Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

تازہ ترین

آپریشن عزم استحکام، مخالفت پی ٹی آئی کو مہنگی پڑے گی؟

پی ٹی آئی نے آپریشن کا راستہ روکنے کی کوشش کی تو کہیں ایسا نہ ہو کہ پہلا نشانہ پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت ہی بن جائے

Published

on

پاکستان میں انتخابات کے نتیجے میں بننے والی نئی مخلوط حکومت اب ٹریک پر چڑھتی ہوئی نظر آتی ہے۔ پاکستان میں غیرملکی سرمایہ کاری لانے کےلئے جہاں ایک طرف عالمی برادری کو ترغیبات دی جارہی ہیں تو وہیں حکومت کو ملک کے اندر سیاسی عدم استحکام اور سکیورٹی کے چیلنجز سے بھی نمٹنا ہے۔ حکومت کی پہلی ترجیح سی پیک کی شکل میں یہاں پہلے سے غیرملکی منصوبہ ہے۔ جس میں چین اب تک ایک اندازے کے مطابق چالیس ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کر چکا ہے لیکن گذشتہ دس سال کے دوران ملک میں اندرونی سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے یہ منصوبہ میچور نہیں ہوپارہا جس سے ایک طرف ملک کی معیشت بری طرح متاثر ہورہی ہے وہیں چین جیسے دیرینہ دوست ملک کے ساتھ تعلقات بھی داؤ پر لگ چکے ہیں۔

چین سے تجدید تعلقات کے لئے گذشتہ ایک ماہ میں حکومت کی طرف سے بڑے پیمانے پر سرگرمیاں دیکھنے میں آئی ہیں۔ وزیراعظم نے چین کا دورہ کیا۔ جس میں چین کا پاکستان پر اعتماد دوبارہ بحال کرنے کی کوشش کی۔ وزیراعظم کے دورہ چین سے واپسی کے فوری بعد تیسرے پاک چین مشترکہ مشاورتی میکانزم اجلاس کے انعقاد اور آپریشن عزم استحکام کی منظوری کے دو بڑے اور فیصلہ کن اقدامات سامنے آئے جن کے نہ صرف ملک کی سیاست اور معیشت پر بلکہ خارجہ محاذ پر بھی بہت دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔
اہم ذرائع کا کہنا ہے کہ چین کو پاکستان میں سیاسی عدم استحکام اور امن و امان کی صورتحال پر شدید تحفظات ہیں۔ گلگت بلتستان اور خیبرپختونخوا میں چینی انجنئیرز اور عملے کے دیگر ارکان پر دہشت گردوں کے حملوں کے بعد چین نے کئی منصوبوں پر کام روک دیا یا اس کی رفتار کو انتہائی سست کردیا۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم کے دورہ چین میں چینی حکام نے سی پیک کو دوبارہ شروع کرنے کے حوالے سے دوٹوک موقف اختیار کیا اور حکومت پاکستان سے اپنی سرمایہ کاری کے تحفظ کے لئے سیاسی اور امن و امان کے حوالے سے واضح گارنٹیز طلب کیں۔

پاکستان میں اگرچہ مسلم لیگ نون اور پیپلزپارٹی تو سی پیک کے حوالے سے یکسو نظر آتی رہیں لیکن درمیان میں تحریک انصاف کا پونے چار سال کا دور اس منصوبے کے لئے اچھا نہیں رہا۔ پی ٹی آئی حکومت نے اس میگا پراجیکٹ کو پس پشت ڈال دیا تھا جس کے بعد چین کی پاکستان کے ساتھ تعلقات میں روایتی گرمجوشی دیکھنے میں نہ آئی۔ وزیراعظم کے دورہ چین کی کامیابی کا اظہار اس امر سے ہوتا ہے کہ ان کی وطن واپسی کے بعد چین کی کمیونسٹ پارٹی کے انٹرنیشنل ڈیپارٹمنٹ کے منسٹر اور پارٹی کی مرکزی کمیٹی کے رکن لیو جیان چائو پاکستان کے دو روزہ دورے پر آئے اور اس موقع پر چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) پر تیسرے پاک چین مشترکہ مشاورتی میکانزم اجلاس کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں چینی وزیر کی موجودگی میں پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں اس اجلاس میں شریک ہوئیں۔ حزب اختلاف میں سے تحریک انصاف اور مولانا فضل الرحمان کو خصوصی طور پر اجلاس میں مدعو کرنے سے ساری بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ کس طرح چین اب سی پیک کے معاملہ پر سنجیدہ نظر آرہا ہے۔ یہ چین ہی ہے جس کی وجہ سے پاکستان کی سیاسی جماعتیں اپنے انتہائی کشیدہ تعلقات کے باوجود ایک چھت تلے اکٹھی ہوگئیں۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے اپنے اس اقدام سے دراصل چینی حکومت کو سی پیک پر وہ سیاسی گارنٹی فراہم کی جس کا تقاضا کیا جارہا تھا۔
سی پیک پر عملدرآمد کے لئے دوسرا بڑا اقدام دو روز کے بعد ہی حکومت کی طرف سے ملک کے شمال میں شورش زدہ علاقوں میں بالخصوص دہشت گردوں کے خلاف آپریشن عزم استحکام شروع کرنے کا اعلان ہے۔ ہفتہ کے روز اسلام آباد میں وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت نیشنل ایکشن پلان پر مرکزی ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں انسداد دہشت گردی کیلئے آپریشن ’عزمِ استحکام’ کی باضابطہ منظوری دے دی گئی۔ وزیراعظم کی زیر صدارت اجلاس میں نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ سمیت وفاقی کابینہ کے اہم وزرا، تمام صوبوں اور گلگت بلتستان کے وزرائے اعلیٰ، سروسز چیفس نے شرکت کی۔

حکومت کی طرف سے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق فورم نے انسداد دہشت گردی کی جاری مہم اور داخلی سلامتی کی صورتحال کا جائزہ لیا اور انسداد دہشت گردی کی جامع اور نئی جاندار حکمت عملی کی ضرورت پر زور دیا۔ اجلاس میں وزیراعظم نے کہا کہ ملک سے انتہا پسندی اور دہشت گردی کا خاتمہ ناگزیر ہے، آپریشن عزم استحکام دہشت گردی کے خطرات سے نمٹنے کےلیے اہم ثابت ہو گا۔ جبکہ وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان کی ایپکس کمیٹی اجلاس میں دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے جامع اقدامات طے پائے ہیں۔ ملک میں بڑھتی دہشتگردی کا سدباب کیا جائے گا، ہمارے فوجی جوانوں کی روزانہ شہادتیں ہو رہی ہیں۔ تمام اداروں کو تعاون کا کہا جائے گا اس میں عدلیہ اور مقننہ بھی شامل ہے، قانون سازی بھی کی جائے گی اور عدلیہ سے بھی کہا جائے گا کہ اس میں سپورٹ فراہم کریں۔

قابل ذکر امر یہ ہے جس وقت ایپکس کمیٹی یہ اجلاس جاری تھا اس وقت بھی تیمر گرہ میں سکیورٹی فورسز کے جوان دہشت گردوں کا مقابلہ کررہے تھے۔ آپریشن عزم استحکام جہاں پاکستان کی اپنی ضرورت ہے وہیں یہ چین کے ساتھ تعاون کے حوالے سے ایک سی بی ایم کا درجہ بھی رکھتا ہے۔ لیکن پاک چین مشترکہ مشاورتی میکانزم اجلاس پر سیاسی جماعتوں نے جس یک جہتی کا اظہار کیا تھا وہ آپریشن عزم استحکام کے اعلان پر نظر نہیں آیا۔

مرکزی ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں اس آپریشن کی منظوری میں اگرچہ تحریک انصاف کے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور کا ووٹ بھی شامل رہا لیکن قومی اسمبلی میں تحریک انصاف نے اس کی مخالفت کردی ہے۔ جبکہ مولانا فضل الرحمان بھی ان کے ساتھ مل گئے ہیں۔ ان دہشت گرد گروپوں کی کارروائیوں میں پاکستانی سکیورٹی افسروں اور اہکاروں بڑی تعداد میں شہادتیں ہوچکی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود تحریک انصاف ایک بار پھر ٹی ٹی پی کے ان لوگوں کےساتھ مذکرات پر زور دے رہی ہے۔

واضح طور پر نظر آرہا ہے کہ آپریشن عزم استحکام کا فوکس خیبرپختونخوا کے شورش زدہ علاقے ہوں گے جہاں کہا جاتا ہے کہ پی ٹی آئی دور حکومت میں بسائے گئے طالبان گروپس اپنی جڑیں مضبوط کررہے ہیں اور خیبرپختونخوا کے کئی جنوبی علاقے عملا نوگو ایریا بن چکے ہیں اور وہیں سے یہ عناصر کےپی کے میں سی پیک کے منصوبوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ ایسے میں جب خیبرپختونخوا میں صوبائی حکومت تحریک انصاف کے پاس ہے، ان علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ایک انتہائی مشکل اور پیچیدہ کام ہوگا۔

آپریشن عزم استحکام تو بہرحال طے پاگیا ہے اور اب یہ رکنے والا نہیں۔ دیکھنا ہوگا کہ پی ٹی آئی اس اہم ایشو پر وفاقی حکومت اور طاقت کے مراکز کے ساتھ چلتی ہے یا تصادم کا ایک نیا راستہ کھولتی ہے۔ اگر پی ٹی آئی نے اس آپریشن کا راستہ روکنے کی کوشش کی تو کہیں ایسا نہ ہو کہ آپریشن عزم استحکام کا پہلا نشانہ پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت ہی بن جائے۔ اگر ایسا ہوا تو پھر بات یہیں تک نہیں رکے گی بلکہ پی ٹی آئی کے لئے پاکستانی سیاست میں زمین مزید تنگ ہوجائے گی۔

لاہور سے سینئر صحافی ہیں۔ جنگ،پاکستان، کیپیٹل ٹی وی، جی این این اور سما ٹی وی سمیت ملک کے نامور اخبارات اور ٹی وی چینلز کے لئے سیاسی رپورٹنگ کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ مختلف اخبارات میں ان کے آرٹیکلز باقاعدگی سے شائع ہوتے ہیں جبکہ ٹی وی چینلز پر کرنٹ افئیر کے پروگرامز میں بھی بطور تجزیہ کار ان کی رائے کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین