Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

کالم

تحریک انصاف کا ڈرائی کلین اور باجوہ انٹری

Published

on

سوشل میڈیا پران دنوں ایک تصویر وائرل اور زیربحث ہے، اس تصویرکی خاص بات یہ تھی یہ اس میں موجودہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اکٹھے بیٹھے نظر آئے۔25 مئی کو یوم تکریم شہدا کا منایا گیا، پاک فوج کے ہیڈکوارٹرز میں اس حوالے سے منعقدہ تقریب میں موجودہ  فوجی قیادت کی جانب سے سابقہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو بھی مہمان خصوصی مدعو کیا گیا تھا۔

اس موقع پر لی گئی تصویر توجہ کا مرکز بنی، اس تصویر کو دیکھ کر ایک بات جو فوری ذہن میں آتی ہے وہ یہ کہ کیا فوج ایک پیج پر ہے؟ موجودہ قیادت اور سابق فوجی قیادت میں کوئی اختلاف نہیں ہیں؟ یا پھر یہ تصویر خود آرمی آفیشلز کی جانب سے جاری کی گئی ہے کہ جس کا مقصد تمام سیاسی و سماجی حلقوں  اور سیاسی ایوانوں کو یہ پیغام دینا ہے کہ 9 مئی کے بعد سے فوجی قیادت ایک پیج پر ہےاور متحد ہے۔

دوسری اہم بات تحریک انصاف سے سیاست دانوں کی علیحدگی کے اعلانات ہیں،اس طرح سے ان کا پارٹٰی کو چھوڑ جانا کیا تاثر پیدا کر رہا ہے؟

سب سے پہلے بات کرتے ہیں شہدا کی تقریب کے دوران جاری ہونے والی آمی چیف اور سابقہ آرمی چیف کی تصویر کی، اس تصویر میں اکستان کے سیاسی نظام اور پاکستان کے دوسرے اداروں کو ایک اہم پیغام دینے کی کوشش کی گئی ہے، ماضی میں بھی کچھ  آرمی چیف متنازع رہے ہیں، جن میں سرفہرست جنرل مشرف ہیں،ان کے دور میں چاہے انکے فیصلے ہوں یا ان کے کیسز ہوں، جن کا بعد میں مشرف کو سامنا کرنا پڑا،آرمی کی جانب سے ہمیشہ پوری کوشش کی گئی کہ جنرل مشرف پر کوئی آنچ نہ آئے اور ان کو بیرون ملک رکھ کر جتنی سہولت دی جا سکتی تھی آرمی کی جانب سے دی گئی۔

اسی طرح ضیاء الحق کا دور، اگر سب کو یاد ہو تو آج تک ان کے دور پر بھی کوئی انگلی نہیں اٹھا سکا، اس کے بعد جنرل کیانی، جنہوں نے مدت ملازمت میں توسیع لینے کے باوجوداپنے دور میں بہت متنازع فیصلے کیے،لیکن اس کے باوجود بھی جنرل کیانی پر کوئی انگلی نہیں اٹھاتا۔پھر جنرل راحیل شرف کا دور، جن کے لیے قانون سے بالاتر ہو کر یہ کوشش کی گئی کہ اگر یہ ایکسٹینشن نہیں لے رہے تو وہ سعودی عرب میں ملازمت کر سکتے ہیں۔ان سب کے بعد دور آتا ہے جنرل قمر جاوید باجوہ کا، ان کا جو دور ہے وہ اس لیے بہت متنازع کہ اس میں جو عمرانی پراجیکٹ تھاوہ اپنی عملی شکل پر نظر آیا۔ رمران خان کو زور زبردستی سےاقتدار دلوایا گیا،اس پراجیکٹ میں سب سے بڑا ہاتھ جنرل قمر جاوید باجوہ کا تھا اور اسکے بعد جنرل فیص حمید کا تھا۔ ان سے پہلے جنرل قمر الاسلام اور جنرل شجاع پاشا نے بھی اپنا اپنا کردار ادا کیا۔

سب سے اہم کردار جنرل فیض کا تھا جن کے آنے کے بعد سیاست دانوں کا چناؤ شروع ہوا اور کئی سیاست دانون پر نیب کے کیسز بھی بنائے گئے۔ 25 مئی کو جو تصویر جاری ہوئی۔25 مئی کو اس تقریب میں سابق آمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو مدعو کرنےکا کیا مطلب ہے؟ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اس بات سے قطع نظر کے جنرل باجوہ کتنے متنازع رہے ہوں، انہوں نے کتنے غلط فیصلے کیے، اور ان فیصلوں کا پاکستان کو کتنا نقصان ہوا، ان سب باتوں سے قطع نظر موجودہ قیادت  نے یہ پیغام دیا کہ پاک آرمی اپنے سابق آرمی چیف کو اہمیت دیتی ہے اور جس طرح جنرل مشرف ،جنرل کیانی، شجاع پاشاکو آرمی نے چاہے جیسی بھی صورتحال ہو، سپورٹ کیا ہے، بالکل اسی طرح یہ فوج، جنرل قمر جاوید باجوہ کو بھی طرح سپورٹ کرتی اور اہمیت دیتی ہے۔

اگرچہ اس تقریب میں جنرل باجوہ کو بلانے کی ضرورت نہیں تھی اور میرا ذاتی خیال ہے کہ جنرل باجوہ کو اس تقریب میں بلانا کوئی اتنا اچھا فیصلہ نہیں تھا، کم از کم آپ اگر نیوٹرل ہونے کی بات کر رہے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس وقت جو پورے ملک مٰں ایک افراتفری کی جوصورتحال ہے اور پی ٹی آئی کی جانب سے پاک فوج کے بارے میں جو پروپیگنڈا جاری ہے،اس سب کا ذمہ دار اورکوئی نہیں بلکہ جنرل قمر جاوید باجوہ ہی ہیں۔ یہ انہی کا بویا ہوا ہے جو اج موجودہ اسٹیبلشمنٹ کاٹ رہی ہے۔

ان حالات میں فوج کی جانب سے تمام عوامی و سیاسی حلقوں کو اہم ترین پیغام دے دیا گیا ہے کہ فوج اپنے سابق جرنیلوں کو کسی صورت بھی تنہا نہیں چھوڑتی، لیکن میرے مطابق فوج کا اس وقت یہ تاثر دینا کوئی قابل قدر اقدام نہیں ۔

المیہ یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں ہیں اور ہمارے ملک کا سیاسی نظام یہ بات نہیں سمجھ سکے ، اگر عمران خان اور موجودہ حکومت یہ بات سمجھ لیں کہ جب ادارے اکٹھے ہو سکتے ہیں، تمام تر اختلافات کے باوجود ایک پیج پر ہو سکتے ہیں تو ہماراسیاسی نظام کیوں ایک پیج پر نہیں ہو سکتا۔

موجودہ حالات میں ایک اور اہم بات آڈیو لیکس تحقیقات کے لئے جسٹس قاضی فائز عیسی کی  سربراہی  میں ایک کمیشن بنایا گیا ہے، اس کمیشن نے کام بھی شروع کر دیا ہےلیکن اس حوالے سے جمعہ کے روز چیف جسٹس کی سربراہی میں لارجر بینچ کی سماعت کے دوران جو ریمارکس آئے اس میں عدلیہ کی جانب سے بہت واضح کہا گیا کہ کمیشن کا قیام ہمارے اختیارات میں مداخلت ہے،اس کا مطلب ہے کہ اعلی عدلیہ اس کمیشن کو کام نہیں کرنے دے گی۔عدلیہ کی جانب سے بھی ایک لائن کھینچ دی گئی کہ کوئی بھی ہو ملک کا سیاسی نظام ہی کیوں نہ ہو، پارلیمنٹ ہی کیوں نہ ہو، وہ عدلیہ کی  اس لائن کو کراس نہیں کر سکتا۔

سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم یہ نہیں فیصلہ کر پا رہے کہ ملک کی اصل طاقت کس کے پاس ہے، پارلیمنٹ یہ کہتی ہے کہ وہ سپریم ہےلیکن عدلیہ اس بات بات کو نہیں مانتی اوروہ خود کو سب سے افضل سمجھتی ہے،، اسٹیبلشمنٹ اپنے آپ کو سب سے اعلیٰ سمجھتی ہے،اسی طرح جو پاکستان کے دو بڑے ادارے  عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ ان دونوں نے ایک بار پھر واضح کر دیا ہے کہ جو ہماری حدود ہیں ان سے کوئی بھی تجاوز نہیں کر سکتا ، اب یہ بات سیاسی نظام چلانے والوں اور سیاستدانوں  کو سمجھنی ہے کہ ان لوگوں نے کب اپنی حدود کا تعین کرنا ہے اور اسکے بعد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ان تمام حدود سے خود بھی تجاوزنہ کرنا اور کسی تیسرے فریق کو اس حدود میں مداخلت نہ کرنے دینا ہے لیکن ایسا ابھی تک تو دیکھنے میں نہیں ملا۔

پاکستان تحریک انصاف سے پارٹی رہنما رجلت کے ساتھ علیحدگی اختیار کر رہے ہیں،ان میں اسد عمر نے پارٹی تو نہیں چھوڑی لیکن پارٹی عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کے اسٹیبلشمنٹ سے اچھے روابط ہیں ، ان کے خاندان میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اسٹیبلشمنٹ سے تعلق رکھتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان پر ایک حد سے زیادہ دباؤ نہیں ڈالا گیا۔

شاہ محمود قریشی پر بھی  سوالیہ نشان ہے کہ وہ کب تک پارٹی کو خیرباد کہتے ہیں، فواد چوہدری نے پچھلے 15 سال میں چار پارٹیاں بدلی ہیں، پہلے مشرف کے ساتھ رہے پھر ق لیگ اور اسکے بعد کچھ عرصہ پیپلز پارٹی کے ساتھ رہے، 2016 میں تحریک انصاف میں داخل ہو گئے، فواد چوہدری جس بھی پارٹی میں رہے، انہوں نے اہم عہدہ پکڑا، تحریک انصاف میں بھی وہ پارٹی کے نائب صدر تھے، لیکن انہوں نے پارٹی چھوڑنے میں دیر نہیں کی

کسی نے درست کہا ہے کہ یہ جو تمام لوگ جا رہے ہیں اس سے پارٹی کا جو گند ہے وہ صاف ہو رہا ہے،اوراگلے سسٹم میں جب حالات ذرا مناسب ہو جائیں گے توعمران خان کو جو پی ٹی أئی ملے گی وہ بالکل ڈرائی کلین ہو کر ملے گی۔ ڈرائی کلین کا لفظ پی ٹی آئی کی جانب سے استعمال کیا جاتا تھا جب پی ٹی آئی میں جہانگیر ترین  دوسری جماعتوں سے لوگوں کو توڑ کر لاتے تھے اور ان گلے  مین پی ٹی آئی کا پرچم ڈالا جاتا تھااور کہا جاتا تھا کہ اب وہ پی ٹی آئی میں آگئے ہیں اور  ڈرائی کلین ہو چکے ہیں۔ میرے خیال میں تو پی ٹی آئی حقیقی معنوں میں اب ڈرائی کلین ہو رہی ہے، کیونکہ پہلے پی ٹی آئی میں ایسے لوگ تھے جوکہ فصلی بٹیرے تھے جو اپنے مفادات کے لیے اپنی وفاداریاں تبدیل کر لیتے تھے۔

أنے والے دنوں میں اگر عمران خان کی سیاست زندہ رہتی ہے اور انہیں مزید کیسز میں نہیں الجھایا جاتااور پاکستان  تحریک انصاف پر پابندی نہیں نہیں لگائی جاتی تو ہم ایک نئی پاکستان تحریک انصاف ہم دیکھیں گے اور میرا خیال یہ ہے کہ اب جو تحریک انصاف ہو گی وہ زیادہ دیرپا ہو گی۔

عمران خان کو یہ بات بھی ذہن مین رکھنی پڑے گی کہ جب ان کی حکومت میں مخالف سیاسی رہنماؤں پر کیسز بنائے گئے، خورشید شاہ کو 700 دن جیل میں رکھا گیا، 600 سے ذیادہ دن سعد رفیق کو جیل میں رکھا گیا، ن لیگ کے مختلف رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا، منشیات کے کیسز بنائے گئے۔ ان تمام رہنماؤں نے مہینوں جیل بھی کاٹی لیکن لیکن کسی بھی رکن کی جانب سے پارٹی کو خیرباد نہیں کہا گیا۔

عمران خان کویہ نہیں سوچنا چاہیےکہ پارٹی چھوڑنے والوں پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے، کیونکہ پاکستان کی تاریخ میں جب بھی کسی بھی سیاسی جماعت پر دباؤ ڈالا گیا صرف وہی لوگ پارٹی کے ساتھ رہے جو کہ واقعی میں اپنی پارٹی کے لیے اپنی قیادت کے لیے مخلص تھے،جو فصلی بٹیرے تھے وہ یہ دباؤ برداشت نہیں کر سکے،یا وہ لوگ جن کو اسٹیبلشمنٹ کسی سیاسی پارٹی میں رکھتے ہیں وہ لوگ پارٹی کے مشکل وقت میں کسی بھی قسم کا دباؤ برداشت نہیں کرتے، اور اپنے مفادات کے لیے اپنی وفادریاں تبدیل کر لیتے ہیں،عمران خان کو بھی ان لوگوں کی فکر چھوڑ دینی چاہیے اور جو لوگ ان کے پاس بچے ہیں ان کی قدر کرنی چاہیے اور نئے انداز میں پارٹی کو بنانا چاہیے۔

ثنا مرزا 2003ء سے میڈیا خصوصا صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں ایک دہائی سے زیادہ نامور ادارے جیو جنگ گروپ کاحصہ ہونےکے علاوہ وآئس آف امریکہ(واشنگٹن)، 92نیوز، 24نیوز، ریڈیو پاکستان اور متعدد ایف ایم ریڈیوز میں خدما ت انجام دے چکی ہیں

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین