Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

کالم

پی ٹی آئی کا قبلہ

Published

on

The leadership of PTI Lahore failed to mobilize the workers for the rally, they submitted their own arrests, party sources.

ملکی سیاست کے اِن دنوں عالمی میڈیا میں بھی چرچے ہیں، انتخابات کو لے کر عالمی ادارےاورمیڈیا کافی متحرک نظر آتے ہیں ۔عالمی میڈیا اور اداروں کی خبریں کبھی کسی جماعت کے حق میں جاتی ہیں تو کبھی کسی اور جماعت کے ۔اور جس جماعت کےخلاف بات جاتی ہے تو دوسری مخالف جماعتیں اُس کو کیش کرواتی ہیں ۔جیسا کہ تحریک انصاف کو دیکھ لیں ۔پچھلے دنوں برطانوی اخبار نے نواز شریف کی اقتدار کی راہ ہموار کرنے کیلئے پری پول دھاندلی کا الزام لگاتے ہوئے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ الیکشن کمیشن نے نواز شریف کو فائدہ پہنچا۔

برطانوی جریدے کی جانب سے یہ  الزام بھی لگایا گیا تھا کہ الیکش کمیشن نے انتخابات میں تاخیر اس لیے کی کیونکہ نواز شریف برطانیہ سے واپس آ کرا لیکشن مہم کی تیاری کر سکیں ۔ اِس کے علاوہ انتخابی حد بندیوں پر اعتراضات بھی لگایا گیا کہ حلقہ بندی میں تبدیلی  کسی خاص فرد یا پارٹی کو فائدہ پہنچانے کے لیے کی جا رہی ہے ۔جبکہ  ترجمان الیکشن کمیشن کا عالمی میڈیا کے اِن الزامات پر  کہنا تھا کہ حد بندی قانون کے مطابق ہوئی ہیں اور ظاہر ہے نواز شریف کیخلاف میرٹ پر کیسز ختم ہوئے اِن کو جس طرح نکالاگیا اور اِن کیلئے جس طرح سے لیول پلئنگ فیلڈ بند کی گئی وہ سب کے سامنے ہے ۔اب اُنہیں انصاف مل رہا ہےتو اِس کو تحریک انصاف کی طرح برطانوی اخبار نےمشکوک نظروں سے دیکھا۔جس کے بعد تحریک انصاف نے خوشی سے چھلانگیں مارنا شروع کردی ۔لیکن اب برطانوی اور امریکی میڈیا اور اداروں نے نواز شریف کی انتخابات میں ممکنہ  جیت اور اِس جیتنے کی وجوہات بتائی ہیں ۔جس کے بعد ن لیگ کافی خوش نطر آرہی ہے۔

برطانوی ادارے اکانومسٹ  انٹیلی جنس کی رپورٹ کے مطابق2024    کے اوائل میں الیکشن کا انعقاد کیا جائے گا۔جس میں  پاکستان مسلم لیگ نواز جیت جائے گی اور پاکستان تحریک انصاف ہار جائے گی۔  آرٹیکل کے مطابق مظاہروں میں شدت آئے گی لیکن فوج کی طرف سےتیزی سے روکا جائے گا۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ن لیگ حکومت میں کس بنیاد پر آئے گی اور اُس میں پی ڈی ایم کی کارکردگی کو بنیاد بنایا گیا ہے ۔برطانوی ادارے کے مطابق پاکستان نے جون 2023 میں آئی ایم ایف سے نو ماہ کا قرض پیکج حاصل کیا، جس سےخودمختار قرضوں پر ڈیفالٹ کو روکنے میں مدد ملے گی۔ جولائی میں طویل انتظار کے بعد آئی ایم ایف کے اسٹینڈ بائی معاہدے پر بالآخردستخط کیے گئے، جس نے پاکستان کی مشکلات میں گھری معیشت کےلیے امید کی کرن پیدا کی۔ حکومت کی جانب سے ٹیکس چوری جیسی غیر قانونی سرگرمیوں پر کریک ڈاؤن تیز رفتاری سے  جاری رہا، جسکے نتیجے میں نمایاں بہتری آئی۔

اب یہ برطانوی ادارے کا مؤقف ہے اور اُس کی جانب سے مختلف وجوہات بتائی گئی ہیں  کہ ن لیگ کے اقتدارمیں آنے کے امکانات کیوں ہیں ۔ اب دوسری کہانی امریکی اخبار والاسٹریٹ جنرل بتا رہا ہے اوراِس کہانی میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ تحریک انصاف اقتدار کے لائق کیوں نہیں اور اِس کو دیوار سے لگایاجارہا ہے تو اِس کی ذمہ دار وہ خود ہے ۔

امریکی اخبار وال اسٹریٹ جنرل کی رپورٹ نے بانی پی ٹی کی قائدانہ صلاحیتوں پر تنقیدکرتے ہوئے اُن  کو ناکام آئیڈیاز کا حامل اور قیادت کیلئے ناموزوں قرار دے دیا۔امریکی  اخبار نے اپنے تجزیے میں لکھا کہ پی ٹی آئی مشکلات کا شکار ہے لیکن بانی پی ٹی آئی اگر  کسی طرح پاکستان کےدوبارہ وزیراعظم بن گئے تو وہ پاکستان کے تیز ترین زوال کا باعث بنیں گے۔

اخبار نے لکھا کہ پاکستان بڑھتی ہوئی دہشت گردی، کم ہوتی فی کس آمدنی اور 30 فیصد افراط زر کا شکار ہے، ایسے میں پاکستان کو ناکام آئیڈیاز کے حامل کرشماتی لیڈر کے بجائے سنجیدہ قیادت کی ضرورت ہے۔یعنی اگر تحریک انصاف اقتدار میں آتی ہے تو  یہ پاکستان کی معیشت اور امن و امان کیلئے  بہت بڑا سیٹ بیک ہوگا۔دیکھا جائے تو یہ بات بالکل درست ہے کہ پاکستان کی معیشت پی ٹی آئی کے دور میں بدترین سطح پر آپہنچی تھی جس کی وجہ سے ملک میں ڈیفالٹ کا خطرہ بڑھ گیا جس کوپی ڈی ایم حکومت نے ٹالا۔اور اِس کا کریڈٹ سابق وزیر اعظم شہباز شریفکی کاوشوں کو جاتا ہے ۔اگر ن لیگ مداخلت نہ کرتی تو  ملک خدانخواستہ ڈیفالٹ ہوچکا ہوتا۔

بانی پی ٹی آئی نے معیشت کے ساتھ ساتھ ملک کے خارجی تعلقات کو بھی جانتے بوجھتے ہوئے تباہ کرنے کی کوشش کی ۔اورامریکی اخبار وال اسٹریٹ جنرل اِسی کی تصدیق کر رہا ہے ۔اخبار کےمطابق  بانی پی ٹی آئی  کے پاس امریکا کی مخالفت اور بائیں بازو  کے پرانے معاشی خیالات کے سوا کچھ نہیں۔اخبار مزید لکھتا ہے کہ پاکستان کو چلانے کے لیے آئی ایم ایف کا قرض چاہیے اور امریکا آئی ایم ایف کا اہم رکن ہے، اگر بانی پی ٹی آئی اقتدار میں آگئے تو وہ  امریکا سے پاکستان کے تعلقات خراب کر لیں گے۔اخبار کے مطابق پاکستانیوں کو غربت سےنکالنا ہے تو اس کے لیے بانی پی ٹی آئی ہرگز موزوں نہیں لیکن  ان کےالیکشن لڑنے کے امکانات کم ہیں۔

اب دیکھا جائے تو پی ٹی آئی آج وہی کاٹ رہی جو اُس نے بویا۔بانی پی ٹی آئی نے ہمیشہ نفرت او انتقام کی سیاست کی لیکن آج وہ خود اُس انتقام کی آگ میں جل رہے ہیں۔اور عالمی ادارے اور میڈیا بھی اِس پر بات کر رہے ہیں ۔یہ تو بتایا جارہا ہے کہ تحریک انصاف کو لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں مل رہی لیکن اِس بات کا اقرار نہیں کیا جارہا ہےکہ جو کچھ نو مئی کو ہوا وہ سراسر اداروں کے خلاف بغاوت تھی، عوام کو اداروں کیخلاف گمراہ کرنا تھا ۔یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک جماعت کے افراد کوصرف اِس وجہ سے چھوڑ دیا جائے کہ اُنہوں نے الیکشن لڑنا ہے۔اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ تحریک انصاف پھر سے اُن غلطیوں کو نہیں دہرائےگی اور سب سے بڑھ کر یہ ہے کہ تحریک انصاف نے اپنے دور حکومت میں چار وزیر خزانہ بدلے لیکن معیشت کے حالات خراب سے خراب تر رہے اگر تحریک انصاف کو پھر اقتدار ملتا ہے تو وہ معاشی چیلنج سے کیسے نمٹےگی؟ کیونکہ اُس کے پاس نہ پہلے کوئی روڈ میپ تھا نہ اب کوئی روڈ میپ ہے۔لیکن بانی پی ٹی آئی کی اب بھی یہ خواہش ہے کہ کسی طرح سے پھر سے اسٹیبلشمنٹ کے سہارے اقتدار میں آجائیں ۔دیکھا جائے تو اب بھی کئی جگہ سے تحریک انصاف کو ریلیف مل رہا ہے اور ایسا ریلیف نوازشریف کو بھی اُس وقت نہیں ملا جب وہ مقدمات کا سیلاب بھگت رہے تھے۔ لیکن یہاں بانی پی ٹی آئی کو سائفر میں بھی غیر معمولی ریلیف ملا جسکے بعد قانونی ماہرین یہ کہتے ہیں کہ شاید اِس کیس میں اُنہیں کوئی ریلیف مل جائے ۔پھر اِسی طرح بلے کے نشان کے حوالے سے بھی ہائیکورٹ نے بڑا ریلیف دیا۔ ایک بات تو طے ہے کہ تحریک انصاف کے انٹراپارٹی انتخابات میں بہت سے جھول پائے گئے ۔منحرف رکن اکبر ایس بابر نے جو سوالات اُٹھائے کہ کسی اور کو چیئرمین پی ٹی آئی کاانتخابات لڑنے کی اجازت ہی نہیں دی گئی ۔جمہوری جماعت میں چلن بھی جمہوری ہونا چاہیے لیکن لگ ایسا رہا تھا کہ بانی پی ٹی آئی نے پہلے سے ہی یہ طے کرلیا تھا کہ یہ عہدہ وہ بیرسٹر گوہر کوہی دیں گے۔

اب الیکشن کمیشن  آف  نے  تحریک انصاف کے بلے کے انتخابی نشان کے معاملے پر پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کےخلاف  نظرثانی اپیل دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ذرائع الیکشن کمیشن کے مطابق الیکشن کمیشن بلے کے انتخابی نشان کےمعاملے پر ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف  پشاور ہائی کورٹ میں نظرثانی اپیل دائر کرے  گا۔اور شاید اگر یہاں بھی فیصلہ برقرار رہا تو پھر الیکشن کمیشن شاید سپریم کورٹ جائے۔کہنے کامقصد صرف یہ ہے کہ ایک طرف آپ اپنی پارٹی آئین پر عمل نہ کریں اورجب آپ سے پوچھا جائے تو مظلوم بن کر کہیں کہ راستہ نہیں دیاجارہا یعنی مظلومیت کارڈ کھیلا جائے یہ وطیرہ قطعی طور پردرست نہیں۔

تحریک انصاف کو چاہیے کہ وہ اپنی اداؤں پر غورکرے اپنی غلطیوں کا اعتراف کرے اور آگے بڑھے پھر جاکر اِس کیلئے کوئی گنجائش پیدا ہوسکتی ہے ۔بہرحال عالمی میڈیا اور اداروں کی اکثریت بھی تحریک انصاف کو  اس کے اعمال پر قصوروار گردانتے ہیں اور نواز شریف کو اُن کی قائدانہ صلاحیتوں اورصبر اور ہمت کی بنیاد پر اُنہیں آئندہ ملک کا وزیراعظم دیکھ رہےہیں۔اگر بانی پی ٹی آئی اپنی روش کو بدل لیں تو ممکن ہے اُن کےبارے میں دنیا اپنی سوچ بدل لے ۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین