Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

ٹاپ سٹوریز

مقبوضہ کشمیر کے شہریوں کے پاسپورٹ منسوخ کرنے کی نئی مہم، بیرون ملک مقیم کشمیری مشکلات کا شکار

Published

on

بھارتی حکومت نے صحافیوں سمیت متعدد کشمیریوں کے پاسپورٹ معطل کر دیے ہیں، جسے مبصرین خطے میں اختلاف رائے کو دبانے کے لیے ایک غیرمعمولی اقدام قرار دیتے ہیں۔

ایک امریکی میڈیا ہاؤس کے مطابق مقبوضہ کشمیر اور بیرون ملک مقیم متعدد کشمیریوں نے بتایا ہے کہ انہیں گزشتہ 10 دنوں کے دوران ہندوستانی حکومت کی طرف سے ای میلز موصول ہوئی ہیں، جس میں انہیں مطلع کیا گیا ہے کہ ان کے پاسپورٹ معطل کر دیے گئے ہیں۔

سری نگر کے پاسپورٹ دفتر نے پاسپورٹ منسوخ کرنے کے نوٹس میں پاسپورٹ ایکٹ 1967 کی دفعہ 10 تھری کا حوالہ دیا اور کہا کہ جن کے پاسپورٹ منسوخ کئے جا رہے ہیں وہ بھارت کی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔

رپورٹ کے مطابق اب تک مقبوضہ کشمیر کے اندر اور بیرون ملک رہے والے کم از کم  10 اساتذہ، صحافیوں اور طلبہ کو پاسپورٹ منسوخی کے نوٹس مل چکے ہیں اور اگر زیادہ نہیں تو 70 سے 90 مزید افراد کو نوٹس دیئے جا رہے ہیں۔

جنہیں نوٹس ملے ہیں وہ اس معاملے پر سامنے آ کر مزید کچھ کہنے کو تیار نہیں کیوں کہ انہیں مزید کارروائیوں کا خدشہ ہے، اس لیے یہ اندازہ نہیں لگایا جا سکا کہ یہ آپریشن کس حد تک وسیع ہے۔

قبل ازیں منگل کو سری نگر کے پاسپورٹ افسر دیویندر سنگھ نے ہندوستانی میڈیا دی وائر کو بتایا کہ انہیں "درجنوں افراد کے پاسپورٹ معطل کرنے کی ہدایات موصول ہوئی ہیں لیکن میں صحیح تعداد ظاہر نہیں کر سکتا”۔

سنگھ نے مزید کہا کہ فہرست میں شامل کچھ لوگوں سے "کارروائی کے بارے میں” رابطہ کیا گیا تھا۔

ای میلز کے ذریعے بھجوائے گئے نوٹسز میں کہا گیا ہے کہ وہ اپنے دستاویزات حوالے کریں یا غیر متعینہ نتائج کا سامنا کریں۔

تارکین وطن کشمیری

ہندوستان سے باہر رہنے والے کشمیریوں کو کشمیر میں ہونے والی پیش رفت نے سخت متاثر کیا ہے۔

کئی کشمیری صحافی بھارتی حکام کی طرف سے ہراساں کیے جانے کے خطرے کی وجہ سے خوداختیاری جلاوطنی میں ہیں۔

بھارت سے باہر رہنے والے ایک کشمیری طالب علم کا بھی پاسپورٹ منسوخ ہوا ہے اور اس کے لیے پڑھائی جاری رکھنا ممکن نہیں رہے گا اور واپسی پر گرفتار بھی کر لیا جائے گا۔

پچھلے ایک سال کے دوران، سینکڑوں کشمیریوں کو پاسپورٹ حاصل کرنے میں بھی بے پناہ تاخیر کا سامنا کرنا پڑا ہے، جن کے خاندان کے افراد کشمیر کی آزادی کی تحریک سے جڑے ہیں۔

مبصرین نوٹ کرتے ہیں کہ آرٹیکل 370 اور آرٹیکل 35A کی تنسیخ کے بعد سے، کشمیر میں سول سوسائٹی کو مؤثر طریقے سے ختم کر دیا گیا ہے جبکہ صحافیوں کو ڈرانے دھمکانے اور ہراساں کرنے کے نہ ختم ہونے والے چکر میں ڈال دیا دیا گیا ہے، جس سے بہت سے لوگوں کو اپنا کریئر ترک کرنے پر مجبور کیا گیا ہے۔

دریں اثنا، صحافیوں اور کارکنوں نے خود کو تیزی سے نو فلائی لسٹ میں پایا، خاص طور پر، پلٹزر انعام یافتہ فوٹوگرافر ثنا ارشاد مٹو اور زاہد رفیق، ایک سابق صحافی، جنہوں نے الجزیرہ انگلش اور دی ہندو جیسے آؤٹ لیٹس کے لیے لکھا تھا۔

2019 کے بعد سے، غیر ملکی نامہ نگاروں کو بھی اب دہلی سے اجازت کے بغیر کشمیر سے رپورٹنگ کرنے کی اجازت نہیں ہے، جو صحافیوں کے مطابق، حاصل کرنا تقریباً ناممکن ہو گیا ہے

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین