Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

ٹاپ سٹوریز

طاقتور حلقوں نے نئی حکومت کا خاکہ بنالیا، نواز، مریم آؤٹ، شہباز وزیراعظم، پیپلز پارٹی کے مراد علی شاہ وزیر خزانہ، ذرائع

Published

on

باخبر سیاسی ذرائع نے بتایا ہے کہ بڑھتا ہوا سیاسی شور شرابہ اور 90 دن کے اندر اگلے انتخابات کے انعقاد کے لیے قانونی اقدامات کی وجہ سے طاقتور اسٹیک ہولڈرزاپنے مجوزہ پلان سے  قبل انتخابات پر مجبور ہو سکتے ہیں۔

تاہم اسٹیبلشمنٹ کے ذرائع نے اس سے اتفاق نہیں کیا اور ان کا کہنا ہے کہ جب تک پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی مقبولیت اس سطح تک کم نہیں ہو جاتی جہاں وہ مینج کی جا سکے ،انتخابات نہیں ہوں گے۔

مینج سے کیا مراد ہے؟ اس سوال پر ذرائع نے کہا کہ ایسے نمبر جو اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ پی ٹی آئی دوبارہ اقتدار میں نہ آئے اور ملک کو مزید تباہ نہ کرے۔ اس کے لیے پہلے معیشت کو درست کرنا ہے اور اس کے بعد ہی انتخابات کرائے جا سکتے ہیں۔

مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کی جانب سے 5 اگست 2023 کو مردم شماری کے نتائج کو نوٹیفائی کرنے کا فیصلہ اور اس کے نتیجے میں الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کی طرف سے حد بندی کی مشق کو مکمل کرنے کے لیے چار ماہ درکار ہیں ، ممکن ہے سپریم کورٹ کی جانب سے یہ فیصلہ پس پشت ڈال دیا جائے اور موجودہ چیف جسٹس یا ان کے جانشین یہ فیصلہ دیں کہ  کے قانون کے تحت انتخابات آئین میں بتائے گئے وقت کے اندر ہونے چاہئیں۔

اس پر ذرائع نے کہا کہ منتخب حکومت کی قیادت کون کرے گا، اس کے لیے ترجیح طے کر لی گئی ہے اور اس میں میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی۔  جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ شخص کون ہے؟ اس پر بتایا گیا کہ کہ ایک "آزمایا ہوا” اور "قابل اعتماد” فرد ہے۔

اپنے تبصروں میں کم محتاط ذرائع نے بتایا کہ پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل-این) کے صدر شہباز شریف جب بھی انتخابات ہوتے ہیں وزارت عظمیٰ کے لیے ’پسندیدہ‘ امیدوار ہیں۔ن لیگ کے قائد نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز اگلی مخلوط حکومت کی ڈرائیونگ سیٹ پر نہیں ہوں گے۔ شہباز شریف نے بطور وزیر اعظم گزشتہ 16 ماہ کے دوران اسٹیبلشمنٹ کا اعتماد حاصل کیا ہے۔

جولائی 2023 میں سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے اس یقین کا اظہار کیا کہ ملک کے اگلے وزیر اعظم ان کے بیٹے بلاول بھٹو زرداری ہوں گے اور یہ خبریں گردش کرنے لگیں کہ اگلے وزیر خزانہ مراد علی شاہ ہوں گے۔ جنہیں اگلے انتخابات میں قومی اسمبلی کی نشست سے الیکشن لڑنے کی ہدایت کی گئی تھی۔

ذرائع نے بتایا کہ مبینہ طور پر اس یقین کی جڑ بلاول بھٹو کی مغرب بالخصوص امریکہ کے ساتھ کامیاب مشغولیت پر اسٹیبلشمنٹ کا اطمینان ہے۔

زرداری، سندھ پر اپنی گرفت کے بارے میں مطمئن تھے، جانتے تھے کہ انہیں مرکز میں حکومت بنانے کے لیے دوسرے صوبوں میں حمایت کی ضرورت ہے۔ وہ جولائی کے وسط میں لاہور گئے تاکہ جنوبی پنجاب کے الیکٹیبلز سے حمایت حاصل کی جا سکے۔

جنوبی پنجاب کے الیکٹیبلز نے ابتدائی طور پر پی پی پی کی حمایت کرنے پر اتفاق کیا لیکن جہانگیر ترین کی قیادت میں استحکم پاکستان پارٹی (آئی پی پی) کے قیام کے بعد ہچکچاہٹ کا اظہار کیا۔ اور بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) کے ایک سابق رکن انوار الحق کاکڑ کے بطور نگران وزیر اعظم انتخاب نے زرداری کی بی اے پی کے ساتھ اتحاد بنانے کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ آئی پی پی اور بی اے پی دونوں اسٹیبلشمنٹ سے ہدایات کی تلاش میں رہیں گے۔

زرداری اس وقت پنجاب میں مسلم لیگ ن کے ساتھ ممکنہ سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں تاہم یہ مشکل دکھائی دیتی ہے کیونکہ وہ جن سیٹوں پر سیٹ ایڈجسٹمنٹ چاہتے ہیں وہ مسلم لیگ ن کے طویل مدتی وفاداروں کا حلقہ ہے۔

ذرائع نے مزید کہا کہ اگلی کابینہ میں بہت سے ایسے ہی چہرے شامل ہو سکتے ہیں جو شہباز شریف کی کابینہ کا حصہ تھے، تاہم اسحاق ڈار کو خزانہ کا قلمدان ملنے کا امکان نہیں ہے۔ ذرائع نے مزید کہا کہ اگلی حکومت بھی اتحادی ہوگی اور اگر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کا اتحاد بنتا ہے تو زرداری مراد علی شاہ کو وزیر خزانہ بنانے پر اصرار کریں گے، اس اقدام کو اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہوسکتی ہے۔

پی ٹی آئی، جس نے جنرل قمر جاوید باجوہ (ر) اور لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید (ر) کی قیادت میں سابقہ اسٹیبلشمنٹ کی مبینہ حمایت سے 2018 کے عام انتخابات میں پنجاب سے 371 میں سے 180 اور خیبر پختونخوا سے 145 میں سے 95 نشستیں حاصل کیں، اسے اب بھی دونوں صوبوں میں گراس روٹ سپورٹ حاصل ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ آیا جہانگیر ترین کی آئی پی پی یا پرویز خٹک کی پی ٹی آئی-پارلیمینٹیرینز پی ٹی آئی کی نچلی سطح پر مقبولیت کو نقصان پہنچانے کی پوزیشن میں ہوں گے چاہے الیکٹیبلز کو نئی شروع کی گئی جماعتوں میں شامل ہونے پر مجبور کیا جائے۔

اگرچہ پری پول دھاندلی کے ذریعے اگلے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کو لیول پلیئنگ فیلڈ دینے سے انکار پر خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے، تاہم انتخابات کے دوران دھاندلی صرف 15 سے 20 فیصد نتائج تک محدود ہے۔ پولنگ کے بعد دھاندلی ایک ایسے اتحاد کو یقینی بنائے گی جو طاقتور اسٹیک ہولڈرز کے لیے کنٹرول کرنا بہت آسان ہو۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین