Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

تازہ ترین

پیپلز پارٹی کا بزدار ماڈل؟

Published

on

الیکشن 2024 کے بعد مرکز میں حکومت سازی کا مرحلہ آیا تو پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن نے مل کر حکومت تشکیل دینے کا فیصلہ کرکے تمام چھوٹے چھوٹے پارلیمانی گروپوں کی بارگیننگ کی کمر توڑ دی۔ پاور شئیرنگ فارمولے کے تحت آصف علی زرداری صدر مملکت اور شہباز شریف ملک کے وزیراعظم بن گئے۔ پیپلزپارٹی نے وفاقی کابینہ میں کوئی وزارت نہ لی تاہم چئیرمین سینیٹ سمیت پنجاب اور خیبرپختونخوا میں گورنرز کے عہدے بھی پیپلزپارٹی کو مل گئے۔ تین ماہ کے انتظار کے بعد گورنرز کی تعیناتی کا عمل بھی اب تقریبا مکمل ہوگیا ہے جس میں پیپلزپارٹی نے پنجاب میں سردار سلیم حیدر اور خیبرپختونخوا میں فیصل کریم کنڈی کو گورنر کے لئے نامزد کردیا ہے۔ پیپلزپارٹی جب بھی اعلی عہدوں پر نامزدگیاں کرتی ہے تو وہ معنی خیز ہوتی ہیں اور ان میں ملکی اور پارٹی سیاست کے حوالے سے واضح پیغام ہوتے ہیں۔ ان تقرریوں سے پارٹی کی ترجیحات کا اندازہ بھی بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔

گورنر پنجاب کے لئے سردار سلیم حیدر خان کی نامزدگی ایک سرپرائز ہے۔ پنجاب کی گورنرشپ کے لئے سب سے پہلا نام جنوبی پنجاب کی قد آور شخصیت مخدوم احمد محمود کا آیا۔ مخدوم احمد محمود اس سے پہلے بھی 2012-13 میں پنجاب میں پیپلزپارٹی کے گورنر رہے۔ ان کےساتھ پارٹی کے سینئیر رہنما قمرزمان کائرہ کا نام بھی کافی زور و شور سے لیا گیا۔ پارٹی ذرائع کا کہنا تھا کہ مخدوم احمد محمود، آصف علی زرداری کی جبکہ قمرزمان کائرہ بلاول بھٹو کی چوائس ہیں۔ اس کے علاوہ ندیم افضل چن بھی ایک مضبوط امیدوار تھے۔ اسی دوران ذکا اشرف بھی ریس میں شامل ہوئے۔ تاہم سردار سلیم حیدر ڈارک ہارس کے طور پر سامنے آئے۔

سردار سلیم حیدر 2008 کے الیکشن میں پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر اٹک سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے اور پھر وزیرمملکت برائے دفاعی پیداوار بنائے گئے۔ اب الیکشن 2024 میں وہ حصہ لینے پر ہی آمادہ نہ تھے، پارٹی قیادت نے انہیں زبردستی الیکشن لڑنے پر آمادہ کیا۔ لیکن اب وہ ملک کےسب سے بڑے صوبے کی گورنری لے اڑے۔

سردار سلیم حیدر کی تقرری پر پارٹی کے اندرونی حلقے بھی دنگ رہ گئے۔ پاور شئیرنگ فارمولے میں گورنرپنجاب کا عہدہ لینے کا بنیادی مقصد پنجاب میں گذشتہ دو دہائیوں سے سیاسی بدحالی کی شکار پارٹی کو ازسرنو منظم اور متحرک بنانا ہے۔ اول الذکر تینوں نام اسی حوالے سے سامنے آئے تھے۔ مخدوم احمد محمود غیرمعمولی مضبوط سیاسی بیک گراؤنڈ رکھتے ہیں۔ جنوبی پنجاب کی انتخابی سیاست پر بھی ان کی بڑی گرفت ہے۔ پارٹی کو جنوبی پنجاب سے سیٹیں بھی جیت کردی ہیں۔

قمرزمان کائرہ دانشورانہ لیکن عوامی شخصیت کی وجہ سے ایک پہچان رکھتے ہیں جبکہ ندیم افضل چن پارٹی کے اندر جیالوں میں ایک ڈارلنگ کردار ہیں۔ ان دونوں شخصیات کے گورنر بننے سے گورنر ہاؤس کے جیالا ہاوس بننے کا امکان ظاہر کیا جا رہا تھا۔ یہ دونوں شخصیات دیگر جماعتوں سے مذاکرات، جوڑ توڑ میں بھی ہمیشہ متحرک کردار ادا کرتی رہی ہیں اور پی پی مخالف سیاسی جماعتیں ان تینوں شخصیات کی قدر کرتی ہیں لیکن یہ سب پیچھے رہ گئے اور پارٹی قیادت نے سردار سلیم حیدر کو گورنر نامزد کرکے ایک دے دیا۔

سردار سلیم حیدر خان اگرچہ پیپلزپارٹی کی مرکزی لیڈرشپ میں شمار نہیں ہوتے۔ اس وقت محض پیپلزپارٹی راولپنڈی ڈویژن کے صدر ہیں، عملاً ان کی سیاست اٹک کےایک حلقے تک محدود رہی ہے۔ سابق لیگی رہنما چوہدری نثار کے ساتھ ان کی قریبی عزیزداری ہے جبکہ موجودہ وزیرداخلہ محسن نقوی سے بھی اچھی یاد اللہ ہے۔ جو صدر آصٖف زرداری کے انتہائی بااعتماد ساتھی ہیں اور صدر زرداری ان کے مشورے کو بڑی اہمیت دیتے ہیں۔ سلیم حیدر، صدر آصف زرداری کی ہمشیرہ فریال تالپور کی بھی ہمیشہ گڈ بکس میں رہے ہیں۔

سردار سلیم حید کی تقرری سے مجھے تحریک انصاف کے ڈارک ہارس عثمان بزدار مجھے بہت یاد آئے۔ وہ بھی محض ایک صوبائی اسمبلی کی سیٹ کے حامل رکن تمام پارٹی پر بھاری پڑ گئے تھے۔ شاید پیپلزپارٹی میں بھی معاملات کو ’بزدار ماڈل ‘ کے تحت چلانے کی اپروچ غالب آتی جارہی ہے۔
سردار سلیم حیدر کی گورنر پنجاب نامزدگی کو اگر ایک سرپرائز کہا جارہا ہے تو وہیں اسے مسلم لیگ نون کے ساتھ ایک دوستانہ اظہارئیے کے طور پر بھی لیا جارہا ہے۔ خود سردار سلیم حیدر کے لئے یہ ایک بڑا چیلنج ہوگا۔ پارٹی قیادت پنجاب میں پیپلزپارٹی کا احیا چاہتی ہے۔ اس کے لئے جیالے گورنر ہاؤس سے بہت امیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔ ماضی میں سلمان تاثیر نے گورنر ہاؤس کو پیپلزپارٹی کا ایک مورچہ بنا دیا تھا۔ یہ اس وقت حالات کا تقاضا تھا لیکن آج نون لیگ کے ساتھ اتحاد کی نوعیت ایسی ہے کہ گورنر پنجاب کو انتہائی فراست سے صوبے میں پیپلزپارٹی کے وجود کو منوانا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک انتہائی تگڑی اور جارحانہ مزاج کی وزیراعلی مریم نواز کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ قائم کرکے پاور شئیرنگ فارمولے پرعملدرآمد کو یقینی بنانا بھی گورنر کی ذمہ داری ہوگا۔

اس فیصلے کے ناقدین سردار سلیم حیدرخان کو ناتجربہ کار کہہ رہے ہیں لیکن بعض اوقات بڑی ذمہ داریاں انسان کے اندر سے نئی شخصیت کو بھی جنم دیتی ہیں، اب دیکھنا ہوگا کہ سردار سلیم حیدر اس چیلنج سے کس طرح نبردآزما ہوتےہیں۔ وہ پیپلزپارٹی کے بزدار ثابت ہوتے ہیں یا ایک دبنگ گورنر کے طور پر سلمان تاثیر کی یاد تازہ کرتے ہیں۔

فیصل کریم کنڈی کا نام شروع دن سے ہی گورنرخیبرپختونخوا کے لئے لیا جارہا تھا اس لئے ان کی تقرری کوئی انہونا واقعہ نہیں۔ تاہم دلچسپ امر یہ ہے کہ اس وقت خیبرپختونخوا کے وزیراعلی اور گورنر دونوں نہ صرف ایک ہی شہر ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھتے ہیں بلکہ دونوں کا عام انتخابات میں حلقہ انتخاب بھی این اے 44 ڈیرہ اسماعیل خان ہے۔ عام انتخابات میں فیصل کریم کنڈی، پی ٹی آئی کے علی امین گنڈاپور قومی اسمبلی کا الیکشن ہارگئے تھے۔ ملک کی بڑی قدآور شخصیت مولانا فضل الرحمان بھی اسی حلقے سے علی امین گنڈا پور کے ہاتھوں ہی شکست سے دوچار ہوئے۔

مولانا نے ان دونوں شخصیات کے ہاتھوں بڑے دکھ اٹھائے ہیں۔ 2008 کے الیکشن میں فیصل کریم کنڈی نے انہیں یہاں سے ہرایا۔ جس کے بعد آصف زرداری نےانہیں قومی اسمبلی کا ڈپٹی اسپیکر بنایا۔ پھر 2018 اور 2024 کے انتخابات میں مولانا کو علی امین گنڈا پور کے ہاتھوں دوبار ہار کا مزا چکھنا پڑا۔ اس طرح پیپلزپارٹی نے فیصل کریم کنڈی کو گورنر نامزد کرکے پی ٹی آئی اور مولانا فضل الرحمان کو واضح طور پر ایک پیغام دیا ہے۔

یہ بھی ذہن میں رہے کہ فیصل کریم کنڈی کو گورنر بنانے کے لئے مولانا کے سمدھی حاجی غلام علی کو اس عہدے سے ہٹایا گیا ہے۔ حاجی غلام علی نے چند روز قبل لاہور میں نوازشریف سے بھی ملاقات کی تھی۔ اس ملاقات کو اس تناظر میں دیکھا جارہا تھا شاید حاجی صاحب گورنرشپ بچانا چاہتے ہیں لیکن فیصل کریم کنڈی کی نامزدگی سے یہ تمام باتیں ہوا ہوگئیں۔

لاہور سے سینئر صحافی ہیں۔ جنگ،پاکستان، کیپیٹل ٹی وی، جی این این اور سما ٹی وی سمیت ملک کے نامور اخبارات اور ٹی وی چینلز کے لئے سیاسی رپورٹنگ کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ مختلف اخبارات میں ان کے آرٹیکلز باقاعدگی سے شائع ہوتے ہیں جبکہ ٹی وی چینلز پر کرنٹ افئیر کے پروگرامز میں بھی بطور تجزیہ کار ان کی رائے کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔

Continue Reading
4 Comments

4 Comments

  1. Mohsin Bilal

    مئی 4, 2024 at 4:18 شام

    Very very informative and realistic opinion

  2. اورنگزیب رانا

    مئی 4, 2024 at 6:58 شام

    زبردست تجزیہ

    • Muhammad Naeem

      مئی 5, 2024 at 9:52 صبح

      Aoa JF bhai
      Will PPP regain its lose position in Punjab

  3. زارا عمر

    مئی 11, 2024 at 3:37 شام

    آپ کا پیپلز پارٹی کے اس انتخاب پر تجزیہ ایک معلوماتی اور پارٹی کی دوراندیشی کی وضاحت کرتا ہے۔

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین