Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

کالم

خود احتسابی یا کڑا احتساب؟

Published

on

Who is Imran Khan to say that Faiz Hameed should have an open trial, the reaction of security sources

ہم نے اپنا 78واں یومِ آزادی ان خدشات‘ اندیشوں‘ شبہات اور سوالات کے ساتھ گزارا کہ آگے کیا ہو گا‘ آگے کیا ہونے والا ہے؟ کچھ ایسے ہی سوالات اور ایسے ہی خدشات اور اندیشوں کا سامنا ہمیں بحیثیت قوم فروری 2024ءکے عام انتخابات سے پہلے بھی تھا۔ 2018 ءکے انتخابات کے نتیجے میں پی ٹی آئی کی حکومت قائم ہوئی تو اس وقت بھی یہی سوالات اور شبہات اپنی پوری قامت کے ساتھ ہمارے سامنے کھڑے تھے۔ 2013ءکے الیکشن کے وقت اور اس کے بعد بھی یہی معاملات تھے‘ اور یہی صورت حال تسلسل کے ساتھ قائم ہے۔

میں جب اپنے ملک کی پوری تاریخ کا جائزہ لیتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ یہ اندیشے 77 برسوں سے ہمارے ساتھ ہیں‘ ہمیں پریشان کیے ہوئے ہیں‘ ہمارے قومی سفر کو بوجھل بنائے ہوئے ہیں‘ ترقی کی راہ میں دیوار بنے ہوئے ہیں‘ اور تمام شعبہ ہائے زندگی میں انحطاط اور زوال کا باعث ہیں۔ اب جبکہ ہم ایک آزاد قوم کی حیثیت سے ایک سال اور گزار چکے ہیں اور یومِ آزادی کا جشن بھی منا چکے ہیں تو یہ سوچنے کی اشد ضرورت ہے کہ ان سوالات‘ خدشات اور اندیشوں سے آخر اب تک چھٹکارا کیوں نہیں پایا جا سکا ہے؟ اس سوال کا جواب ہے خود احتسابی سے گریز۔ ہم بحیثیتِ قوم مجموعی سطح پر اور بطور ایک فرد انفرادی حوالوں سے اپنے گریبان میں جھانکنے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں۔ چونکہ ہم خود احتسابی کے لیے تیار نہیں ہیں اس لیے حالات بھی ہمارے لیے تبدیل ہونے کے لیے راضی نظر نہیں آتے۔

ان دنوں اسٹیبلشمنٹ میں خود احتسابی کے حوالے سے جو کچھ ہو رہا ہے وہ سراہے جانے کے قابل ہے‘ لیکن میرے خیال میں اسے صرف سراہنا ہی کافی نہیں ہے‘ اس کی تقلید بھی ہونی چاہیے‘ کیونکہ یہ ایک ایسا عمل ہے جس سے معاشرے کی تطہیر ہو گی اور سماج کو درست نہج پر‘ ٹھیک ڈگر پر لایا جا سکے گا۔ ہمارا ملک 1947ءمیں ایک دو راہے پر کھڑا تھا اور آج 77 سال بعد بھی یہ ایک دو راہے پر ہی کھڑا نظر آ رہا ہے۔ ایک کے بعد ایک امتحان درپیش ہیں‘ اور ایک کے بعد ایک قربانیاں لی جا رہی ہیں۔

وزارت توانائی کے حوالے سے ابھی کل کی ہی خبر ہے کہ آئی ایم ایف کے دباﺅ اور گردشی قرضے میں اضافے کو روکنے کے لےے بجلی کی قیمت میں اضافہ ناگزیر ہے۔ ایک طرف خبر یہ ہے کہ حکومتی ملکیتی پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں (ڈسکوز) نے فیول کاسٹ ایڈجسٹمنٹ کی مد میں 31 پیسے فی یونٹ کمی کی درخواست دی ہے، جس سے صارفین کو تقریباً 4 ارب 50 کروڑ روپے کا ریلیف ملے گا‘ دوسری طرف یہ خبر سامنے آئی ہے کہ بجلی تقسیم کار کمپنیوں نے بجلی صارفین پر 47 ارب روپے کا مزید اضافی بوجھ ڈالنے کے لیے نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) میں درخوست دائر کر دی ہے۔ کچھ پتا نہیں چل رہا کہ ہو کیا رہا ہے اور آگے کیا ہونے والا ہے‘ اور اس کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ آزادی کے وقت ہم نے اپنے لیے کوئی لائحہ عمل تیار نہیں کیا تھا۔ اور اگر کیا تھا تو اس پر عمل کرنے میں ہم سے کہیں کوئی بھول چوک ہو گئی ہے جس کی سزا ہم سب ایک مسلسل زوال کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔

ہمارے ملک میں ہر شعبہ زندگی میں اگر ایک زوال کی سی کیفیت ہے اور ہر معاملہ انحطاط کا شکار نظر آتا ہے تو اس کی سب سے بڑی وجہ اس کے علاوہ کیا ہو سکتی ہے کہ ہم نے ماضی میں درست وقت پر درست فیصلے نہیں کیے۔ کیا وجہ ہے کہ زرعی لحاظ سے ایک زرخیز ملک ہونے اور صنعتی ترقی کی صلاحیتوں سے مالا مال ہونے کے باوجود ہم معاشی اور اقتصادی لحاظ سے مسلسل نیچے کی طرف جا رہے ہیں اور حالات اس نہج تک پہنچ چکے ہیں کہ ہمیں اپنے مالی معاملات کو چلانے کے لیے بار بار عالمی اقتصادی اداروں سے رجوع کرنا پڑتا ہے؟ کیا یہ پتا چلانے کی ضرورت نہیں ہے کہ ہمارے ملک پر اتنا قرضہ کیسے چڑھ گیا اور کیوں؟ کیا یہ پتا چلانے کی ضرورت نہیں ہے کہ لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کے لیے صارفین کو آئی پی پیز کے ہاتھوں کس نے بیچا اور کیوں؟ (اس کے باوجود لوڈ شیڈنگ کو ختم تو کیا کم بھی نہیں کیا جا سکا) کیا یہ پتا چلانے کی ضرورت نہیں ہے کہ ایک زرعی معیشت والا ملک ہونے کے باوجود ہمیں اپنی بہت سی کھانے پینے کی چیزیں بیرون ملک سے کیوں درآمد کرنا پڑتی ہیں؟ کیا یہ پتا چلانے کی ضرورت نہیں ہے کہ ایک زمانے میں ملک کو ریونیو اکٹھا کر کے دینے والے پی آئی اے اور پاکستان سٹیل ملز جیسے ادارے آج مفلوج کیوں ہو چکے ہیں‘ قومی خزانے پر بوجھ کیوں بن چکے ہیں اور ہمیں ان کو کوڑیوں کے بھاؤ فروخت کرنے کی مجبوری کیوں آن پڑی ہے؟ پچھلی سات آٹھ دہائیوں میں ہم نے جتنے قرضے لیے اتنی ترقی یا اتنی خوش حالی تو کہیں نظر نہیں آتی۔ لوگوں کے حالات بھی کچھ بہت زیادہ نہیں بدلے ہیں۔ آبادی کا ایک بڑا حصہ آج بھی خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے تو کیا یہ پتا چلانے کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ قرضے کہاں گئے؟

اگر ہم مستقبل قریب اور مستقبل بعید میں ترقی اور خوش حالی کے مزے لوٹنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے بہرحال ہمیں خود احتسابی کے عمل سے گزرنا پڑے گا۔ یہ دیکھنا پڑے گا کہ کس نے ماضی میں کیا کیا‘ اور اس کے کیا نتائج برآمد ہوئے۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ عدلیہ میں خود احتسابی کی گئی اور ذوالفقار علی بھٹو کے کے کیس میں جو غلطیاں سرزد ہوئیں انہیں تسلیم کیا گیا۔ کچھ ایسا ہی عمل اسٹیبلشمنٹ کے اندر بھی جاری ہے‘ تو کیا یہ بہترین وقت نہیں ہے کہ سیاسی شعبے اور دیگر معاملات میں بھی ہم خود احتسابی کے عمل کو شروع کر سکیں تاکہ ہمیں بعد ازاں کڑے احتساب کا سامنا نہ کرنا پڑے؟

چلیں 77 سال بعد ہی سہی ہمیں اس منزل کا راستہ تو کسی طور ملے جو کامیابی کی منزل کی طرف لے کر جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ گزرے ماہ و سال میں پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے۔ اُس وقت‘ اُن حالات‘ اُس زمانے اور اُس ڈگر کو واپس نہیں لایا جا سکتا‘ لیکن یہ تو کیا جا سکتا ہے کہ ہم جس مقام پر کھڑے ہیں وہاں سے ہی اپنی منزل کا راستہ سیدھا کر لیا جائے۔

معروف روحانی سکالر سرفراز شاہ صاحب کو تو آپ جانتے ہی ہوں گے۔ انہوں نے اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا کہ جون‘ جولائی‘ اگست کا وقت ملک کے لیے کڑا وقت ہو گا۔ شاید وہ وقت شروع ہو چکا ہے۔ شاید بہت سے لوگ اسٹیبلشمنٹ میں شروع ہونے والی خود احتسابی کے رگڑے میں آنے والے ہیں۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطااللہ تارڑ نے آج واضح کر دیا ہے کہ ثاقب ہو‘ نثار ہو یا جو بھی ہو‘ سابق ڈی جی آئی ایس آئی کی گرفتاری کے بعد معاملات آگے بڑھیں گے۔

ایک انٹرویو میں محترم سرفراز شاہ نے یہ بھی کہا تھا کہ اکتوبر‘ نومبر میں حالات ٹھیک ہونا شروع ہو جائیں گے۔ میری اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ایسا ہو جائے تاکہ ہم بھی ایک قوم کے طور پر ترقی اور خوش حالی کی منزل کی طرف بڑھ سکیں۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین