Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

کالم

سزائیں صرف سیاست دانوں کو کیوں؟

Published

on

تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان بھی اُن وزراء اعظم کی فہرست میں شامل ہو گئے جنہیں عدالت سے سزا ہونے کے بعد  جیل بھیج دیا گیا۔ عمران خان  ملکی تاریخ کے چوتھے وزیر اعظم ہیں جنہیں وزارت عظمی سے الگ ہونے پر جیل جانا پڑا۔

عمران خان سے پہلے حسین شہید سہروری، ذوالفقار علی بھٹو اور نواز شریف،  نواز شریف واحد وزیر اعظم ہیں جن کو دو مرتبہ قید کی سزا ہوئی۔

یہ نواز شریف ہی تھے جنہوں نے وکلا تحریک کے پہلے لانگ مارچ کے اختتام سے پہلے پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر خطاب میں کہا تھا کہ کیا سزائیں صرف سیاست دانوں کیلئے ہی رہ گئیں ہیں؟ نواز شریف کے یہ الفاظ اُس وقت کے ہیں جب وہ قید اور نااہلی کیساتھ جلاوطنی کاٹ کر وطن آئے تھے لیکن 2013 میں تیسری مرتبہ وزیر اعظم کے بعد انہیں پھر جیل جانا پڑ گیا۔

پارلیمنٹ میں اُن سیاست دانوں کی تعداد میں آہستہ آہستہ اضافہ ہو رہا ہے جو کسی نہ کسی وجہ سے جیل جا چکے ہیں۔ نواز شریف کا یہ سوال بہت اہم ہے کہ آخر سیاست دان ہی جیل کیوں جاتے ہیں اس کی بنیادی وجہ سیاست دانوں کا اسٹیبلشمت کے مقابل اکٹھے نہ ہونا ہے اور اسی وجہ سے ان کے سیاسی اختلافات سیاسی عناد میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔

کسی ایک وزیراعظم کے نااہل ہونے یا جیل سے اس کی سیاسی مخالف جماعت اس بیانیہ کو اپنا لیتی ہے کہ جو بھی وہ قانون کے مطابق ہوا حالانکہ اُس وقت ان کا یہ موقف چاہیے جو ہوا ہے وہ اچھا نہیں ہوا ہے۔

 سیاست میں رقابت اور رفاقت دائمی نہیں ہوتی اس کی بہترین مثال آج کی حکمران جماعتیں ہیں جو کل تک ایک دوسرے کی بدترین مخالف تھیں اور آج کے اکٹھے حکومت کر رہی ہیں۔

ایک وقت تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو اور چودھری ظہور الٰہی ایک دوسرے کے بدترین دشمن تھے. ذوالفقارعلی بھٹو کیخلاف مقدمے کی کارروائی سننے کیلئے ظہور الٰہی بڑے اہتمام کیساتھ جاتے ہیں. صحافی ممتاز عامر صاحب نے ذوالفقار علی بھٹو کے مقدمے کی کارروائی کو کتابی شکل دی ہے جس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ چودھری ظہور الٰہی کمرہ عدالت میں ذوالفقار علی بھٹو کے بالکل سامنے والی نشست پر براجمان تھے اور بقول ممتاز عامر صاحب مرحوم کے  ذوالفقار علی بھٹو نے چودھری ظہور الٰہی کی عدالت میں موجودگی پر ناگواری کا اظہار کیا اور اپنا منہ پھیر لیا۔

یہ وہی چودھری ظہور الٰہی تھے جنہوں نے اُس کی قلم فرمائش بھی کی  تھی جس سے ذوالفقار علی بھٹو کے قتل کے عدالتی احکامات پر دستخط ہوئے۔ چودھری ظہور الٰہی کے قتل کا ذمہ دار الذوالفقار کو  سمجھا جاتا ہے لیکن پھر پہلے پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں چودھری ظہور الٰہی کے داماد پرویز الہی پیپلز پارٹی کے وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کیساتھ  ڈپٹی پرائم منسٹر بنے۔

اب ذوالفقار علی بھٹو کے نواسے بلاول بھٹو زرداری اور چودھری ظہور الٰہی کے پوتے شافع حسین دونوں ہی شہباز شریف کی کابینہ کے رکن ہیں۔ شہباز شریف، بینظر بھٹو اور چودھری بردارن کے درمیان ماضی میں سیاسی تناؤ اور مخالفت ڈھکی چھپی بات نہیں۔

یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ ذاتی زنجشیوں کو بالائے طاق رکھ کر آگے بڑھا جاسکتا ہے تو سیاسی اختلافات کو ختم کیوں نہیں کیا جا سکتا؟ نواز شریف سمیت تمام سیاست دانوں کو اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے کہ صرف سیاست دانوں کو ہی سزا کیوں دی جاتی ہے اور سیاست دان اس میں اپنا کیا کردار ادا کرسکتے ہیں؟ انہیں اُس گنتی کو روکنے کی ضرورت ہے جس میں وزراء اعظم کے جیل جانے سے اضافہ ہو رہا ہے۔

دوسری طرف  قومی اسمبلی کی تحلیل میں بس 48 گھنٹوں کا وقت باقی رہ گیا ہے. ابھی نگران وزیر اعظم کے نام پر اتفاق ہونا ہے لیکن اب یہ اندیشے حقیقت میں تبدیل ہو رہے ہیں کہ انتخابات مقررہ وقت پر نہیں ہوں گے کیونکہ  یہ واضح اور دو ٹوک حکومتی موقف سامنے آگیا کہ نئی مردم شماری کی بنیاد پر نئی حلقہ بندیاں ہونے کے بعد انتخابات ہوں گے. اسی وجہ سے اب فروری اور مارچ 2024 میں انتخابات کا کہا جا رہا ہے۔

تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے میڈیا سے گفتگو میں باور کرایا کہ مردم شماری کے نتائج مئی میں آگئے تھے تو اس پر کام کیوں نہیں کیا گیا، کیا یہ انتخابات ملتوی کرانے کا جواز پیدا کرنے کیلئے کیا گیا ہے؟

 اگر انتخابات وقت پر نہیں ہوتے  تو یہ آئین سے انحراف کے سوا کچھ نہیں اوراس مقصد کیلئے جو دلیل یا جواز گھڑ جائے گا وہ آئین کی منشا اور عوامی قبولیت کے مطابقت نہیں رکھے گا، آمریت میں تو انتخابات کا وقت پر نہ ہونا ایک معمول ہے لیکن جمہوری ادوار میں ایسا کرنا کسی طور بھی جمہوریت کے حق میں نہیں۔

قومی اسلمبی کی تحلیل تک نگران وزیر اعظم کی نامزدگی نہ ہونے سے یہ امکان ہے کہ موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف ہی نگران وزیر اعظم کے حلف اٹھانے تک اپنے عہدے پر قائم رہیں جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ حکومت نے سنجیدگی سے کوئی ہوم ورک کیا ہے اور معاملات کو آئین کے دائرہ کار میں نہیں دیکھا گیا اور اُس نظر انداز کیا گیا ہے۔

مہربان قومی اسمبلی نے جس تیزی سے آخری دنوں میں قانون سازی کی ہے وہ پارلیمنٹ کی روح اور حرمت کے منافی ہے، حکومتی قانون سازی نے پارلیمان کو ربڑ اسٹمپ بنا دیا ہے. ایسا کرنا عوامی خدمت تو ہرگز نہیں، پھر یہ سوال  ذہین میں گردش کرتا ہے ہے کہ اس رفتار سے قانون سازی کس کیلئے کی گئی ہے اور اس کا فائدہ کس کو ہوگا؟

عباد الحق گزشتہ 30 برس سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ آپ بی بی سی سمیت ملکی و بین الاقوامی صحافتی اداروں سے منسلک رہے ہیں جہاں آپ سیاسی و عدالتی امور کو کور کرتے رہے ہیں۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین