Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

ٹاپ سٹوریز

پنجاب:مستقبل کی سیاست کابلیوپرنٹ زرداری کی جیب میں؟

Published

on

حکومت اور اپوزیشن میں اس وقت مذاکرات جاری ہیں جن میں مرکزی نقطہ یہی ہے کہ  ملک میں آئندہ عام انتخابات کب ہوں گے۔ مہینہ آگے یا پیچھے، الیکشن کی طرف تو جانا پڑیگا۔  اگرچہ اس دوران طویل المدت ٹیکنوکریٹ حکومت سمیت  کئی سازشی تھیوریاں بھی گردش کررہی ہیں۔  تاہم سردست نظر تو یہی آرہا ہے کہ الیکشن  اسی سال ہوجائیں گے۔

اگر ان سازشی کہانیوں کو ایک طرف رکھیں اور ملک میں جاری سیاسی پولرائزیشن کو سامنے رکھتے ہوئے بات کی جائے تو ہمیشہ کی طرح اس بار  بھی الیکشن میں اصل میدان پنجاب میں ہی لگے گا۔  جو پنجاب جیتے گا وہی مرکز میں بھی تخت پر براجمان ہوگا۔

پنجاب کی  سیاست میں گذشتہ ایک دہائی كے دوران جو انقلابی تبدیلی رونما ہوئی وہ یہ كہ ایک بڑی سیاسی جماعت جو كبھی ملک كی سب سے بڑی سیاسی جماعت تھی وہ سیاسی منظرنامے سے یكسر غائب ہوگئی، یعنی پاكستان پیپلزپارٹی ۔

لاہور میں جنم لینے والی یہ پارٹی پہلے 2013 ء کے انتخابات میں محدود ہوئی اور پھر 2018 ء کے انتخابات میں اس كا  صفایا  ہی ہوگیا۔ ان انتخابات میں پورے پنجاب سے پیپلزپارٹی نے قومی اسمبلی كی صرف چھ سیٹیں جیتیں جبكہ پنجاب اسمبلی میں بھی اس كے ہاتھ صرف چھ ہی سیٹیں  آسكیں۔

پیپلزپارٹی كو ان بارہ نشستوں میں سے دس جنوبی پنجاب كے دو اضلاع رحیم یار خان اور مظفرگڑھ سے كامیابی ملی جبكہ جنوبی پنجاب كے دیگر اضلاع اور تمام تر وسطی پنجاب سے پیپلزپارٹی كا صفایا ہوگیا۔ سوائے گوجر خان سے راجہ پرویزاشرف كی قومی اسمبلی اور چنیوٹ سے سید حسن مرتضی كی ایک صوبائی اسمبلی کی سیٹ كے۔

 آئندہ الیكشن كے لئےپیپلزپارٹی كا كیا منصوبہ ہے؟

سپریم كورٹ كے حكم پر 14 مئی كو  ہونے والے پنجاب اسمبلی كے انتخابات كے لئے پیپلزپارٹی نے    اپنے تئیں بہت كام كیا۔ وسطی اور جنوبی پنجاب كی تنظیموں كو تمام حلقوں میں امیدوار كھڑے كرنے كا ٹاسک سونپا گیا۔ الیكشن كی غیر یقینی صورتحال كے باوجود پیپلزپارٹی نے  297  براہ راست انتخاب والی سیٹوں میں سے 278 پر امیدوار كھڑے كیے ہیں۔

ان میں سے وسطی پنجاب كی تنظیم نے 202 سیٹوں میں سے 190 پر امیدوار دئیے، جبكہ جنوبی پنجاب كی تنظیم نے 95 میں 88 سیٹوں امیدواروں كو ٹكٹ جاری كئے۔

جنوبی پنجاب میں سابق گورنر اور ییپلزپارٹی جنوبی پنجاب كے صدر مخدوم احمد محمود اور سابق وزیراعظم مخدوم یوسف رضا گیلانی نے غیرمعمولی محنت كی جس كی وجہ سے  وہاں بہت سے علاقوں میں پرانے جیالے اور بااثر سیاسی خانداندانوں نے دوبارہ پیپلزپارٹی كی طرف رجوع كیا ہے۔

مخدوم احمد محمود بہت  پرامید ہیں كہ آئندہ الیكشن میں نتائج ماضی سے مختلف ہوں گے اور پیپلزپارٹی اپنی چھ سیٹوں والی پوزیشن كو دوگنا سے بھی آگے لے كر جائے گی۔ جبكہ جنوبی پنجاب كے كورآڈی نیٹر عبدالقادر شاہین كہتے ہیں 95 میں سے كم از كم 35 سیٹوں پر ان كے امیدوار انتہائی مضبوط ہیں جبكہ 14 مئی كے الیكشن ملتوی ہونے كی صورت میں مزید قدآور سیاسی شخصیات پیپلزپارٹی میں آئیں گی تو صورتحال مزید ان كے حق میں بہتر ہوگی۔

دوسری طرف پیپلزپارٹی وسطی پنجاب بدستور برے حالات سے دوچار ہے۔ صوبائی صدر راجہ پرویزاشرف كے سپیكر قومی اسمبلی بن جانے كے بعد تو تنظیم مكمل مفلوج ہوكر رہ گئی ہے۔ قائم مقام صدر رانا فاروق سعید كو اہم پارٹی عہدیدار ماننے كو تیار نہیں۔

یہی وجہ ہے كہ گذشتہ ایك سال میں امیدواروں كی تلاش پر كوئی  كام نہیں ہوسكا۔ یہ حالات دیكھتے ہوئے فریال تالپور نے وسطی پنجاب كے معاملات اپنے ہاتھ میں لے لئے اور راتوں رات 190 امیدوار تو كھڑے كردئیے  لیكن حقیقت تو یہ ہے كہ وسطی پنجاب كی ساری ایكسرسائز محض ایك خانہ پری ہے۔

جس میں امیدواروں كی اكثریت كونسلر كا الیكشن لڑنے كی اہلیت بھی نہیں ركھتی۔ قائم مقام صدر رانا فاروق سعید كا كہنا ہے كہ پارٹی قیادت كی ہدایت كے مطابق پنجاب كے تقریبا تمام حلقوں میں امیدوار دے دئیے  ہیں الیكشن 14 مئی  كو ہوں یا بعد میں پیپلزپارٹی اپنا الیكشن الگ لڑے گی اور كسی سے الائنس نہیں كریگی۔

 پیپلزپارٹی یہ سب كیوں كررہی ہے؟

لیكن سوال یہ پیدا ہوتا ہے كہ پیپلزپارٹی اتنی جلدبازی میں یہ سب كیوں كررہی ہے۔ اس سلسلہ میں پیپلزپارٹی کے ذرائع كا دعوی ہے كہ پنجاب میں ٹكٹوں كی  تقسیم کی حالیہ ایکسرسائز محض تنظیموں كو مصروف ركھنے كا ایک جتن ہے۔ پنجاب كے سیاسی مستقبل  كا "بلیوپرنٹ”  ایک بار پھر آصف زرداری كی جیب میں ہے۔

جس كے مطابق  پیپلزپارٹی آئندہ كے سیاسی منظرنامے میں نہ صرف پنجاب سے قومی اسمبلی كی اپنی سیٹوں میں اضافہ كركے مركز میں وزارت عظمی كی دوڑ میں شامل ہوگی بلكہ پنجاب اسمبلی میں بھی اپنی نشستوں كو 40 كے قریب لے جانے كی كوشش كریگی تاكہ پنجاب میں حكومت سازی میں اسی طرح فیصلہ كن كردار حاصل كرے جو 2018 كی اسمبلی میں ق لیگ  كو حاصل تھا۔  اس مقصد كے لئے وہ پنجاب میں زیادہ سے زیادہ امیدوار كھڑے  كررہی ہے تاكہ الیكشن سے پہلے مسلم لیگ نون سے  زیادہ سے زیادہ سیٹیں ایڈجسٹمنٹ میں حاصل كی جاسكیں۔

 كیا پیپلزپارٹی كے خواب پورے ہوسكتے ہیں؟

مسلم لیگ نون،  جس كی پنجاب میں چار دہائیوں پر پھیلی بالادستی كو پہلے ہی تحریک انصاف نے چیلنج كرركھا ہے، كیا اس سے جان چھڑانے كے لیے وہ پیپلزپارٹی كو سیاسی سپیس دے دیگی۔ اور پھر دوسری طرف یہ سوال بھی اپنی جگہ موجود ہے كہ  پیپلزپارٹی آخر كونسا نیا بیانیہ لیكر پنجاب كے انتخابی میدان میں اترے جو عمران خان كی مقبولیت مات دیدے ۔

بظاہر نظر یہی آتا ہے كہ آصف زرداری مقبول بیانیے كی بجائے اپنی شہرہ آفاق  "مینجمنٹ كی سیاست”  كو پنجاب میں آزمانے جارہے ہیں۔ اب یہ فیصلہ وقت كرے گا كہ وہ اس میں كس حد تک كامیاب رہتے ہیں ۔۔۔ عمران خان کو اقتدار سے نکالنے اور پھر پنجاب میں نگران حکومت کی تشکیل کے مراحل پر نظر ڈالیں تو آصف زرداری کے پولیٹیکل ایڈونچرز کی کامیابی کی شرح اتنی بری بھی نہیں۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین