Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

کالم

نواز شریف کی واپسی مؤخر ہو سکتی ہے؟

Published

on

مسلم لیگ نون کے قائد نواز شریف کے سمدھی سینیٹر اسحاق ڈار کہتے ہیں کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف نے احتساب کا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا ہے۔ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے اس بیان سے ایک بات واضح ہو گئی ہے کہ شہباز شریف نے اپنے بڑے بھائی کو اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانہ ترک کرنے پر قائل کر لیا ہے۔

یہ تمام پیش رفت شہباز شریف کی اپنے بھائی سے لندن میں ملاقات کا نتیجہ ہے۔ اس ملاقات کے بعد  نواز شریف کے قریبی رفقاء بھی اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانہ سے پیچھے ہٹ گئے ہیں اور اس بارے میں ان کے بیانات مکمل طور پر تبدیل ہو گئے ہیں۔  یہ سب ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب نواز شریف کے وطن واپسی میں تین ہفتوں سے بھی کم وقت باقی رہ گیا ہے۔

نواز شریف کے اپنے بیانیہ میں سو فیصد تبدیلی نے ایک مرتبہ پھر انہیں بند گلی میں دھکیل دیا ہے اور ان کیلئے نیا بیانیہ بنانے کی گنجائش محدود ہو گئی ہے۔ نواز شریف کیلئے اس وقت نیا  بیانیہ تیار کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔  جب اُن کے بھائی شہباز شریف کی 16 ماہ کی حکومت ختم ہوئے لگ بھگ 45 دن ہوئے۔ ہر طرف مہنگائی کا شور ہے اور دادرسی کیلئے کوئی در نظر نہیں آ رہا ہےْ ایسی صورت میں عوام کی خدمت کا بیانیہ چلے ہوئے کارتوس سے کچھ زیادہ نہیں ہےْ لوگ خدمت کے بیانیہ کو کس طرح قبول کریں گے؟ کیونکہ مہنگائی اور مویشت کی بد حالی کسی اور کی نہیں پی ڈی ایم حکومت کی دین ہے۔

لاہور کے علاقے شاہدرہ میں مسلم لیگ کے سیاسی اجتماع کی صورت حال سب کے سامنے ہے. شاہدرہ 1993 سے مسلم لیگ نون کا گڑھ سمجھا جاتا تھا. پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے جب کسی سیاسی جماعت کے اجتماع میں مخالف جماعت کے افراد نے نعرے لگائے ہوں اور اس پر کسی قسم کا کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا. کھوکھر برادران کی طرف سے نواز شریف کی وطن واپسی پر زیادہ سے زیادہ لوگ لانے والوں کے لیے 125 موٹر سائیکل دینے کا اعلان پہلے ہی سوشل میڈیا پر چرچا میں ہے اور ایک سیاسی جماعت کی طرف سے اس طرح کھلے عام موٹر سائیکل کا اعلان مذاق بن کر رہ گیا ہے۔

نواز شریف کی ملک واپسی کیلئے تیاریوں میں ہر روز تیزی آرہی ہے لیکن ساتھ ساتھ یہ سوال بھی اینی جگہ بر قرار ہے کہ نواز شریف کے پٹاری میں ایسا کیا ہے جس کے ذریعے عوام کے غصے کو ٹھنڈا کیا جاسکتا ہے؟ اور انہیں مہنگائی کی دلدل سے نکالنے کے لیے وہ کیا کر سکتے ہیں۔ اس سے پہلے نواز شریف کے سمدھی جو اقتصادی جادو گر سمجھے جاتے تھے ان کے تمام منتر بے اثر رہے ہیں اور اب وہ کونسی ایسی پالیسی اپنائیں گے جس سے لوگ ان کی طرف راغب ہوسکیں۔

اس سوال بھی جواب کا اپنی جگہ اہم ہے کہ نواز شریف کی واپسی سے ان کی جماعت کو کس حد تک فائدہ ہوسکتا ہے؟ وہ اہنی جماعت کی گرتی ہوئی ساکھ کو بہتر بنانے کیلئے کیا اقدامات کرسکتے ہیں۔ اس کا جواب ان کی واپسی اور اس کے بعد کے اقدامات سے مل سکتا ہے۔ نواز شریف 2019 میں بیرون ملک گئے تھے  تب اور آج کے حالات میں زمین آسمان کا فرق ہے اور بہت سارا پانی پلوں کے نیچے سے گزر گیا ہے۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف کو جماعت میں ظاہر ہونے والی تقسیم ختم کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی فیصلہ کرنا پڑے گا۔ یہ تقسیم ان کی بیٹی مریم نواز اور بھیجتے حمزہ شہباز میں سیاسی چپقلش ہے جو اب کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہے۔ ابھی یہ فیصلہ ہونا بھی باقی نواز چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بنتے ہیں یا پھر شہباز شریف دوسری بار وزارت عظمیٰ کے امیدوار ہیں۔

یہ بات بھی سوچنے کی ہے کہ تین مرتبہ وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف انتخابی مہم کیلئے کس قدر مؤثر ہوسکتے ہیں۔ اس وقت زیادہ اہم نوجوان ووٹر ہے جس کو اپنے طرف مائل کرنا مشکل ترین کاموں  میں سے ایک ہے۔ نواز شریف جہاں سیاسی نوعیت کے معاملات کو نمٹنا ہے وہیں ان کیلئے قانونی چیلنجز بھی اتنے آسان نہیں جتنے ظاہر کیے جا رہے ہیں، عین ممکن ہے کہ قانونی موشگافیوں کی وجہ سے نواز شریف کا یہ بیان سامنے آیا ہے کہ وہ وطن پہنچنے پر اپنے خلاف قانونی کارروائی کا سامنا کرنے کیلئے تیار ہیں۔

سابق وزیر اعظم نواز شریف چار برس کے بعد واپس آرہے ہیں. ان کو طبی بنیادوں پر ملک سے باہر جانے کی اجازت ملی تھی اور محدود مدت کیلئے ان کی ضمانت منظور کی گئی لیکن ان کی صحت یابی کے بعد ضمانت کی سہولت ختم ہو جائے گی اور انہیں دوبارہ گرفتاری دینا پڑ سکتی ہے۔ اس وقت نواز شریف سزا یافتہ ہیں اور سزا کیخلاف اپیل ان کے مفرور ہونے کی بنیاد نہیں سنی گئی۔ نواز شریف کو  ہائیکورٹ کے سامنے خود کو سرنڈر کرنا پڑا گا۔ یہ عدالت پر منحصر ہے کہ وہ سرنڈر کرنے والے نواز شریف کو دوبارہ جیل بھیجتی ہے یا پھر انہیں حفاظتی ضمانت ملتی ہے۔ ایک بات سب کو ذہین میں رکھنی ہوگی کہ نواز شریف عام ملزم نہیں بلکہ ایک مجرم ہے جسے عدالت نے سزا سنائی ہے۔

21 اکتوبر اب زیادہ دور نہیں ہے لیکن پھر یہ کہیں نہ کہیں یہ بات سنائی دے رہی ہے کہ کی عین موقع پر واپسی کا فیصلہ موخر کیا جاسکتا ہے، اس طرح کی قیاس آرائیاں اپنی جگہ برقرار ہیں اور کچھ تجزیہ نگاروں کے بقول مسلم لیگ نون کے اس وقت سیاسی اجتماع ایک مخص مشق ہے تاکہ وہ پبلک کے رد عمل کا انداز کرسکے۔

سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی سمیت دیگر یہ خدشہ ظاہر کر چکے ہیں کہ عام انتخابات جنوری میں ممکن نہیں۔ خود مسلم لیگ نون ابھی انتخابات کے انعقاد کے بارے میں مکمل طور پر چپ ہے اور اس بارے میں  کوئی بیان نہیں دیا جا ریا۔ اگر انتخابات میں دیر ہے تو نواز شریف کو واپسی میں جلدی کیوں ہے؟ سابق وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ خاں نے ان اطلاعات کی تردید کی کہ نواز شریف کی واپسی کسی قسم کی ڈیل ہے۔ رانا ثناء اللہ خاں کے موقف کی تصدیق تو وقت کرے گا۔

ان حالات میں نواز شریف کا چار برس کی خود ساختہ جلاوطنی ختم کرکے واپس وطن آنا خود ایک بڑا سوال ہے جس کا جواب ماسوائے اُن کے کوئی دوسرا نہیں دے سکتا۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین