Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

دنیا

سعودی اسرائیل تعلقات میگا ڈیل، فلسطین نے اپنے مطالبات کی فہرست دے دی

Published

on

Palestinian President Mahmoud Abbas and Saudi Crown Prince Mohammed bin Salman

امریکی میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ اسرائیل سعودی تعلقات معمول پر لانے کی امریکا کی میگا ڈیل کے لیے فلسطینی اتھارٹی نے اپنے مطالبات کی فہرست سعودی عرب کو دے دی ہے اس فہرست میں مغربی کنارے کے زیادہ سے زیادہ علاقے کا کنٹرول اور امریکی سفارتخانے کی واپس بیت المقدس منتقلی شامل ہے۔

امریکی میڈیا کے لیے رپورٹ کرنے والے اسرائیلی صحافی نے یہ رپورٹ امریکا اور اسرائیل کے چھ ذرائع کے حوالے سے دی ہے جو اس معاملے سے آگاہ ہیں۔

رپورٹ کے مطابق فلسطینی اتھارٹی نے اس میگا ڈیل میں قابل حصول مطالبات کی فہرست اس سال کے اوائل میں دی جو اس بات کی علامت ہے کہ فلسطین کے صدر محمود عباس اور ان کے معتمدین نے امریکی قیادت میں ہونے والے مذاکرات پر ایک عملی نقطہ نظر اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ امریکی قیادت میں مذاکرات کے نتیجے میں سعودی اسرائیل تعلقات معمول پر آ سکتے ہیں ایسے میں فلسطینی اتھارٹی ریاض کے ساتھ کسی تنازع سے بچنا چاہتی ہے اور اپنی پوزیشن کا فائدہ اٹھا کر جس قدر ممکن ہو، حاصل کرنا چاہتی ہے۔

یہ 2020 کے بعد ایک بڑی تبدیلی ہے، فلسطینی اتھارٹی نے متحدہ عرب امارات اور بحرین کو ٹرمپ انتظامیہ کی ثالثی میں ابراہم معاہدے پر دستخط کرنے پر عوامی طور پر غصے اور تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

اگر فلسطینی اتھارٹی نے میگا ڈیل پر سخت اعتراض کیا تو سعودی عرب کے لیے اندرون ملک اور پوری عرب دنیا میں کسی بھی قسم کی عوامی حمایت حاصل کرنا مشکل ہو جائے گا۔

پس پردہ

امریکی اور اسرائیلی ذرائع کے مطابق، عباس کے سینئر مشیر حسین الشیخ، جو ریاض کے ساتھ اس معاملے پر مشاورت کی قیادت کر رہے ہیں، نے تین ماہ قبل سعودی قومی سلامتی کے مشیر موسیٰ بن محمد العیبان کو ممکنہ قابل حصول اہداف کی فہرست دی تھی۔

فلسطینی چاہتے ہیں کہ اسرائیل مقبوضہ مغربی کنارے کے ایریا سی کی حیثیت کو تبدیل کرکے ایریا بی بنانے پر راضی ہو جائے، ایریا سی وہ علاقہ کہلاتا ہے جہاں اسرائیل کا مکمل کنٹرول ہے، ایریا بی وہ علاقہ کہلاتا ہے  جہاں فلسطینی اتھارٹی کے پاس سویلین کنٹرول ہے اور اسرائیل سیکیورٹی کنٹرول رکھتا ہے۔

اس طرح کے اقدام سے مغربی کنارے میں فلسطینی اتھارٹی کے قدم مضبوط ہوں گے اور فلسطینیوں کی مزید ترقی کی اجازت ہوگی۔

فلسطینیوں کی فہرست میں یہ تجویز بھی دی گئی ہے کہ امریکہ آخر کار یروشلم میں اپنا قونصل خانہ دوبارہ کھولے، جسے ٹرمپ انتظامیہ نے بند کر دیا تھا۔ صدر بائیڈن نے عہدہ سنبھالتے ہی قونصل خانہ دوبارہ کھولنے کا عہد کیا تھا لیکن اسرائیلی مخالفت کی وجہ سے بند ہے۔

فلسطینی اتھارٹی یہ بھی چاہتی ہے کہ سعودی عرب یروشلم میں قونصل خانہ کھولے۔ ریاض نے اس سال اردن میں اپنے سفیر کو یروشلم میں غیر مقیم قونصل جنرل کے طور پر مقرر کیا ہے۔

فلسطینی اتھارٹی کی فہرست میں وہ اقدامات شامل ہیں جو وہ اقوام متحدہ میں فلسطین کو بطور رکن ریاست تسلیم کرنے کے لیے درکار ہیں۔

فلسطینیوں نے سعودی عرب سے فلسطینی اتھارٹی کی فنڈنگ دوبارہ شروع کرنے کا بھی کہا ہے جو کئی سال پہلے روک دی گئی تھی۔ وال اسٹریٹ جرنل نے منگل کو رپورٹ کیا کہ سعودی ایسا کرنے کے لیے تیار ہیں۔

ذرائع نے بتایا کہ فلسطینی چاہتے ہیں کہ اسرائیل کم از کم ان میں سے کچھ اقدامات پر رضامند ہو جائے اور واضح ٹائم ٹیبل کے تحت کئی سالوں سے جاری اسرائیل فلسطین حتمی حیثیت کے مذاکرات دوبارہ شروع کرنے پر راضی ہو جائے۔

ذرائع کے مطابق بائیڈن انتظامیہ فلسطینیوں کی تجاویز کے مواد سے آگاہ ہے۔ الشیخ نے فہرست کے بارے میں سوالات کا جواب نہیں دیا۔ واشنگٹن میں سعودی سفارت خانے نے بھی تبصرہ کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔

بڑی تصویر

بائیڈن انتظامیہ 2024 کی صدارتی مہم سے پہلے سعودی عرب اور اسرائیل کے ساتھ ایک میگا ڈیل کرنے پر زور دے رہی ہے تاکہ  بائیڈن اسے انتخابی کے ایجنڈے کے طور پر استعمال کرسکیں۔

وائٹ ہاؤس نے اسرائیلی حکومت پر واضح کیا کہ اسے سعودی عرب کے ساتھ اس طرح کے معاہدے کے حصے کے طور پر فلسطینیوں کو اہم رعایتیں دینا ہوں گی۔

لیکن انتظامیہ کو ایک مشکل جنگ کا سامنا ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کو فلسطینیوں کے لیے کوئی بھی اہم قدم اٹھانے پر سخت تحفظات ہیں۔ ایسا کرنے سے ممکنہ طور پر انتہائی دائیں بازو کی جماعتیں ناراض ہوں گی جو ان کے اتحاد کا حصہ ہیں اور ان کی حکومت گرنے کا خطرہ ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ کی مشرق وسطیٰ کی سینئر سفارت کار باربرا لیف نے اس ہفتے کے شروع میں اردن میں الشیخ سے ملاقات کی۔ الشیخ کے ایک بیان کے مطابق، فلسطینی انٹیلی جنس کے سربراہ ماجد فراج اور عباس کے خارجہ پالیسی کے مشیر ماجدی الخالدی نے بھی اجلاس میں شرکت کی۔

اس معاملے پر سعودیوں کے ساتھ بات چیت جاری رکھنے کے لیے الشیخ اگلے ہفتے سعودی عرب کا دورہ کریں گے۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین