ٹاپ سٹوریز
نفرت اور تقسیم کی سیاست، مداخلت کے الزامات، کیا سیاسی جماعتیں واقعی فوج کو غیر جانبدار رکھنا چاہتی ہیں؟
پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون نے 16 سال قبل آج ہی کے دن( 14مئی کو)لندن میں ایک سیاسی دستاویز پر دستخط کئے تھے جسے میثاقِ جمہوریت کا نام دیا گیا۔
میثاق جمہوریت کے سولہ برس بعد بھی ملک کے حالات وہی نقشہ پیش کر رہے ہیں جو ان دونوں رہنماؤں کو مذاکرات کی میز پر لائے اور وہ اس دستاویز پر اتفاق کرنے پر مجبور ہوئے۔
میثاق جمہوریت کے بعد ایک پوری نسل جوان ہو کر ووٹر بن چکی ہے،اس نئے ووٹر طبقے کو شاید اس دستاویز کی اہمیت، اس کے پیچھے کارفما حالات اور عوامل کا درست ادراک نہیں، میثاق جمہوریت کیا ہے؟ اس کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس میثاق پر کس قدر عمل ہوا اور آج کے حالات میں ایسے ہی کسی میثاق کی ضرورت کیوں ہے؟ ان سوالات کے جواب کھوجنے کی کوشش کی گئی ہے۔
میثاق جمہوریت کیا تھا؟
سن2006 میں جنرل مشرف کے اقتدار کو سات سال ہو چکے تھے، ملک کی دونوں بڑی جماعتوں کی قیادت جلاوطن تھی اورملک میں جمہوریت کی واپسی کے لیے مخالفت بھول کرایم آرڈی کے پلیٹ فارم پر اکٹھی تھی، اسی قربت کے نتیجے میں یہ میثاق وجود میں آیا۔ 8 صفحات کے اس معاہدے کی اہم شقیں کچھ یوں تھیں۔
٭ 1973 کے آئین کو دس اکتوبر 1999 کی شکل میں بحال کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔
٭ ملک کے دفاعی بجٹ کو منظوری کے لیے پارلیمنٹ کے سامنے پیش کرنے کی سفارش کی گئی۔
٭ دونوں بڑی سیاسی جماعتوں نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ آئندہ وہ کسی فوجی حکومت میں نہ تو شامل ہوں گی اور نہ ہی حکومت میں آنے اور منتخب حکومت کے خاتمے کے لیے فوج کی حمایت طلب کریں گی۔
٭ لیگل فریم ورک آرڈر ’ایل ایف او‘ آئین میں ساتویں ترمیم کے تحت مشترکہ طریقہ انتخاب اقلیتوں اور خواتین کی نشتوں میں اضافے، ووٹنگ کی عمر میں کمی اور پارلیمنٹ کی نشستوں میں اضافے جیسی ترامیم کو ختم کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔
٭ تین مرتبہ وزیر اعظم منتخب ہونے پر عائد کی گئی پابندی کی مخالفت کی گئی اور اسے ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔
٭ سفارش اورمطالبہ کیا گیا ہے کہ ڈیفنس کیبینٹ کمیٹی کی سربراہی وزیراعظم کے پاس ہونی چاہیے۔
٭ جوہری رازوں کی چوری کا امکان ختم کرنے کے لیے جوہری اثاثوں کا مؤثر کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم تشکیل کرنے کی سفارش کی گئی۔
٭ فوج اور عدلیہ کے تمام افسروں کو ارکان پارلیمنٹ کی طرح اپنی جائداد اور آمدنی کے سالانہ گوشوارے جمع کرانے کا پبند بنانے کی سفارش کی گئی۔
٭ ایک ایسا کمیشن بنانے کی سفارش کی گئی ہے جو 1996 کے بعد جمہوری حکومتوں کو ہٹانےاور کارگل جیسے واقعات کی تحقیقات کرےاوراس سے متعلق ذمہ داری کا تعین کرے۔
٭ آئی ایس آئی، ملٹری انٹیلی جنس اور تمام دیگر خفیہ ایجنسیوں کو منتخب حکومت کے ماتحت بنانے اورتمام خفیہ اداروں کے سیاسی شعبے ختم کرنے کی سفارش کی گئی۔
٭ ایک ایسی کمیٹی بنانے کی سفارش کی گئی جو فوج اور خفیہ اداروں میں وسائل کے ضیاع کو روکنے کے بارے میں سفارشات مرتب کرے۔
٭ ملٹری لینڈ اور کنٹونمینٹ کووزارتِ دفاع کے تحت کرنے اورایک ایسا کمیشن بنانے کی سفارش کی گئی جو 12 اکتوبر 1999 کے بعد فوج کو الاٹ کی گئی زمین کے کیسوں کا جائزہ لے۔
٭ چارٹر آف ڈیموکریسی کے لیے دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ امتحدہ مجلس عمل ( مشرف دور میں مولانا شاہ احمد نورانی کی قیادت میں بننے والا دینی جماعتوں کا سیاسی اتحاد، جو خیبر پختونخوا میں حکمران تھا) سے بھی رابطہ کرنے کا فیصلہ ہوا۔
میثاق جمہوریت کن سیاسی حالات اور مجبوریوں کے اثرمیں ہوا؟
آمر جنرل ضیاء الحق کے آخری ایام کے دوران نوازشریف اور بے نظیر بھٹو کے درمیان مخاصمت اور مخالفت اپنے عروج کو پہنچ چکی تھی۔بے نظیر بھٹو سمجھتی تھیں کہ نواز شریف کو ڈکٹیٹر ضیاءالحق اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی مکمل اشیرواد اور پشت پناہی حاصل ہے۔
اِسی وجہ سے بے نظیربھٹو، نوازشریف اور آمرضیاء الحق کے خلاف بیک وقت دو محاذوں پر نبرد آزما تھیں۔ ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق کی اقتدار اور زندگی سے رخصتی کے بعد بھی بے نظیر بھٹو اور جناب نواز شریف میں مخاصمت جاری رہی۔ بے نظیر بھٹو مرکز میں وزیر اعظم تھیں اور پنجاب میں نواز شریف وزیراعلیٰ۔ دونوں کے درمیان عناد اپنے عروج پر تھا۔
دونوں کے صحافی بھی الگ الگ تھے۔ دونوں نے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے ہر ممکن کوششیں بھی کیں اور ہرہتھکنڈہ بروئے کار لائے۔ یہ ’’جنگ‘‘ طویل عرصہ تک ہوتی رہی۔ آخر میں دونوں متحارب سیاسی فریق بہت کچھ گنوا کر اس نتیجے پر پہنچے کہ اُن کی باہمی مخالفت وعداوت سے کوئی تیسرا فریق اپنے مفادات سمیٹ رہا ہے ۔
ان دنوں جنرل پرویز مشرف نے بعض ایسی آئینی ترامیم متعارف کرائیں جس سے وزیراعظم کے اختیارات محدود ہوئے اور مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی قیادت کو سیاست سے باہر رکھنے کے لیے تیسری بار وزیر اعظم بننے پر پابندی بھی لگائی گئی۔
تیسری قوت کی مداخلت اور اقتدار سے جبری بیدخلی کا احساس تھا جس نے نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کو میثاقِ جمہوریت (COD) پردستخط کروانے پر مجبور کیا۔
میثاق جمہوریت پر کس قدر عمل ہوا؟
پاکستان پیپلز پارٹی نے 2008ء میں اقتدار سنبھالا۔ جس کے بعد 2013ء میں مسلم لیگ نواز کی حکومت بنی۔ دونوں جماعتوں میں بعض معاملات پر اختلافات کے باوجود ماضی کے مقابلے میں تعلقات بہتر رہے اور سب سے زیادہ پیشرفت صوبائی خود مختاری سے متعلق ہوئی اور 18ویں آئینی ترمیم کو اتفاق رائے سے منظور کیا گیا۔جن میں اٹھارہویں آئینی ترمیم کے علاوہ نگران حکومت و چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کے معاملات اتفاق سے طے پائے۔
فوج کے سربراہ کو تعینات کرنے کا مینڈیٹ بھی وزیراعظم کے پاس آیا لیکن اس میں ابھی بھی ایک تکنیکی معاملہ ہے کہ فوج تین نام بھیجتی ہے اور ان تینوں میں سے ہی وزیراعظم نے انتخاب کرنا ہے حالانکہ استحقاق چیف ایگزیکٹو کا ہے لیکن اثر و رسوخ فوج کا ہی رہتا ہے۔
میثاق جمہوریت میں فوج سے متعلق 15 آرٹیکلز میں سے صرف ایک آرٹیکل تین سروسز چیفس کی تقرری کے متعلق ہے۔ باقی شقوں میں کابینہ کی دفاعی کمیٹی کو مؤثر بنانے میں صرف جزوی کامیابی ملی۔ مشترکہ کمانڈ کا ڈھانچہ مضبوط نہیں ہو سکا کیونکہ اس کی قیادت صرف فوج کے پاس ہے۔ اگرچہ یہ تینوں سروسز کے درمیان منتقل ہوتے رہنا چاہیے تھی جیسا کہ میثاق جمہوریت کے تحت تصور کیا گیا تھا۔
باقی شقیں جن میں خاص طور پر دفاعی بجٹ، سچائی اور مصحالتی کمیشن کے قیام، مسلح افواج کا احتساب، انٹلیجنس ایجنسیوں پر سویلین کنٹرول، کشمیر کے حل سے متعلق پالسیوں اور پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے بھی بہت کم پیشرفت ہوئی۔البتہ سیاسی مبصرین نے اتفاق کیا کہ میثاق جمہوریت نے تب ایک سیاسی روادری کو جنم دیا۔
آئینی عدالت نہ بن سکی
میثاقِ جمہوریت کی ایک اہم شق آئینی عدالت کا قیام بھی تھا تاہم اس پر کوئی پیشرفت نہیں ہوئی۔ 18ویں آئینی ترمیم کی تشکیل میں مرکزی کردار ادا کرنے والے پیپلز پارٹی کے رہنما رضا ربانی نے ایک بار کہا تھا کہ 18ویں آئینی ترمیم کے وقت یہ جائزہ لیا گیا تھا کہ آئینی عدالت کی کتنی افادیت ہو گی۔اس وقت سیاسی جماعتوں کا جو تجزیہ سامنے آیا تھا کہ آئینی عدالت کے پاس ہو سکتا ہے اتنا کام نہ ہو اور ایک متبادل عدالتی ڈھانچہ لا کر کھڑا کر دیں اور پتہ چلے کے اکا دکا مقدمات ہی ریفر ہو رہے ہیں۔
اگر آپ آج کے حالات دیکھیں تو آئینی عدالت کے پاس جتنا بزنس ہو تا شاید کسی اور عدالت کے پاس نہ ہو۔
میثاق جمہوریت کی خلاف ورزی کے دوطرفہ الزامات
مثیاق جمہوریت کی خلاف ورزیوں پر دونوں جماعتیں ماضی میں ایک دوسرے پر انگلیاں اٹھاتی رہی ہیں جس کی ابتدا اس وقت ہوئی جب جنرل پرویز مشرف نے قومی مفاہمتی آرڈیننس ( این آر او) جاری کیا۔ مسلم لیگ نون کو اعتراض تھا کہ پیپلز پارٹی نے جنرل مشرف سے بات کیوں کی۔ جبکہ بینظیر بھٹو سمجھتی تھیں کہ بات چیت کے بغیر معاملات آگے نہیں بڑھائے جا سکتے۔
2008ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی نے وفاق میں حکومت بنائی تو مسلم لیگ نون اس کا حصہ تھی اور بازوؤں پرسیاہ پٹیاں باندھ کرجنرل مشرف سے حلف لیا جبکہ پنجاب میں مسلم لیگ نون کی حکومت بنی تو پیپلز پارٹی اس شراکت دار تھی.
ججز کی بحالی کے معاملے میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون میں ٹھن گئی اور مسلم لیگ نون حکومت سے الگ ہوگئی. اس طرح اپوزیشن لیڈر کا منصب مسلم لیگ نون کے اُس وقت رہنما نثار علی خان نے سنبھال لیا اور پرویز الہی کو اپوزیشن لیڈر کا عہدہ چھوڑنا پڑ گیا.
وکلا کی ججز بحالی کی تحریک میں مسلم لیگ نون شامل رہی اور اسی وجہ سے پیپلز پارٹی نے پنجاب میں گورنر راج لگا دیا اور شہباز شریف کی پنجاب میں حکومت کو معطل کر دیا. یہ گورنر راج اُس وقت لگایا گیا جب آصف علی زرداری صدر مملکت اور سلمان تاثر گورنر پنجاب تھے.
پنجاب میں گورنر راج کے بعد آخر کار پیپلز پارٹی بھی اپوزیشن بنچوں پر بیٹھ گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے حلیف حریف بن گئے. خود نواز شریف میمو گیٹ میں وکلا کے یونیفارم بلیک سوٹ پہن کر سپریم کورٹ گئے اور پیپلز پارٹی کے مخالف کے طور پر سامنے آئے۔
یہ وہی وہ وقت جب میثاق جمہوریت ایک دستاویز کے طور پر تو وجود رکھتا تھا لیکن عملی طور پر یہ ختم ہوگیا.
2013 ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت ختم ہوئی تو اس کی جگہ مسلم لیگ نون اقتدار میں آئی اور سابق حکمران جماعت پیپلز پارٹی اپوزیشن بنچوں پر بیٹھ گئی. 2018ء کے انتخابات عمران وزیر اعظم بنے تھے تو مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی دونوں ہی اپوزیشن میں بیٹھ گئے.
یہ وہی وقت تھا جب مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی میں دوبارہ رابطے استوار ہوئے اور یہ دونوں جماعتیں دس برس کے بعد ایک دوسرے قریب آئیں.
ایک بار پھر فوج کی مدد سے اقتدار میں آنے کا الزام
گزشتہ برس اپریل میں جب تحریک انصاف کی حکومت ختم ہوئی تو مسلم لیگ نون نے پیپلز پارٹی سمیت دیگر جماعتوں کی مدد سے حکومت بنائی اور شہباز شریف کی وازات عظمی میں بلال بھٹو زرداری وزیر خارجہ بن گئے۔
تحرئیک انصاف کی حکومت ایوان میں عدم اعتماد کے ووٹ سے ختم کی گئی لیکن عمران خان الزام لگاتے ہیں کہ انہیں نکالنے کی سٹیبلشمنٹ کا ہاتھ تھا اور سب اسی کے اشارے پر ہوا۔ یہ الزامات میثاق جمہوریت کی روح پر سوال اٹھاتے ہیں، میثاق جمہوریت دراصل فوج کے اقتدار یا اس کی مدد سے اقتدار کے خلاف تھا۔
پاک فوج نے حالیہ تبدیلی کے تناظر میں بارہا کہا کہ وہ غیر جانبدار ہیں۔ جب سابق وزیراعظم عمران خان نے بالواسط فوج کو تنقید کا نشانہ بنایا تو فوج کی جانب سے یہ کہا گیا کہ اداروں کو سیاست میں گھسیٹا نہ جائے۔
سیاسی جماعتیں فوج کی غیر جانبداری نہیں چاہتیں
موجودہ حالات میں فوج کی غیر جانبداری کے دعوے کے باوجود یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ کیا یہ غیرجانبدای مستقل ہے؟
اس سے بھی مشکل سوال یہ ہے کہ کیا سیاسی جماعتیں حقیقت میں فوج کو غیر جانبدار دیکھنا اور رکھنا چاہتی ہیں؟ المیہ یہ ہے کہ جب بھی کوئی جماعت اقتدار میں ہو تو وہ سٹیبلشمنٹ کو پرے رکھنے کی خواہشمند ہوتی ہے لیکن جب اپوزیشن میں ہو تو سٹیبلشمنٹ کی قربت کی طلبگار ہوتی ہے۔
آج پھر ملک میں نفرت اور تقسیم کی سیاست ہو رہی ہے، سیاسی انتقام اور فوجی مداخلت کے الزام کھلے عام لگ رہے ہیں، ان حالات میں دیکھنا ہوگا کہ سیاستدان ایک اور مارشل لا کے بعد حالات سدھارنے کے لیے مل بیٹھیں یا پھر اس سے پہلے بہتری کی کوئی صورت نکل سکتی ہے؟
-
کھیل1 سال ago
ورلڈ کپ میں ٹیم کی بدترین کارکردگی، سری لنکا نے اپنا کرکٹ بورڈ برطرف کردیا
-
کھیل1 سال ago
کم عمر لڑکی کی سیکس ویڈیو بنانے اور شیئر کرنے پر ریئل میڈرڈ کے 3 کھلاڑی گرفتار
-
تازہ ترین7 مہینے ago
چیئرمین پی سی بی دو طرفہ سیریز پر بات کرنے آئرلینڈ پہنچ گئے
-
پاکستان7 مہینے ago
مریم نواز سے گورنر پنجاب کی ملاقات،صوبے کی ترقی کے لیے اہم امور پر تبادلہ خیال
-
ٹاپ سٹوریز1 سال ago
آئی ایم ایف بورڈ سے معاہدہ منظور،1.2 ارب ڈالر کا فوری اجرا ممکن، باقی رقم دو سہ ماہی جائزوں سے مشروط
-
کالم2 سال ago
اسلام میں عبادت کا تصور
-
ٹاپ سٹوریز7 مہینے ago
اسحاق ڈار سے امریکی سفیر کی ملاقات، سکیورٹی اور اقتصادی تعاون سمیت دو طرفہ امور پر تبادلہ خیال
-
تازہ ترین9 مہینے ago
پی سی بی نے انٹرنیشنل ٹیموں کے قیام کے لیے عمارت خرید لی