Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

الیکشن 2023

آڈیو لیکس کمیشن درخواستیں، ججز سے متعلق حکومتی اعتراضات پر فیصلہ محفوظ،ایگزیکٹو عدلیہ میں مداخلت نہ کرے، سپریم کورٹ

Published

on

مبینہ آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کیخلاف درخواستوں پر سماعت کے بعد سپریم کورٹ نے ججز پر حکومتی اعتراضات پر فیصلہ محفوظ کر لیا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کتنا پیارا اور منفرد انصاف ہے کہ سب سے بڑی عدالت کے ججز پر الزام لگا دیا جائے،کیا انصاف دینے والوں پر اس طرح الزام تراشی کرنا انصاف کی بات ہے،پریس کانفرنس کر کے ججز پر الزامات لگائے گئے ہیں۔

 چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے کی،جسٹس اعجازالاحسن،جسٹس منیب اختر، جسٹس حسن اظہر رضوی،جسٹس شاہد وحید پانچ رکنی لارجر بنچ کا حصہ ہیں۔

سماعت کے آغاز پر ایڈووکیٹ حنیف راہی نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ توہین عدالت کی درخواست مقرر نہیں ہوئی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ توہین کا معاملہ عدالت اور توہین کرنے والے کے درمیان ہوتا ہے،توہین عدالت کی درخواست بھی دیکھ لیں گے،توہین عدالت کی درخواست پر لگے اعتراضات ختم کیے جائیں۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان روسٹرم پر آگئے، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کس نکتہ پر آپ دلائل دیں گے؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ کسی کیس میں ججز کے ذاتی مفاد سے متعلق بات کروں گا۔ چیئف جسٹس نے جواب دیا کہ آپ کی درخواست میں ایک کمی ہے، چیف جسٹس پاکستان آئینی آفس ہے جس کے اپنے اختیارات ہیں،اگر چیف جسٹس موجود نہ ہو تو پھر قائم مقام چیف جسٹس کام کرتا ہے،توہین عدالت کی درخواست اعتراضات ختم ہونے کے بعد دیکھ لیں گے،جج کو توہین عدالت کی درخواست میں فریق نہیں بنایا جا سکتا،چیف جسٹس پر الزامات لگا کر بنچ سے الگ ہونے کا نہیں کہا جاسکتا،چیف جسٹس یا جج پر الزامات لگا کر اختیارات کم نہیں کیے جاسکتے،چیف جسٹس غیر موجودگی میں اپنا قائم مقام مقرر کرتا ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہماری درخواست کے دو حصے ہیں، پہلے حصے میں بنچ پر اعتراض اٹھایا گیا ہے،بنچ کی تشکیل پر حکومت نے اعتراض اٹھایا ہے،جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کیخلاف کیس سننے والے بنچ پر اعتراض ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کیسے مفروضہ پر بات کر سکتے ہیں کہ کیس میں چیف جسٹس سمیت دو ججز کا مفاد وابستہ ہے، ایگزیکٹیو سپریم کورٹ کے اختیارات میں مداخلت نہ کرے، انکوائری کمیشن بنانے سے قبل ہم سے پوچھا تک نہیں گیا۔

اٹارنی جنرل نے ججز کے ذاتی مفاد سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلوں کا حوالہ دیا۔ اس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ پہلے اپنی درخواست کے قابل سماعت ہونے پر دلائل دیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ محض الزامات کی بنیاد پر ججز پر اعتراض نہیں کیا جاسکتا، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ انکوائری کمیشن کے ٹی او آرز بارے پہلے بتائیں،حکومت کا کیا یہ کیس ہے کہ آڈیوز اوریجنل ہیں،کیا حکومت آڈیوز کی تصدیق ہونے اور درست ہونے کا موقف اپنا رہی ہے؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ حکومت نے آڈیوز کو مبینہ کہا ہے اور تحقیقات کیلئے کمیشن قائم کیا۔ جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ کیا یہ بات درست ہے کہ ہیکر نے آڈیوز لیک کیں اور سینئر وزرا نے پریس کانفرنس کر کے انھیں پبلک کیا،وفاقی وزیر داخلہ نے آڈیوز لیکس سے متعلق پریس کانفرنس کی۔ کیا یہ ان سے متعلقہ معاملہ تھا؟آڈیوز کی تحقیقات کیے بغیر کیا میڈیا پر ان کی تشہیر کی جاسکتی ہے،آڈیوز کے درست ہونے یا نا ہونے سے پہلے ہی حکومت نے پبلک کر کے اپنا فیصلہ سنا دیا،تحقیقات کیے بغیر کیا اس طرح پریس کانفرنسز کرنی چاہئیں تھیں؟وزیر اعظم کو آکر کہنا چاہیے تھا کہ وزرا کی پریس کانفرنس سے تعلق نہیں،قانون کے مطابق کیا بغیر حقیقت جانے کوئی حکومت عہدیدار کسی جج پر الزام لگا سکتا ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ کسی وزیر کی پریس کانفرنس کا کابینہ کا فیصلہ یا بیان نہیں کہہ سکتے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ وزیر اگر اپنی مرضی سے بات کرے تو یہ کابینہ کا بیان تصور ہوگا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ دیکھنا ہوگا کہ وزرا کے بیانات 9 مئی سے پہلے کے ہیں یا بعد کے ہیں۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ جب حکومتی وزرا پریس کانفرنس میں سب کہہ چکے تو موجودہ درخواست کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ حکومت نے نومئی کے بعد کمیشن قائم کیا۔

اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ کتنا منفرد اور پیارا انصاف ہے کہ سب سے بڑی عدالت کے ججز پر الزام لگا دیا جائے،کیا انصاف دینے والوں پر اس طرح الزام تراشی کرنا انصاف کی بات ہے،پریس کانفرنس کر کے ججز پر الزامات لگائے گئے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں کابینہ کے موقف کی دفاع کرونگا کسی انفرادی وزیر کا نہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم میڈیا اور پیمرا سے جواب مانگیں گے کہ کیسے ججز پر الزامات کی تشہیر کی گئی؟قرآن پاک بھی کسی پر الزام تراشی سے منع کرتا ہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ایسے نہیں ہوتا کہ جج پر کوئی اعتراض اٹھائے اور جج بنچ سے الگ ہوجائے،سوشل میڈیا کے منفی پہلو بھی ہیں،کوئی بھی نامعلوم ہیکر سے کہہ کر ججز کیخلاف جھوٹی خبریں لگوا سکتا ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ لیک آڈیوز میں ایک چیف جسٹس کی ساس سے متعلق ہے۔

 اس پر جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ کیا آپ کا اس وقت کیس یہ ہے کہ آڈیوز بادی النظر میں درست ہیں؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاقی حکومت نے اس معاملہ پر ابھی صرف کمیشن بنایا ہے۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پریس کانفرنس میں کچھ آڈیوز چلا بھی دی گئیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس طرح اداروں کیخلاف باتیں نہیں ہونی چاہئیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ کیا پتا چلا کہ یہ نامعلوم اکاؤنٹ  کون چلا رہا ہے؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ کمیشن بنانے کا مقصد اس سب  کی تحقیقات کروانا تھا۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ بغیر تحقیق بیان دینے پر تو اس وزیر کو ہٹا دیا جاتا یا وہ مستعفی ہوجاتا۔ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ میرے علم میں نہیں کہ پریس کانفرنس کس نے کی؟

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اتنے اہم ایشو پر کابینہ کی اجتماعی ذمہ داری سامنے آنی چاہیے تھی، وزیر اگر چائے پینے کا کہے تو الگ بات ہے، یہاں بیان اہم ایشو پر دیا گیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ نامعلوم ٹویٹر ہینڈل کا پتا کریں کہ وہ ملک یا بیرون ملک سے آپریٹ ہو رہا ہے؟کیا حکومت نے اپنے وسائل استعمال کر کے پتا کیا کہ آڈیوز ریکارڈ کہاں سے اور کیسے ہو رہی ہیں؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ حکومت چاہتی تھی کہ انکوائری کمیشن آڈیوز کی تمام تر تحقیقات کرے، نہیں معلوم کہ آڈیوز وٹس ایپ کال کی ہیں یا فون کال کی۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ایگزیکٹو نے اختیارات کی تقسیم میں مداخلت کی،اب حکومت آکر کہہ رہی ہے کہ کچھ ججز کیس نہ سنیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ جو یہاں میں بیان کر رہا ہوں یہ وفاق اور حکومت کی رائے ہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اگر وزیر خزانہ معیشیت بارے کوئی بیان دیں تو وہ حکومت کا پالیسی بیان نہیں ہوگا؟ 1996 میں محترمہ بینظیر بھٹو کی حکومت ختم ہوئی تھی، محترمہ بے نظیر کے دور میں سپریم کورٹ سمیت سینئر حکام کی کال ریکارڈنگ کا الزام لگا،جب کیس سپریم کورٹ میں آیا تو سات رکنی لارجر بنچ نے کال ریکارڈنگ سے متعلق فیصلہ دیا،کیا بینظیر کیس میں 1996 کا سات ممبر بنچ کا فیصلہ غلط ہے؟آرٹیکل 4 سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے واضح ہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاقی حکومت کا یہ کیس بالکل نہیں کہ کیس میں ججز کی بدنیتی شامل ہے،

کالز کیسے ریکارڈ کی گئیں کمیشن کے ذریعہ تمام عوامل کا جایزہ لیا جائے گا،کوئی معاملہ اگر سپریم کورٹ کے تمام ججز سے متعلق نکل آئے پھر نظریہ ضرورت پر عمل ہوسکتا ہے،اگر تمام ججز پر سوال ہو پھر بھی کہا جا سکتا ہے کہ اب کیس کسی نے تو سننا ہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ بے نظیر بھٹو کیس سننے والے سات میں سے چار ججز کے فون ٹیپنگ کی گئی تھی،اس کیس میں صدر کے اختیارات کا سوال تھا۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ بے نظیر کیس میں بنچ پر اعتراض نہیں ہوا۔ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاقی حکومت کا کیس تعصب کا نہیں مفادات کے ٹکراو کا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کیا یہ اعتراض صرف جوڈیشل کاروائی پر بنتا ہے یا انتظامی امور کی انجام دہی پر بھی ہے؟ آپ نے میرے علاوہ دو اور ججز پر بھی اعتراض کیا ہے،کیا آپ چاہتے ہیں کہ باری باری سب پر اعتراض کیا جائے؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ درخواست ہے کہ بنچ پر اعتراضات سے متعلق دلائل پر غور کیا جائے۔ اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہوئے تو درخواست گزار عابد زبیری کے وکیل شعیب شاہین نے دلائل شروع کئے۔

شعیب شاہیں نے کہا کہ اٹارنی جنرل جس فیصلے کا حوالہ دے رہے تو وہ اقلیتی رائے تھی،اگر کسی جج پر اعتراض ہو تو بھی اس پر کیس سننے کی ممانعت نہیں،حکومت انتخابات سمیت تمام مقدمات میں مدعی ہے اور خود ہی بنچ تشکیل دینا چاہتی ہے،حکومت نے کمیشن کے ٹی او آرز میں تو شامل نہیں کیا کہ آڈیوز ریکارڈ کرنے والوں کی تحقیقات کی جائیں۔

شعیب شاہین نے کہا کہ آڈیوز کو درست سمجھ کر کہہ دیا گیا کہ عدلیہ کی آزادی متاثر ہوئی،ساری آڈیوز پنجاب الیکشن سے متعلق سوموٹو کے بعد آنا شروع ہوئیں،تمام آڈیوز ایک ہی ہیکر کے ذریعہ منظر عام پر لائی گئیں۔جس بنیاد پر بنچ تبدیلی کی درخواست ہے وہ دیکھی،کیا ہم آڈیوز کو پہلے ہی تسلیم کر لیں؟یہ تو بلیک مینلنگ کا بہت آسان طریقہ ہوجائے گا،کسی بھی فیک آدمی کے ذریعے جعلی آڈیوز بنوا دی جائیں گی،اس عدالت نے صرف الیکشن کرانے کا کہا تھا،اس پر آڈیوز آنے لگی اور ٹاک شوز میں کیا نہیں کہا گیا، پیمرا اس دوران کہاں دیکھ لیں پیمرا سے ریکارڈ منگوا کر دیکھ لیں،عدلیہ کو تقسیم کرنے کی سازش کی گئی،عدلیہ کی آزادی بہت اہم ہے، لوگ عدالت کی طرف دیکھ رہے ہیں،لوگوں کے سیاسی نظریات پر ان کے بیاسی سال کے والد کو اٹھا لیا جاتا ہے، کیا عدلیہ میں ایگزیکٹو ایسے مداخلت کرے گی؟

شعیب شاہین ایڈووکیٹ نے کہا کہ افسوس یہ ہے کہ پیمرا کوئی چیک نہیں رکھ رہا،جسٹس محسن اختر کیانی نے آڈیو ویڈیو لیکس کی نشریات پر پابندی لگائی،پابندی کے باوجود آڈیو ویڈیو لیکس کو نشر کیا گیا اور پیمرا نے کوئی نوٹس نہیں لیا،عدلیہ کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی ہے، سولہ فروری سے اب تک کی وزراء کی پریس کانفرسز دیکھ لیں کہ کس کس طریقے سے ججز کے بارے بات ہوئی، پارلیمنٹ نے ایک قرارداد کے ذریعے سپریم کورٹ کے فیصلے اور آئین کو معطل کر دیا،جو بھی کل چیف جسٹس ہو کیا حکومت اٹھ کر آجائے گی کہ اپنے جج کیخلاف آڈیو پر تحقیقات کرو،سپریم کورٹ ہی آخری امید ہے،سیاسی ورکرز کے ساتھ جو ہو رہا ہے وہ دیکھیں،ملک میں بنیادی حقوق کی بدترین خلاف ورزی ہو رہی ہے لوگ سپریم کورٹ کی طرف دیکھ رہے ہیں،بزرگ لوگوں کو گھروں سے اٹھایا جارہا ہے،سپریم کورٹ کے باہر کھڑے ہوکر ججز کے بارے میں کیا کچھ نہیں کہا گیا۔

درخواست گزار کے وکیل شعیب شاہین نے دلائل مکمل کئے تو وکیل امان اللہ کنرانی کی بات کرنے کی کوشش کی،چیف جسٹس نے امان اللہ کنرانی کو بات کرنے سے روک دیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل اور شعیب شاہین کے دلائل کو سراہتے ہیں۔

شعیب شاہین نے استدعا کی کہ حکم امتناع میں توسیع کر دیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ حکم امتناع تو برقرار ہے۔

سپریم کورٹ میں بنچ پر اعتراض سے متعلق وفاقی حکومت کی درخواست پر سماعت مکمل ہو گئی،بنچ میں شامل تین ججز پر وفاقی حکومت کے اعتراض پر فیصلہ محفوظ کر لیا گیا اور سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی گئی۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین