔مومن نے اپنی پہلی مثنوی ’ شکایت ستم‘ کے آغاز میں خود اس بات کا دعویٰ کیا ہے کہ انہوں   نے پہلا عشق نو سال کی عمر میں کیا۔

یعنی طفلی سے ہوں میں پیر مغاں

بلد گمرہان راہ جہاں

تھے برس ہم شمارہ افلاک

کہ  ہوا پائمال صورت خاک

کھودیا چین ایک  مہرو نے

شب سیاہ کی ہلالی ابرو نے

ہائے بچپن میں دل کا آ جانا

کچھ سمجھتے نہ تھے پہ کیا جانا

شغل طفلانہ دل کے پاس گئے

ہوش کے آتے ہی حواس گئے

شوق آیا تو دل نوازی کا

کھیل کھیلے تو عشق بازی کا

جس مثنوی کے یہ اشعار ہیں وہ 1231 ھ میں لکھی گئی ہے۔ اس وقت مومن کی عمر سترہ سال کے لگ بھگ  تھی۔ جس کا ذکر اسی مثنوی کے ایک شعر میں ہے

دیکھیں آگے دکھائے کیا کیا دن

ہے ابھی سترہ برس کا سن

شکایت ستم میں ان کے دو ابتدائی معاشقوں کا ذکر آیا ہے اور پہلا معاشقہ دو سال قائم رہا۔

آفت جان و دل فراق و وصال

الغرض یوں ہی کٹ گئے دو سال

اس کی وجہ محبوبہ پر عائد سخت پابندیاں تھیں اور اسی ہجر و مجبوری میں ان کی محبوبہ جاں سے گئی۔

تنگی جان وحشت افزا تھی

تپش دل قیامت آرا تھی

بہر تسکین شدت نقصاں

ٹھہری گلگشت روضہ رضواں

گئی جنت میں بسکہ ایسی حور

ہوئی بے تاب کیسی کیسی حور

پہلی محبوبہ کے ماتم کے ساتھ ہی دوسرے معاشقے کا ذکر بھی اسی مثنوی میں  موجود ہے۔

مومن نے 1235ھ میں دوسری مثنوی ’ قصہ غم‘ کے نام سے لکھی لیکن اس میں نئے معاشقے کا ذکر کرنے کی بجائے پرانے معاشقوں کی یادیں تازہ کیں۔ تیسری مثنوی ’ قول غمیں‘ 1236 ھ میں لکھی اور اس میں ایک نئے معاشقے کے ذکر کے ساتھ پہلے ناکام معاشقے کا غم بھی ہے۔ مومن نے 1241 ھ میں ’ تف آتشیں‘ کے نام سے ایک اور عشقیہ مثنوی لکھی۔

قصہ عشق آغاز ہوا ہے

بسملہ مدآہ رسا ہے

تازہ حدیث عاشق غم کش

شکوہٗ جور و تاب ستم کش

ان اشعار سے واضح ہوتا ہے کہ ’ شکایت ستم ‘ اور ’ قول غمیں‘   کے قصوں سے الگ کسی نئی روداد عشق کا ذکر  ہے اور یوں اسے مومن کا تیسرا معاشقہ بھی کہا جا سکتا ہے۔1244 ھ میں ’ حنین مغموم‘ کے تاریخی نام سے لکھی گئی مثنوی میں پچھلی ادھوری داستانوں کی تکمیل کی گئی ہے۔

یہ معما کون سمجھے بن کہے

عقل بھی میری طرح حیران ہے

وہ جو قصہ رہ گیا  ہے ناتمام

جب تلک اس کا نہ ہووے اختتام

ابتدا اس کی سمجھ میں آئے ہے

فہم اس کے مدعا کو پائے ہے

کون سا قصہ وہ خوارسی کا بیاں

اس سے پہلی مثنوی کی داستاں

یعنی جب قاصد پھرا لے کر جواب

لفظ ہائے معنی و مضموں عتاب

یوں لگتا ہے کہ ’ حنین مغموم‘ اصل میں ’ تف آتشیں‘ کو مکمل کرنے کے لیے لکھی گئی لیکن پچھلے معاشقے کو مکمل کرنے کے ساتھ نئی عشقیہ روداد بھی نظم کی گئی۔ مومن نے اس نئے معاشقے کو پچھلے عشق میں ناکامی کی تلافی سمجھا۔

بندھ گیا دل میں تلافی کا خیال

ذلت نقص نظر کھنچے کمال

اب کہو وہ داستاں جس سے جہاں

یوں کہے ایسے اپنے نصیب اپنے کہاں

اس نئی حکایت کی محبوبی نے مومن کو وصل  سے شاد کیا لیکن آخر کار جس کٹنی نے پہلی محبوبہ کو بدظن کیا تھا اس نے دوسری کو بھی ان سے بدگمان کر کے جدائی ڈال دی۔ یہ چوٹ مومن کے لیے اس قدر شدید تھی کہ  مومن اسے کبھی بھلا سکے نہ اس سے مایوس ہوئے اسی لیے 1246 ھ میں ’ آہ و زاری مظلوم‘ کے نام سے انہوں نے جو مثنوی لکھی اس میں اسی محبوبہ سے پھر وصل کی دعا مانگی ہے۔

مومن کے معاشقوں کا سلسلہ 1231 ھ سے 1246 ھ  تک  سولہ سترہ برس تک چلا، اس دوران حقیقت میں مومن کے کتنے معاشقے تھے اور کتنی بار وہ کسی حسینہ کی چاہ میں گرفتار ہوئے اس کے متعلق یقین سے کچھ کہنا مشکل ہے کیونکہ انہوں نے جگہ جگہ دل لگانے کے دعوے کئے ہیں ۔

ایک نہ اک سے کام ہی رہوے

نام سدا بدنام ہی رہوے

( تف آتشیں)

آشناؤں میں سدا، گھر میں کہاں

گہہ  وہاں ۔ گاہ وہاں ۔ گاہ وہاں

( قول غمین)

مثنویوں سے لیے گئے خاکے سے ایک اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ معاشقوں کی تعداد کم از کم پانچ تو رہی کیونکہ پہلے دو کا ذکر ’ شکایت ستم‘ میں، تیسرے کا ذکر’ قول غمیں‘ میں  اور چوتھے کی تفصیل ’تف آتشیں‘ میں، پانچویں کا ذکر ’ حسن مغموم‘ میں کیا گیا ہے۔ دو عشقیہ مثنویوں میں صرف پچھلے معاملات کی یاد تازہ کی گئی ہے یا ان کی مزید تفصیل کا ذکر ملتا ہے۔

مومن کی محبوبائیں کون تھیں؟

مومن نے اپنے معاشقوں کی تفصیل میں کبھی نام نہیں بتائے لیکن  ان کی مثنویوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے عشقیہ معاملات رشتہ داروں اور قرابت داروں کے حلقے کے اندر ہی تھے۔

ہوئی شادی ہمارے یاں اک بار

آئی مہماں وہ دولت بیدار

شرکت محفل سراپا زیب

اس کے آنے کی ہوگئی تقریب

ایک خالی مکان میں آ کر

مل گئی چپ کے چپ کے ڈھب پا کر

ان اشعار سے اندازہ ہوتا ہے کہ محبوبہ کوئی غیر نہ تھی بلکہ ایسے کسی خاندان سے تھی جو مومن سے قرابت رکھتا تھا۔  یہ لڑکی شادی میں چند دن آئی اور چلی گئی اور پھر ملاقات کا موقع ہاتھ نہ آیا۔ مومن کا یہ عشق شدید تھا اور وہ مدتوں اسے بھول نہ پائے، یہ لڑکی ملاقات کے کچھ عرصہ بعد ہی چل بسی، مومن نے اس کا مرثیہ بھی لکھا تھا۔

دوسرے معاشقے کا ذکر ’ شکایت ستم‘ میں ہے، اس لڑکی سے ان کی ملاقات اچانک ہوئی اور اس کی عمر  بارہ سال تھی۔

سال عمر اب تھے ہم شمار بروج

کہ ہوا اختر بلا کا عروج

مومن نے اس کے حسب نسب کا بھی نہیں بتایا لیکن اندازہ یہی ہے کہ قریبی رشتے داروں میں سے تھی اسی لیے بار بار ملاقات کے مواقع میسر آئے۔اس  کا نام ’ مہ سیما‘ یا پھر ’سیما‘ تھا۔

کہاں اے بدر سیما وہ ترخم

کہ ہوں میں رازدار سروانجم

نہیں کیوں گرمی صحبت کا ایما

کہ میں پروانہ ہوں تم شمع سیما

سیما کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ محمد حسین آزاد کی قریبی عزیزہ تھیں اور آزاد نے اسی بنا پر ’آب حیات‘ کے پہلے ایڈیشن میں مومن جیسے نامور شاعر کا ذکر پسند نہیں کیا لیکن جب ان کی پر شدید تنقید ہوئی تو دوسرے ایڈیشن میں مومن کو جگہ دینا پڑی۔ آزاد نے مومن کی مثنویوں  پر تبصرہ کیا ہے لیکن معاشقوں کا ذکر نہیں کیا۔ یہ ممکن نہیں آزاد جیسے باخبر شخص کو مومن کی عشق بازیوں کا علم ہی نہ ہو لیکن انہوں نے دانستہ انحراف کیا  تو اس کی وجہ بھی یہی قرابت دار لڑکی سے مومن کا معاشقہ ہی رہا ہوگا۔

’ قول غمیں‘ میں جس نئے معاشقے کا ذکر ہے اس میں اگرچہ محبوبہ کا نام نہیں لیا گیا لیکن مومن نے آغاز عشق کے پس منظر  میں کچھ ایسی وضاحتیں دی ہیں جن سے محبوبہ کا سراغ لگایا گیا ہے۔ مومن حکیم بھی تھے،انہیں ایک محترمہ کے علاج کے لیے بلایا گیا اور نبض پر ہاتھ رکھتے ہی ان کا دل پھسل گیا۔

میں نے اس نبض پہ جو ہاتھ رکھا

ہاتھ سے میرے مرا دل ہی چلا

اس کو جوں ہاتھ لگایا میں  نے

دل سے بس ہاتھ اٹھایا میں  نے

اب یہ محترمہ کون تھیں، اس کا پتہ نواب مصطفیٰ خان شیفتہ نے ’ گلشن بے خار‘ میں واضح کردیا کہ ان کا نام امۃ الفاطمہ تھا ۔ شیفتہ لکھتے ہیں:

ان کا نام امۃ الفاطمہ  بیگم تھا،صاحب جی کے نام سے مشہور تھیں، حسن و صفات میں مثل آفتاب تھیں۔ اپنے معالجے کے سلسلے میں مومن خاں سے سابقہ پڑا، کچھ مہینے زیرعلاج رہیں،  اور پھر لکھنؤ چلی گئیں۔ خاں موصوف کی مثنوی ’قول غمیں‘ انہیں کے حسن و جمال کی شرح ہے۔

کلب علی فائق رامپوری  نے مومن  کی سوانح  لکھی ہے، اس میں ان کا کہنا ہے کہ امۃ الفاطمہ لکھنؤ کی طوائف تھی جو اپنی رشتہ داری میں دلی آئی تھی، مومن کی وہاں پہلے سے آمد و رفت تھی،وہاں شطرنج کی بازی بھی جمتی  اور بذلہ سنجی اور ظرافت کی گرم بازاری بھی ہوتی۔ کلب علی فائق کا ماننا ہے کہ امۃ الفاطمہ المعروف صاحب جی ، لکھنؤ گئی اور مومن کی محبت ٹھنڈی پڑ گئی۔

’ تقف آتشیں‘ میں جس معاشقے کا ذکر ہے اس کے متعلق مومن نے بتایا کہ وہ انہیں کے ہم نشینوں اور ہم مذاقوں کے خاندان سے تعلق رکھتی تھیں اسی وجہ سے ان سے ملنے جلنے کے بے تکلف مواقع میسر ہوئے۔

یعنی ہمارے ہم ہنروں سے

ہم نسبوں میں ہم گہروں سے

شادی اٹھی اک گھر میں شتابی

اس میں ہوئی یہ خانہ خرابی

پردے سے اک آواز خوش آئی

جس نے یہ چپ ہے مجھ کو لگائی

دو شادیاں  اور پھر معاشقوں کا خاتمہ

مومن کے والد حکیم غلام نبی نے بیٹے کی آوارہ مزاجی کو دیکھتے ہوئے ان کی شادی نہ کی تھی، والد کے انتقال کے بعد سردھنہ میں ایک مغل خاندان میں شادی ہوئی لیکن  ناچاقی پر ختم ہوئی۔دوسری شادی مشہور صوفی، شاعر اور موسیقی کے ماہر خواجہ محمد نصیر کی بیٹی انجم النسا سے ہوئی  ،اس شادی  کو مومن نے اپنی اسیری سے تعبیر کیا اور اس شادی کے بعد ان کی زندگی میں یک رنگی پیدا ہوئی اور آزادی ختم ہو گئی۔

جوانی میں انتقال؟

مومن کی صحت وفات سے پیشتر بہت اچھی  تھی، معاصرین ان کی عمر کا اندازہ کرنے میں دھوکہ کھا گئے، تذکرہ شعرا میں کریم الدین  نے لکھا کہ ان کی عمر قریب چالیس برس  ہوگی۔ کلب علی فائق کے مطابق  جب کریم الدین نے یہ لکھا تب  مومن کی عمر سینتالیس سال تھی۔

کلب علی فائق کے مطابق مومن خان مومن باون سال کے تھے ، ایک دن مکان کی مرمت ہو رہی تھی، کڑیاں دوبارہ ڈالی جا رہی تھیں، یہ چھت کی منڈیر پر کھڑے ہو کر مزدوروں کا کام دیکھ رہے تھے، دھیان بٹا اور پاؤں پھسلا تو چھت سے نیچے آپڑے۔ ہاتھ اور پاؤں کی ہڈیاں توٹ گئیں، علاج کیا گیا لیکن کوئی نتیجہ نہ نکلا، زائچہ دیکھا گیا تو مومن نے بتایا کہ پانچ ماہ سے زیادہ زندہ نہ رہوں گا ۔  مومن   چودہ مئی 1852 ء کو انتقال کر گئے۔

 اعتذار: مومن خان مومن کے یوم وفات14 مئی پر لکھی یہ تحریر دو دن کی تاخیر سے شائع ہونے کا سبب انٹرنیٹ بندش اور ملکی سیاسی حالات بنے، جس پر ادارہ معذرت خواہ ہے،ایڈیٹر

سعدیہ آصف اردو لٹریچر میں ماسٹرز ہیں، اردو ادب ان کی دلچسپی کا اہم موضوع ہے، لکھنے پڑھنے کا شغف رکھتی ہیں، 2007ء سے تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین